اسرائیل حملہ اور امت مسلمہ کے جذبات

اسرائیل حملہ اور امت مسلمہ کے جذبات
تحریر : سید اصغر مشال
جب کسی قوم کو خوب اچھی طرح یہ ادراک ہو جائے کہ اس کے اردگرد موجود ممالک اس کے وجود کو برداشت نہیں کریں گے اور جونہی انہیں موقع ملے گا وہ اس کو صفحہ ہستی سے مٹا دیں گے تو اس کا ردِ عمل کیا ہوگا ؟ جبکہ وہ معاشی طور پر مستحکم اور سائنس اور ٹیکنالوجی سے لیس ہو، ہر شعبہ زندگی کے ہائی ہروفائل لوگ اس کے پاس موجود ہوں، طاقتور اور ترقی یافتہ ممالک کی پشت پناہی بھی اسے حاصل ہو اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کے عوام کندھے سے کندھا ملا کر آگے بڑھنے کے جذبہ سے بھی سرشار ہوں۔ ظاہر ہے ایسی قوم نا صرف اپنی بقا کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرے گی اور اپنے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کی کوشش کرے گی بلکہ ایسی عسکری قوت بھی حاصل کرنے کی کوشش کرے گی جو جارحیت کے ذریعے اپنے مخالفین کو ان کی حدود یاد دلا سکے۔
اسرائیل کو بھی کچھ ایسے ہی حالات کا سامنا تھا۔ گو اس کے ہمسایہ ممالک بھی اسی چھتری تلے پروان چڑھ رہے تھے جس کی حفاظت میں وہ خود تھا لیکن اس کے باوجود یہ ایک دوسرے کو ایک آنکھ نہیں بھاتے تھے۔ اس پس منظر کی موجودگی میں کئی جنگیں بھی لڑی گئیں جن میں اسرائیل کا پلڑا ہمیشہ بھاری رہا کیونکہ ایسے مشکل وقت میں بڑی طاقتیں، خاص طور پر امریکہ کُھل کر حربی اور سفارتی سطح پر اسرائیل کی مدد اور حمایت کرتا ہے جس کی وجہ سے عربوں کو بھاری نقصان اٹھا کر پسپائی اختیار کرنا پڑتی ہے۔ اس کی ایک مثال ’ ثم کپور وار‘ ہے جس میں اسرائیل بری طرح پِٹ چکا تھا اور اس کی فورسز کے پاس اسلحہ ختم ہو چکا تھا لیکن امریکہ کی بروقت مداخلت نے اس شکست کو فتح میں بدل دیا۔
عرب، اسرائیل تنازع کی اس کشیدہ صورت حال میں ترکی اور ایران کے کردار پر عالمی طاقتوں کی ہمیشہ سے نظر رہی ہے۔
جہاں تک ترکی کا تعلق ہے۔ مشرق وسطیٰ خود مختاری حاصل کرنے سے پہلے عثمانی ترکوں ہی کی علمداری میں تھا۔ جس کو پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کی حمایت کی پاداش میں اس خطہ سے ہاتھ دھونا پڑے۔ اب یہاں اس کا عمل دخل صرف اتنا ہے کہ وہ عربوں کے حالات کا عمیق نظر سے مشاہدہ کرتا ہے لیکن اب بھی خود کو اسلامی دنیا کا سربراہ سمجھتا ہے۔
دوسری طرف مشرق وسطیٰ میں ایرانیوں کا عمل دخل خواہ وہ یمنی حوثیوں اور شامی بعثیوں کی شکل میں ہو یا لبنان میں حزب اللہ اور غزہ میں حماس کو سپورٹ کرنے کی صورت میں ہو، ہمیشہ سے موجود ہے اور عالمی طاقتیں اس عمل دخل کو گہری نظر سے دیکھ رہی ہیں۔ در اصل ایران وہ واحد ملک ہے جس کی جڑیں شیعہ کمیونٹی کی صورت میں پورے مشرق وسطیٰ میں پھیلی ہوئی ہیں اور وہ کبھی بھی یہ نہیں چاہیں گی کہ ایران اتنا طاقتور ہو جائے کہ اپنے اثر و رسوخ کا موثر استعمال کر کے طاقت کے توازن کو اپنے حق میں لے جائے اور ان کے مقابل آ کھڑا ہو کیونکہ وہ مشرق وسطیٰ میں ایران کو اسرائیلی من مانی اور اپنے مفادات کے تحفظ کے راستے کی سب سی بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ روس اور چائنہ ایران کو سپورٹ ضرور کرتے ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر ملک کو اپنی ذاتی طاقت کے بل بوتے پر ہی دشمنوں کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔ اگر وہ اس قابل ہو تو دوست ممالک اس کی عملی مدد کے لیے آگے آتے ہیں ورنہ وہ بھی زبانی جمع خرچ تک محدود ہو کر رہ جاتے ہیں۔
