بے بسی، بے حسی اور تنہائی

بے بسی، بے حسی اور تنہائی
تحریر : صفدر علی حیدری
انسان خود کو سماجی جانور کہتا ہے۔ تنہا رہ نہیں سکتا کہ وہ تنہائی اسے کاٹ کھانے کو دوڑتی ہے۔ خود کو تنہائی سے بچانے کے لیے وہ ایسے لوگوں کے ساتھ اپنا بہت سا وقت گزرا دیتا ہے، جن کے ساتھ کبھی دس منٹ بیٹھنا اسے گوارا نہیں ہوتا۔
سوشل میڈیا پر حفیظ چودھری کی تحریر نظر سے گزری۔ دل پر چوٹ پڑی ، آنکھ بھر آئی۔
تنہائی ایک کربناک حقیقت کے زیر عنوان لکھتے ہیں: ’’ ماں باپ اپنی جوانی، آرام، خواہشات اور نیندیں قربان کر کے اپنی اولاد کے روشن مستقبل کی بنیاد رکھتے ہیں۔ لیکن جب وہی اولاد بڑی ہو کر نافرمان ہو جائے تو والدین کا دل صرف ٹوٹتا نہیں، بکھر کر رہ جاتا ہے۔ نافرمانی صرف بدتمیزی یا اونچی آواز میں بات کرنے کا نام نہیں، بلکہ ماں باپ کو نظر انداز کرنا، ان کے جذبات کی قدر نہ کرنا، ان کی بات نہ سننا، اور بڑھاپے میں ان کو تنہا چھوڑ دینا، یہ سب نافرمانی کی وہ شکلیں ہیں جو خاموشی سے دل چھلنی کر دیتی ہیں۔ بڑھاپے میں انسان کو سہارے، محبت اور کسی اپنے ہم دم کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ اگر ایسے وقت میں اولاد والدین کو تنہا چھوڑ دے، تو یہ صرف اخلاقی جرم ہی نہیں بلکہ روحانی اذیت بھی بن جاتا ہے۔ ایسے والدین جنہیں اولاد کی بے رخی کا سامنا ہو، ان کی دل شکستگی اور تنہائی لفظوں میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ مجھے آج بھی یاد ہے، 2017/18میں پاکستان کے ممتاز ادیب اور شاعر، ’’ ادبِ لطیف‘‘ میگزین کے روح رواں جناب ناصر زیدی صاحب سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ ان کی کتاب کی اشاعت کے سلسلے میں اُن کے گھر جانا ہوا۔ وہ منظر میرے لیے ایک صدمہ خیز تجربہ تھا۔ ایک ایسا شخص جو عمر بھر علم و ادب کی خدمت کرتا رہا، آج تنہائی کی زندگی گزارنے پر مجبور تھا۔ فالج سے متاثرہ ایک بازو کے ساتھ ، وہ خود ہماری مہمان نوازی کیلئے چائے بنانے اٹھ کھڑے ہوئے۔ میں نے پیشکش کی کہ آج چائے میں بناتا ہوں۔ دورانِ گفتگو میں نے ان سے پوچھا: ’’ زیدی صاحب! اتنے بڑے گھر میں بیوی بچوں کے بغیر زندگی کیسی گزر رہی ہے؟‘‘، اُن کی نظریں جھک گئیں۔۔۔ جواب آنکھوں سے ادا ہوا۔
ان کے گھر کام والی ماسی روز آتی تھی، جو ایک ہی وقت میں دو یا تین وقت کا کھانا بنا کر رکھ جاتی۔ وہی کھانا زیدی صاحب اگلے دنوں میں تنہا کھاتے رہے۔ شاید ان دنوں انہیں خاندان کی زیادہ ضرورت تھی، مگر فیملی کو ان کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ یہ منظر آج پھر ذہن میں ابھرا، جب سینئر اداکارہ عائشہ خان کی لاش تنہا حالت میں پائی گئی۔ جی ہاں صاحب، مجھے بھی یہ تحریر لکھنے کا خیال ان کی المناک موت کی خبر پڑھ کر آیا۔ ان کے کئی یادگار ڈرامے خیالات کی سلیٹ پر ابھرے اور ماضی کی یاد دلا گئے، ایک بیٹا کراچی ڈیفنس میں رہتا ہے، دوسرا بیٹا اسلام آباد بحریہ ٹائون کا رہائشی ہے، بیٹی ماڈلنگ کرتی ہے اور اپنی دنیا میں مگن ہے ۔ کوئی مہینہ بھر پہلے کچھ گھر والے ملنے آئے ۔ اور پھر وہ ہوا جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ ماں کی وفات کی خبر سن کر ایک بیٹا آیا، اس نے پوسٹ مارٹم کرانے سے انکار کر دیا۔ پھر خاموشی سے سخی حسن قبرستان میں شوہر کے پہلو میں انھیں سپرد خاک کر دیا گیا۔ شوبز کی کسی شخصیت نے بھی جنازے میں شرکت نہیں کی۔ یہ ایک اور المیہ ہے کہ جس شعبے میں پچاس سال کام کیا اپنا اتنا بہت سے وقت دیا، وہاں کے لوگ اتنے بے مروت نکلے کی جنازے تک میں نہیں آئے۔
یہ المیہ جنم لے چکا۔ ہونی کو ٹالنا ناممکن ہے لیکن یہ تو کیا جا سکتا ہے کہ ایسے اقدامات کیے جائیں کہ آئندہ ایسے روح فرسا واقعات رونما نہ ہوں ۔ اس واقعے پر اگر غور کیا جائے تو ایک بات کھل کر سامنے آتی ہے ۔ یہ بات والدین کے لیے ایک بڑا سبق ہے۔ اپنی زندگی میں اپنے ہاتھ کاٹ کر اولاد کو نہ دے دیں۔ یقیناَ اولاد مجبور کرتی ہے کہ ان کا جائیداد میں سے ان کا حصہ دے دیا جائے۔ پہلے تو والدین کو چاہیے اپنی زندگی میں ایسا بالکل بھی نہ کریں کہ اسی بہانے اولاد پوچھنے تو آئے گی۔ خبر گیری تو کریں گے مگر جب وہ مجبور ہو کر سب کچھ دے دیتے ہیں اور خود خالی ہاتھ رہ جاتے ہیں تو پھر وہی اولاد دارا گیری کرتی ہے۔ پلٹ کر خبر تک نہیں لیتی۔ ایدھی صاحب کے بقول ان کے پاس والدین کی تدفین کا وقت نہیں ہوتا۔ فلائٹ مس نہ ہو جائے وہ مری ہوئی ماں یا باپ کو ایدھی والوں کے سپرد کر دیتی ہے۔
جب انسان سب کچھ لکھ کر دے دیتا ہے تو والدین کو اولاد اولڈ ہوم میں جمع کروا آتی ہے۔ پھر پلٹ کر دیکھتی بھی نہیں۔ ایک ماں نے رو رو کر بتایا کہ اس کی اولاد پلٹ کر واپس نہ آئی تو اس نے انتظامیہ سے فون کرایا کہ ماں مر گئی ہے ، اولاد پھر بھی نہ آئی۔
اب اس کا ایک حل تو یہ ہے کہ اتنا رقم یا جائیداد اپنے پاس رکھی جائے تاکہ ان کے آخری دن چین سے گزریں۔ انہیں اپنی خوراک دوا اور دیگر ضروریات کے لیے اولاد کی طرف نہ دیکھنا پڑے۔
ماں باپ کے ساتھ احسان کا حکم ہے۔ ان کے ساتھ اچھے انداز سے بات کرنے اور اف تک نہ کہنے کا کہا گیا ہے۔ بڑھاپے میں ان کی خدمت کر کے جنت حاصل نہ کر سکنے والی اولاد کو بدقسمت کہا گیا ہے۔ مگر ایسے واقعات کے بعد یہ باتیں کتابی سی لگنے لگتی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسے اولاد لاکھوں کی تعداد میں موجود ہے جو ہر طرح سے ماں باپ کا خیال رکھتی ہے مگر ناخلف اولاد کی بھی کوئی کمی نہیں۔ ابھی پچھلے دنوں ایک پڑھے لکھے گھرانے کی ماں یتیم خانے میں چل بسی۔
ہمارے ادیب دوست سید عاصم بخاری کے پہلے افسانچوی مجموعہ وارث کی ایک کہانی ترکہ میں کیا پیاری بات بیان ہوئی ہے کہ باپ نے صرف دھن دولت اور جائیداد نہیں چھوڑی تھی۔ اس نے ایک بیوہ بھی چھوڑی تھی۔
وہ بھی ترکہ تھی ۔ اس کو لینے والا کوئی نہیں ہے
کسی کو گھر ملا حصے میں یا کوئی دکاں آئی
