Column

امریکی حملہ ایران میں چین روس کو کیا پیغام دے رہا ہے؟

امریکی حملہ ایران میں چین روس کو کیا پیغام دے رہا ہے؟
تحریر ، شکیل سلاوٹ
امریکہ کا ایران میں عسکری طاقت کے استعمال کی جانب رجحان محض ایک علاقائی تنازع نہیں بلکہ ایک وسیع الجہات پیغام ہے، جو عالمی سیاست کے افق پر چین اور روس جیسے حریفوں کو بھی بھیجا جا رہا ہے۔ امریکہ بخوبی جانتا ہے کہ ایران صرف مشرقِ وسطیٰ کا ایک اہم ملک نہیں بلکہ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں چین کا اسٹریٹجک پارٹنر اور روس کے ساتھ قریبی عسکری و سفارتی تعلقات کا حامل ملک بھی ہے۔ ایسے میں ایران کے خلاف کسی بھی جارحانہ اقدام کو چین اور روس اپنے مفادات کے خلاف تصور کرتے ہیں۔
جب امریکہ ایران میں عسکری کارروائی کرتا ہے، یا اسے عالمی سطح پر تنہا کرنے کی کوشش کرتا ہے، تو اس کا ایک اہم مقصد چین اور روس کو یہ پیغام دینا ہوتا ہے کہ امریکی طاقت اب بھی فیصلہ کن ہے۔ یہ طاقت صرف مشرقِ وسطیٰ تک محدود نہیں بلکہ کسی بھی اسٹریٹجک خطے میں استعمال ہو سکتی ہے، جہاں امریکہ کو اپنے مفادات خطرے میں محسوس ہوں۔
ایران، چین کی ون بیلٹ ون روڈحکمتِ عملی کا کلیدی حصہ ہے۔ چین نے ایران کے ساتھ25سالہ اقتصادی معاہدہ کیا ہے جس میں توانائی، مواصلات، اور بنیادی ڈھانچے کی سرمایہ کاری شامل ہے۔ امریکہ کی ایران مخالف پالیسی، بالواسطہ طور پر چین کو یہ باور کرواتی ہے کہ وہ جس بھی ملک میں قدم رکھے گا، امریکہ اس کا راستہ روکنے کو تیار ہے۔ چاہے وہ معاشی ہو یا عسکری۔
روس ایران کے ساتھ نہ صرف دفاعی تعلقات رکھتا ہے بلکہ شامی خانہ جنگی میں ایران کے ساتھ مل کر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف ایک بلاک بناتا رہا ہے۔ جب امریکہ ایران پر دبا ڈالتا ہے یا کارروائی کرتا ہے، تو وہ روس کو بھی باور کرانا چاہتا ہے کہ ماسکو کی اتحادی حکمت عملی امریکہ کے مفادات کے لیے خطرہ بنے گی تو جواب سخت ہوگا۔امریکی پالیسی کا پرانا اصول ہے کہ مخالف طاقتوں کو براہ راست محاذ آرائی کے بجائے ان کے اتحادیوں کو نشانہ بنا کر کمزور کیا جائے۔ ایران پر دبا ڈال کر دراصل امریکہ ایک تزویراتی دائرہ بناتا ہے جو چین اور روس کی پیش رفت کو محدود کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس عمل میں بحر ہند سی لے کر بحیرہ روم تک امریکی عسکری موجودگی کا جواز بھی پیدا ہوتا ہے۔
ایران پر حملہ یا دبائو دراصل صرف تہران کو پیغام نہیں بلکہ بیجنگ اور ماسکو کو بھی وارننگ ہے۔ ’’ ہماری سرخ لکیر کو مت چھیڑو‘‘۔
امریکہ چاہتا ہے کہ چین اور روس اپنی عالمی پیش رفت میں محتاط رہیں، اور اگر وہ کسی خطے میں امریکی برتری کو چیلنج کریں گے تو نتائج شدید ہوں گے۔
امریکہ کا ایران میں طاقت کا استعمال درحقیقت ایک بڑی شطرنج کی چال ہے۔ اس میں پیادے، وزیر اور بادشاہ سب شامل ہیں۔ ایران ایک اسٹریٹجک مہرہ ہے، جس کے خلاف کارروائی سے چین اور روس جیسے حریفوں کو نہ صرف چوکنا کیا جاتا ہے بلکہ یہ واضح پیغام دیا جاتا ہے کہ دنیا میں طاقت کی گیم ابھی ختم نہیں ہوئی اور امریکہ اب بھی میز کے سرے پر بیٹھا ہوا ہے۔
امریکہ کو چاہیے کہ صرف طاقت کی زبان نہ بولے۔