عرب، اسرائیل کشیدگی کے حوالے سے جہاں تک گلوب کے عام مسلمانوں کا تعلق ہے تو وہ عربوں کے جانی و مالی نقصانات پر بہت دل گرفتہ ہوتے ہیں اور کڑھتے رہتے ہیں۔
گو داخلی طور پر مسلمین بڑی بری طرح فرقہ واریت کا شکار ہیں اور ان میں گہرے تضادات موجود ہیں لیکن پھر بھی وہ اسرائیلی جارحیت کی کھل کر مذمت کرتے ہیں اور اس حوالے سے ان میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ اس جارحیت کے نتیجے میں لاکھوں فلسطینی بے گھر ہو گئے، شام، لبنان، اردن اور مصر سے ان کے علاقے چھین لیے گئے اور انفرا سٹرکچر کو تباہ و برباد کر دیا گیا۔ خاص طور پر حال ہی میں غزہ میں ہونے والی اسرائیلی بمباری میں جس طرح عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور جوانوں کا قتل عام کیا گیا۔ ان تک ادویات اور غذا تک نہیں پہنچنے دی گئی اس نے ناصرف عام مسلمانوں کو شدید دکھ میں مبتلا کیا بلکہ عالمی ضمیر کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ آج مسلم دنیا میں ہر طرف نامنظور ۔۔۔۔۔۔۔ نامنظور، بائیکاٹ ۔۔۔۔۔ بائیکاٹ اور بدلہ ۔۔۔۔ بدلہ کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ مسلمان عوام اپنے حکمرانوں کو ملّت، امّت اور اخوت کا نعرہ یاد دلاتی نظر آتے ہیں لیکن مسلم حکمران خوب جانتے ہیں کہ آج کا گلوب جذبات اور عقائد کی بنیاد پر قوموں کا مقام متعین نہیں کرتا
بلکہ ان کی افادیت اور طاقت پر ان کو عزت و احترام دیتا ہے۔ ادھر داخلی طور پر ان حکمرانوں نے عوام کو عقائد اور موجودہ دور کے تقاضوں کے تضاد میں الجھا رکھا ہے تا کہ کوئی ان پر انگلی نہ اٹھا سکے اور نہ سوال کر سکے۔ جب ہم مسلم دنیا کی طرز حکمرانی کو دیکھتے ہیں تو حکمرانوں کی اس الجھائو کو پیدا کرنے کی ضرورت ہم پر واضح ہو جاتی ہے کیونکہ زیادہ تر اسلامی ممالک میں آمریت اور بادشاہت ہے اور جن ممالک میں جمہوریت ہے وہاں بھی جمہوریت اپنے لوازمات پورے کرتی نظر نہیں آتی۔
امت اور ملت کا تصور ایک دور کا بہت بڑا سچ تھا لیکن موجودہ دور میں کسی ملک کی حدود کے اندر موجود لوگوں کے مفادات کا تحفظ ہی سب سے بڑا سچ ہے خواہ اس کے لیے امت کو آپس میں ہی دست و گریبان کیوں نہ ہونا پڑے۔ اگر تو یہ تصور کسی ریاست کے مفادات کی آبیاری کر رہا ہو تو حکمران اس کا راگ الاپنا شروع کر دیتے ہیں لیکن مفادات کے ٹکرائو کی صورت میں اس کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔
اسلامی دنیا کے آپسی تعلقات کی منافقت نے امت کے تصور کو پارہ پارہ کر ڈالا ہے۔ اس منافقت کی وجہ بڑی طاقتوں کی معاشی اور ٹیکنالوجیکل برتری ہے جس نے ترقی پذیر ممالک کو ان کا دستِ نگر بنا رکھا ہے۔ اپنی اسی طاقت کو استعمال کر کے وہ ان ریاستوں کے فیصلوں ہر اثر انداز ہوتے ہیں۔
موجودہ دور میں کسی بھی قوم کی اپنے مفاد کے تحفظ کی طاقت اور سیاسی بصیرت طے کرتی ہے کہ دنیا کے ساتھ اس کے تعلقات کیسے ہوں گے۔
جذباتی نعروں اور فرسودہ تصورات کی بجائے معیشت، ثقافت، سفارت، سائنس، ٹیکنالوجی اور بیانیے کی طاقت ہی آپ کو اقوام عالم میں ایک بااثر ریاست کا مقام دلا سکتی ہے۔
سید اصغر مشال