یں گھر میں سب سے چھوٹا تھا مرے حصے میں ماں آئی
شیخ سعدیؒ نے سولہ آنے سچ کہا ہے’’ ایک باپ سات بچوں کو پال سکتا ہے لیکن سات بچے مل کر ایک باپ کو نہیں پال سکتے‘‘۔
کسی بے حسی ہے کہ ہم انھیں آخری عمر میں تنہا چھوڑ دیں جنہوں نے ہر لمحہ ہمارا خیال رکھا، اپنا سب کچھ ہم پر لتا دیا۔ ہماری خاطر خود کو بیچنے پر آمادہ نظر آئے۔ بے ایمانی تک کر لی مگر اولاد کو مایوس دیکھنا انھیں گوارا نہ ہوا حکیم اسلام کا فرمان ہے ’’ اپنی زبان کی تیزی اس شخص پر مت آزمائو جس نے تمہیں بولنا سکھایا ہو‘‘
مگر کیا کیا جائے
جن پتھروں کو ہم نے عطا کی تھیں دھڑکنیں
ان کو زبان ملی تو ہمی پر برس پڑے
یہ دنیا مکافات عمل ہے۔ آخرت کے حساب و کتاب سے پہلے ایک حساب اس دنیا میں بھی ہونا ہے۔ کچھ اعمال کی سزا اسی دنیا میں ملنا شروع ہو جاتی ہے۔ ان میں سے ایک والدین کی نافرمانی ہے۔ ان کے ساتھ کیا گیا غیر انسانی سلوک ہے ۔
انسان جس اولاد کی خاطر والدین کو بھول جاتا ہے، انسان مرتا تو تو قبر پر فاتحہ پڑھنے بھی نہیں آتی۔
احساس نہ ہو احسان کیسے ہو گا۔ والدین کے ساتھ صلح رحمی کہاں سے آئے گی۔ پھر تنہائی مقدر ٹھہرے گی۔عائشہ خان کی المناک موت کا ذمہ دار پورا معاشرہ ہے۔ کسی ایک پر الزام دینا شاید ٹھیک نہ ہو۔
میرا ایک افسانہ ’’ جائیداد‘‘ اسی حقیقت کو بیان کرتا ہے۔ پورا تو پیش نہیں کر سکتا، ہاں آخری منظر درج کر رہا ہوں۔۔۔۔ جائیداد سے اقتباس۔۔۔
ماں کے کمری کا منظر ۔۔ کمرہ نیم تاریک سا ہے۔ ماں جاگ رہی ہے، کمرے میں اس وقت زیرو واٹ کا بلب جل رہا ہے ۔۔۔۔’’ امی ۔۔۔ امی ۔۔۔ ! یہ کیا بات ہوئی بھلا ۔۔۔ آپ نے میری بات نہیں مانی لیکن اپنی بہو کے کہنے پر سب کچھ اس کے نام کر دیا۔۔۔ جب میں تو کہا تھا میرے نام کر دیں۔۔۔ تب تو آپ نے میری ایک نہیں سنی تھی‘‘ وہ روٹھے روٹھے انداز میں بولا ’’ بس بیٹا ۔۔۔ بات کو سمجھو ۔۔۔۔ یہ جائیداد کل بھی تمہاری تھی یہ جائیداد آج بھی تمہاری ہے۔۔۔۔ میں کون سا اسے قبر میں لے جانے والی تھی ؟ میرا کیا ہے۔۔۔۔ آج مرے کل ساتواں دن ۔۔۔۔ میں سالوں ایک بیٹی کے لیے تڑپتی رہی ۔۔۔۔ جب تیری شادی ہوئی تو میں نے تیری بیوی کو ہی اپنی بیٹی مان لیا۔۔۔۔ آخر بہو بھی تو بیٹی ہی ہوتی ہے ناں ۔۔۔۔ جب میری بیٹی نے آ کر ضد کی تو میں انکار نہ کر سکی۔۔۔ جائیداد اس کے نام ہو یا تیرے نام ، بات تو ایک ہی ہے ناں ۔۔۔ تم دونوں کے بچوں کے ہی کام آئے گی آخر۔۔۔۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس کی ماں کی آواز بھرا گئی۔۔۔ بیٹا ماں کو تسلی دینے کے لیے آگے بڑھا تو ماں کے چہرے پر نظر پڑتے ہی وہ چونک اٹھا ۔ ’’ امی یہ ۔۔ یہ ۔۔۔۔ یہ ۔۔۔ آپ کی آنکھ کے پاس نیل کیسے پڑ گیا ۔۔۔۔ ؟‘‘ وہ ۔۔۔ وہ ۔۔۔ بیٹا ۔۔۔۔ وہ میں واش روم میں گر گئی تھی ۔۔۔ ‘‘ اور اسے یوں لگا جیسے کسی نے اسے آسمان سے اٹھا کر زمین پر پٹخ دیا ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔
صفدر علی حیدری