دنیا میں طاقت اور سیاست کا کھیل صدیوں سے جاری ہے، مگر بیسویں اور اکیسویں صدی میں جس طرح عالمی سیاست نے نئی جہتیں اختیار کی ہیں، اس میں سب سے موثر کردار امریکہ نے ادا کیا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے اب تک امریکہ عالمی طاقتوں میں سرفہرست ہے، مگر یہ طاقت اکثر نرمی و حکمت کے بجائے زور، دبا اور عسکری مداخلت کے ذریعے استعمال کی جاتی ہے، جس کے اثرات نہ صرف عالمی امن بلکہ انسانی اقدار پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔ یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ امریکہ نے دنیا میں ’’ جمہوریت‘‘ اور ’’ انسانی حقوق‘‘ کے تحفظ کے نام پر کئی ممالک میں عسکری کارروائیاں کیں، جن میں عراق، افغانستان، لیبیا اور شام نمایاں مثالیں ہیں۔ ان کارروائیوں کا مقصد اگرچہ بظاہر انسانی حقوق کی بحالی اور آمرانہ حکومتوں کا خاتمہ بتایا جاتا رہا، مگر نتائج نے ثابت کیا کہ ان حملوں سے ان ممالک کی عوام کو بدامنی، خانہ جنگی، تباہ حال معیشت اور لاکھوں بے گناہ جانوں کے نقصان کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا۔
امریکہ کو اس حقیقت کا ادراک کرنا ہوگا کہ صرف طاقت، دھمکی یا معاشی پابندیوں کے ذریعے دنیا کو قابو میں رکھنا نہ صرف اخلاقی طور پر ناقابل قبول ہے بلکہ طویل المدت پالیسیوں میں ناکام حکمت عملی بھی ہے۔ طاقت کا بے جا استعمال، اقوامِ متحدہ جیسے عالمی اداروں کو بھی بے حیثیت کرتا جا رہا ہے، کیونکہ جب اقوامِ عالم دیکھتی ہیں کہ ایک طاقتور ملک عالمی قوانین کو نظر انداز کر کے من مانیاں کرتا ہے تو پھر دیگر ممالک بھی ان قوانین کی پاسداری سے گریز کرتے ہیں۔
آج کی دنیا باہمی احترام، سفارتی تعلقات اور پُرامن گفت و شنید کی متقاضی ہے۔ جب چین، روس، ایران اور دیگر ابھرتی ہوئی طاقتیں امریکہ کی یکطرفہ پالیسیوں کو چیلنج کرتی ہیں تو یہ اس بات کا واضح پیغام ہے کہ اب دنیا کو صرف ایک طاقت کی حکمرانی قبول نہیں۔ اگر امریکہ واقعی دنیا کو ایک بہتر، پُرامن اور خوشحال مقام بنانا چاہتا ہے تو اسے طاقت کے استعمال کے بجائے مکالمے، احترام، اور برابری کی بنیاد پر تعلقات کو فروغ دینا ہوگا۔
عالمی مسائل جیسے ماحولیاتی تبدیلی، غربت، بیماریوں کے خلاف جدوجہد، اور سائبر سیکیورٹی جیسے معاملات صرف عالمی اشتراک عمل سے ہی حل ہو سکتے ہیں۔ امریکہ کو چاہیے کہ وہ اپنی عسکری و معاشی برتری کو ان تعمیری میدانوں میں استعمال کرے۔ اگر وہ دنیا کو ایک بہتر جگہ بنانا چاہتا ہے تو صرف میزائل، ڈرون اور فوجی اڈے نہیں، بلکہ تعلیم، صحت، تحقیق اور ترقی کے منصوبے پیش کرے۔
یہ امر خوش آئند ہوگا اگر امریکہ اپنے اندرونی نظام میں بھی خود احتسابی کا عنصر مضبوط کرے۔ نسل پرستی، پولیس کے مظالم، اسلحہ کی آسان دستیابی اور سماجی عدم مساوات جیسے داخلی مسائل پر توجہ دینا امریکہ کو اخلاقی سطح پر مضبوط بنائے گا۔ جب ایک ملک داخلی طور پر انصاف، مساوات اور امن کا علمبردار بن جائے تو وہ عالمی سطح پر بھی بہتر مثال قائم کر سکتا ہے۔
دنیا کو آج ایک ایسے امریکہ کی ضرورت ہے جو صرف سپر پاور نہ ہو بلکہ ایک ’’ اخلاقی طاقت‘‘ ہو۔ ایک ایسا ملک جو اپنی پالیسیوں میں انسانیت، انصاف اور بین الاقوامی قوانین کا احترام رکھے۔ طاقت کی زبان وقتی فتح تو دلا سکتی ہے، مگر پائیدار امن ہمیشہ انصاف، عزتِ نفس اور باہمی احترام کے ذریعے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔

شکیل سلاوٹ

جواب دیں

Back to top button