Column

امریکہ، ایران، شمالی کوریا اور پاکستان

امریکہ، ایران، شمالی کوریا اور پاکستان
تحریر: روشن لعل

زیر نظر کالم میں جو کچھ بیان کیا جارہا ہے، وہ پہلے بھی کہیں لکھا جا چکا ہے۔ پہلے بیان کی جا چکی باتوں کو دہرانے کا مقصد امریکی صدر ٹرمپ کے دنیا پر عیاں ہو چکے رویوں اور نفسیات پر پھر سے غور کرنا ہے۔ اکثر لوگ امریکی صدر ٹرمپ کی شخصیت کو عجیب و غریب تصور کرتے ہوئے ان سے بہت کم تہذیبی اقدار کے حامل رویوں کی توقع رکھتے ہیں۔ یہ بات کوئی را ز نہیں کہ صدر ٹرمپ اکثر تکبر، مسخرہ پنکی ملاوٹ سے، مخالفین کی تضحیک اور منظور نظر افراد کی بے جا تعریف کرتے نظر آتے ہیں ۔ صدر ٹرمپ کی اس طرح کے رویوں کو عموماً غیر سنجیدہ سمجھا جاتا ہے۔ بظاہر غیر سنجیدہ نظر آنے والے ٹرمپ صاحب بعض اوقات اپنے مزاج کے مطابق انتہائی معنی خیز باتیں کر جاتے ہیں۔ ٹرمپ نے ایک مرتبہ یو این جنرل اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ کو اس وقت عالمگیریت سے کوئی سروکار نہیں بلکہ ان کی ترجیح ( امریکی) حب الوطنی ہے۔ عالمگیریت کی نفی کرنے کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ انہیں دنیا کو قومیتوں میں تقسیم کرنے کی خوشی ہے۔ وہ اس دنیا کو اپنے دوستوں اور غیر مستحق دشمنوں کے نظریے سے دیکھتے ہیں۔ ٹرمپ کی دوستوں کی فہرست میں شامل بنیامن نیتن یاہو جیسے جن لوگوں کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ انداز نہ لگانا مشکل کام نہیں کہ امریکی صدر کو کیسے لوگوں کو قابل تعریف سمجھتے ہیں۔ اپنی جس تقریر میں ٹرمپ نے دنیا کی قومیتوں میں تقسیم پر خوشی کا اظہار کیا اسی خطاب میں ایران اور اس کی مذہبی و سیاسی قیادت کو اپنا دشمن نمبر ون قرار دیا تھا۔ اس تقریر میں ٹرمپ نے ایران کے ساتھ شمالی کوریا اور اس کی قیادت کو بھی نشانہ بنایا تھا ۔ بعد ازاں دیکھا گیا کہ ایران تو ٹرمپ کے نشانے پر رہا لیکن شمالی کوریا کے لیے ان کا رویہ تبدیل ہوگیا۔
سال 1979ء کے ایرانی انقلاب سے قب لشمالی کوریا اور ایران ایک دوسرے کے متحارب سمجھے جانے والے بین الاقوامی اتحادوں کا حصہ تھے۔ شمالی کوریا اور ایران کے درمیان باہمی تعلقات اس وقت استوار ہونا شروع ہوئے جب انقلاب ایران کے بعد امریکہ اور یورپی ملکوں نے ایران پر کئی قسم کی پابندیاں عائد کیں۔ ایران کی عراق سے جنگ شروع ہونی کے بعد ایران کے پاس تیل تو موجود تھا مگر خریدار باقی نہیں رہے تھے۔ اگرچہ اس وقت ایرانی قیادت کو شاہ کے چھوڑے ہوئے زرمبادلہ کے وافر ذخائر دستیاب تھے مگر ان کے عوض اسے ہتھیار دینے کے لیے کوئی ملک تیار نہیں تھا۔ اس موقع پر شمالی کوریا نے ایران کو خام تیل کے بدلے ہتھیار دینے کا معاہدہ کیا۔ یوں دونوں ملکوں نے تجارتی توازن برقرار رکھتے ہوئے ایک دوسرے کی ضرورتیں پوری کیں۔ شمالی کوریا کو ایران کے ساتھ تعلقات کا خمیازہ یوں بھگتنا پڑا کہ امریکہ نے 1988ء میں پہلی مرتبہ اسے دہشت گردوں کے سہولت کار ملکوں کی فہرست میں شامل کر لیا۔ اس فہرست میں شامل ہونے کے باوجود شمالی کوریا ایران ، عراق جنگ کے خاتمے کے بعد بھی ایران کو خام تیل کے بدلے ٹیکنالوجی سمیت بیلسٹک میزائل فراہم کرتا رہا۔ دہشت گردوں کے دوست قرار دیئے گئی ان دونوں ملکوں کو 2002ء میں اس وقت کے امریکی صدر جارج بش نے ایک ساتھ برائی کا محور قرار دیا۔ اسی دوران امریکی اور یورپی میڈیا سے یہ خبریں نشر ہونا شروع ہوئیں کہ شمالی کوریا دفاعی تعاون کے معاہدوں کے تحت نہ صرف ایران کو میزائل ٹیکنالوجی فراہم کر رہا ہے بلکہ ان دونوں ملکوں کے ایٹمی تعاون کا امکان بھی موجود ہے۔ ایسی خبروں کی معتبر حلقوں کی طرف سے نہ تو واضح تردید اور نہ ہی تائید سامنے آسکی۔ امریکہ کی طرف سے برائی کا محور قرار دیئے گئے ممالک کی فہرست میں بعد ازاں ہوگو شاویز کا وینزویلا بھی شامل کر دیا گیا۔ اس مذکورہ دور میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب ہوگو شاویز امریکہ کے خلاف وینز ویلا، ایران اور شمالی کوریا کا اتحاد بنانے کیلئے سرگرم نظر آئے مگر پہلے ان کی بیماری اور پھر موت کے بعد یہ سلسلہ آگے نہ بڑھ سکا۔ جن دنوں ہوگو شاویز امریکہ کے خلاف سہ ملکی اتحاد قائم کرنے میں سرگرم تھے ان دنوں یورپی یونین میں شامل ملکوں اور امریکہ نے روس اور چین کی معاونت سے ایران کے سفیروں کے ساتھ اس ایجنڈے کے تحت رابطہ کیا کہ اقتصادی تعاون کی ترغیب دے کر ایران کو اس کا ایٹمی پروگرام محدود کرنے پر آمادہ کیا جائے۔ اس سلسلے میں رابطوں کا آغاز تو 2006ء میں ہوا مگر مثبت پیش رفت اس وقت ہوئی جب حسن روحانی ایران کے صدر منتخب ہوئے۔ یوں نومبر 2013ء میں ایران کا امریکہ ، برطانیہ، روس ، چین ، فرانس اور جرمنی کے نمائندوں کے ساتھ ایک عبوری معاہدہ طے پایا جس کے تحت جنوری 2016ء میں اوبامہ حکومت کے دوران ایران پر عائد اقتصادی پابندیا ں ختم ہوگئیں مگر امریکہ اور شمالی کوریا کے تضادات جوں کے توں رہے۔
گو کہ شمالی کوریا کی نسبت ایران 2016ء میں کسی نہ کسی حد تک امریکہ کے قریب آچکا تھا مگر ٹرمپ نے اپنی پہلی صدارتی مدت کی انتخابی مہم کے دوران ایران اور شمالی کوریا کو ایک جیسی برائی قرار دیا اور پھر امریکی صدر بننے کے بعد ایران کے ساتھ نیوکلیائی معاہدہ ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے پھر سے اس پر اقتصادی پابندیا عائد کردیں۔ ایران تو اس سلسلے میں اقوام عالم کے سامنے اپنی صفائیاں پیش کرتا رہا مگر ٹرمپ کی دھمکیوں کو کسی خاطر میں نہ لاتے ہوئے شمالی کوریا نے جولائی 2017ء میں بین البراعظمی بلاسٹک میزائل Hwasong-14کا تجربہ کر دیا جس پر ٹرمپ نے شمالی کوریا کو تباہ و برباد کرنے کی دھمکی دی۔ ٹرمپ کی اس دھمکی کو بھی ہوا میں اڑاتے ہوئے شمالی کوریا نے پہلے ستمبر 2017ء میں ہائیڈروجن بم بنانے کا دعویٰ کیا اور پھر نومبر 2017ء میں5 Hwasong-1کے کامیاب تجربے کے ساتھ یہ دعویٰ بھی کر ڈالا کہ اب امریکہ کا کوئی بھی علاقہ شمالی کوریا کے بلاسٹک میزائل حملوں سے محفوظ نہیں رہ سکے گا۔ شمالی کوریا کے اس دعوے کے قابل عمل ہونے کی تصدیق جب ماہرین نے بھی کردی تو پھر یکایک ٹرمپ کا رویہ شمالی کوریا کے لیے تبدیل ہونا شروع ہو گیا۔ ٹرمپ کے رویے میں تبدیلی کے ساتھ ہی شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کے منقطع ہوچکے رابطے بحال ہونا شروع ہو گئے۔ ان روابط کی بحالی کے تسلسل میں جون 2018 ء میں امریکی صدر ٹرمپ اور شمالی کوریا کے کم جونگ پہلے سنگا پور میں ملے اور پھر جون 2019ء میں شمالی اور جنوبی کوریا کی سرحد پر ان کی ملاقات ہوئی۔ اوبامہ دور میں شمالی کوریا ، امریکہ سے دور اور ایران نزدیک نظر آرہا تھا مگر ٹرمپ کے آنے کے بعد صورتحال تبدیل ہوگئی۔ صورتحال تبدیل ہونے کی اس کے علاوہ اور کوئی وجہ نہیں ہے کہ ایران پر ایٹم بم بنانے کا صرف الزام تھا جبکہ شمالی پر کوریا پر اس طرح کا ہر الزام سچ ثابت ہوگیا تھا۔ ایران پر حملے کے بعد کچھ لوگوں نے کہنا شروع کر دیا ہے کہ اگلی باری پاکستان کی ہو سکتی ہے، جو لوگ ایسا سوچتے ہیں انہیں غور کر لینا چاہیے کہ شمالی کوریا کی بجائے ایران کی باری کیوں آگئی۔

جواب دیں

Back to top button