Column

ابراہیم تراورے اور پاکستان

ابراہیم تراورے اور پاکستان
تحریر : روہیل اکبر
پاکستان دنیا کا ایسا علاقہ جہاں تیل، گیس، سونا اور معدنیات کی بھر مار ہے لیکن اسکے باوجود ہم غربت کی پستیوں میں ڈوبے ہوئے ہیں کراچی سے خیبر اور پھر گلگت بلتستان تک کوئی جگہ ایسی نہیں جو دنیاوی دولت سے مالا مال نہ ہو لیکن پھر بھی ہم ہاتھ میں کٹورا پکڑے دنیا بھر سے مالی امداد مانگتے رہتے ہیں اور تو اور آئی ایم ایف سے قرض کی بھیگ منتیں کرکر کے لیتے ہیں۔ ہماری زمینیں سونا اگلتی ہیں لیکن ہمارا کسان کئی کئی سال دو کپڑوں اور ایک جوتی میں گزار دیتا ہے، اس کے بچے پیزا اور سینڈویچ سے نا آشنا ہیں۔ ہمارے ہاں دیہات میں آج بھی بجلی اور سڑکیں نہیں ہیں، غریب لوگ کچرے کے ڈھیروں سے رزق اکٹھا کرتے ہیں اور ہمارا مزدور اپنا خون پسینہ ایک کرکے دو وقت کی روٹی نہیں کھا سکتا ایسے حالات میں اپنے وطن کو آزاد، خوشحال اور ثروت مند دیکھنے کا خواب دیکھنے والا ہر شخص کو برکینا فاسو کے صدر ابراہیم تراورے کی تاریخی تقریر ضرور سننی چاہیے جو انہوں نے لوٹ مار کرنے والوں کے خلاف کی کیپٹن ابراہیم کے دل سے نکلے ہوئے الفاظ کو ہم پاکستان کے حالات کے مطابق دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ صدر ابراہیم ہر پاکستانی کی زبان بول رہا ہے۔ ابراہیم تراورے کی تقریر کے سنہری الفاظ اس کی کی زبانی پڑھیں
’’ میں چونتیس سال کا ہوں میں نے اپنی زندگی کا ہر دن تمہارے جھوٹوں میں گزارا ہے بچپن میں، میں ٹی وی پر افریقہ دیکھا کرتا تھا مکھیوں سے گھرے ہوئے بچے، خشک زمینیں، ہتھیار، موت، بھوک، مایوسی، یہی ہے افریقہ! تم نے ہمیں بتایا کہ افریقہ ایسا ہی ہوتا ہے اور ہم نے مان لیا ہمیں اپنے آپ پر شرم آنے لگی ہمیں اپنی سرزمین سے اپنے لوگوں سے شرم آنے لگی لیکن پھر میں بڑا ہوا میں نے پڑھا، تحقیق کی، سوال کئے اور مجھے یہ سمجھ آیا کہ جو افریقہ تم نے ہمیں دکھایا وہ حقیقی نہیں تھا جو کہانی تم نے ہمیں سنائی وہ ایک جھوٹ تھا جو تقدیر تم نے ہمارے لیے لکھی وہ ایک سکرپٹ تھی جو تم نے کئی سال پہلے تحریر کر لی تھی تم نے افریقہ کو کیسے دکھایا؟ کیسے بیچا؟ یوں جیسے ہم انسان ہی نہ ہوں جیسے ہم کسی جنگل کے جانور ہوں جیسے ہم تمہارے رحم و کرم پر بے بس پڑے ہوں ہر دن، ہر لمحہ، ہر گھنٹہ بھوک، جنگ، بیماری، بدعنوانی، دہشت، انتشار اور جب کوئی ’’ افریقہ‘‘ کہتا ہے تو تمہارے لغت میں کوئی اور لفظ نہیں ہوتا، سوائے اس ے نہ امید، نہ کامیابی، نہ ترقی، نہ مزاحمت، نہ عزت، نہ فخر، نہ فتح اس پر میں انٹرنیشنل میڈیا سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا کبھی تم نے افریقہ کی کامیابی کو اپنی سرخی بنایا؟ کتنی بار تم نے روانڈا کی ٹیکنالوجی انقلاب پر لکھا؟ کتنی بار تم نے ایتھوپیا کے پائیدار ترقیاتی منصوبوں کو دکھایا؟ کتنی بار تم نے بوٹسوانا کی کامیابی کی تعریف کی؟ کتنی بار تم نے کینیا کے کاروباری نوجوانوں کی کہانی سنائی؟ نہیں ناں کیونکہ یہ سب تمہارے سکرپٹ میں فٹ نہیں بیٹھتا تمہاری افریقہ کی کہانی میں افریقہ کامیاب ہو ہی نہیں سکتا اگر افریقہ کو مدد کی ضرورت نہیں تو تم دخل اندازی کیسے کرو گے؟ اگر ہم پسماندہ نہیں تو تم ہمیں نیچا کیسے دکھائو گے؟ کیا تمہارے کسی ایڈیٹر، کسی رپورٹر نے کبھی یہ سوچا کہ دنیا کی سب سے امیر زمینوں پر بسنے والے لوگ غریب کیوں ہیں؟ دنیا کا70 فیصد کوبالٹ افریقہ کے پاس ہے تمہارے موبائل، لیپ ٹاپ، الیکٹرک کاریں اس کے بغیر نہیں چل سکتیں یہ کوبالٹ آتا ہے کانگو سے لیکن وہاں کے لوگ موبائل نہیں خرید سکتے دنیا کا 90فیصد پلاٹینم افریقہ کے پاس ہے لیکن وہاں کے لوگ بیروزگاری کی مار جھیل رہے ہیں 30فیصد سونا مالی، برکینا فاسو، گھانا، تنزانیہ میں ہے جہاں سونا ندیوں کی طرح بہتا ہے مگر لوگ غربت میں ڈوبے رہتے ہیں دنیا کے 65فیصد ہیرے بوٹسوانا، انگولا، کانگو، سیرا لیون میں ہیں جہاں سے اربوں ڈالر کے ہیرے نکالے جاتے ہیں مگر مزدور دن میں ایک ڈالر کماتے ہیں 35فیصد یورینیم نائجر، نامیبیا اور جنوبی افریقہ میں ہے پیرس کی روشنیاں ہمارے یورینیم سے چمکتی ہیں لیکن ہمارے دیہات میں اندھیرا ہے اور تم پوچھتے ہو افریقہ غریب کیوں ہے؟ سوال یہ ہونا چاہیے افریقہ اتنا امیر ہو کر بھی غریب کیسے رکھا گیا؟ تو ان سب باتوں کا جواب یہ ہے کہ نوآبادیات (Colonialism)کبھی ختم نہیں ہوئی اس نے صرف شکل بدلی پہلے تم ہمارے ملکوں پر قبضہ کرتے تھے اب تم کمپنیاں کھولتے ہو پہلے تم زبردستی قبضہ کر لیتے تھے اب ’’ معاہدے‘‘ کرواتے ہو پہلے تم کوڑوں سے حکومت کرتے تھے اب قرض دے کر
غلامی کرواتے ہو ا جس کی زندہ مثالیں یہ ہیں Glencoreسوئٹزرلینڈ کی کمپنی جو کانگو سے کوبالٹ نکالتی ہے جس کی2022میں کمائی 256ارب ڈالر تھی اور ٹیکس دیا 500ملین یعنی صرف 0.2%!کیا یہی انصاف ہے؟Rio Tintoبرٹش آسٹریلین کمپنی گنی میں ہر سال 20ملین ٹن باکسائٹ نکالتی ہے! گنی کو کیا ملا؟ آلودگی اور کینسر،Total Energiesفرانسیسی کمپنی ہے جوانگولا، نائجیریا اور کانگوسے تیل نکالتی ہے جس کا2022میں منافع 36ارب ڈالر اور افریقہ میں چھوڑے صرف زنگ آلود پائپ لائنیں،Anglo American جو جنوبی افریقہ سے شروع ہوئی اور ہیرے، پلاٹینم، لوہا سب لندن لے گئے اور پیچھے چھوڑ گئے 60لاکھ بے روزگار مزدور اس کے علاوہ خفیہ سودے بازی، خفیہ بینک اکائونٹس اور ٹیکس کی چالاکیاں جس کی وجہ سے ہر سال 88ارب ڈالر غیرقانونی طور پر افریقہ سے باہر چلے جاتے ہیں اور تم کہتے ہو 45ارب ڈالر کی امداد دیتے ہیں مگر کوئی یہ نہیں لکھتا کہ افریقہ امداد لینے والا نہیں بلکہ دینے والا ہے کیونکہ تم کیمرہ زوم کرتے ہو بھوکے پیٹوں پر جہاں سے روزانہ ٹنوں کے حساب سے سونا، ہیرا، تیل، یورینیم نکلتا ہے اس ساری لوٹ مار کے بعد میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ آپ کا مقصد صرف یہ تھا کہ بدعنوانی پھیلائو، لیڈروں کو رشوت دو، ان کے اکائونٹ کھولو ،ان کے بچوں کو اپنی یونیورسٹیوں میں داخلہ دو، سودے کرو، 50یا 99سال کے معاہدے، ٹیکس سے استثنائ، ماحولیاتی اور لیبر قوانین کی پامالی، انفرا سٹرکچر پر قبضہ، بندرگاہیں، ہوائی اڈے، ریلوے صرف کان سے بندرگاہ تک دیہات تک سڑک نہیں، اسکولوں میں بجلی نہیں اور پھر الٹا آپ نے اپنوں کو حفاظت دو کے لیے پرائیویٹ سیکیورٹی کمپنیاں فراہم کر رکھی ہیں جو ہتھیاروں کے ساتھ دہشت پھیلا رہی ہیں اور ہمارے احتجاج کو دہشت گرد ی قرار دیتے ہو اسکے ساتھ ساتھ آپ کی پالیسیوں میں میڈیا کو خاموش کرو، مقامی صحافی خریدو، اختلافی آوازیں دبائو، غیر ملکی میڈیا کو صرف افراتفری دکھائو پر مبنی ہیں یہ نظام 100سال سے چل رہا ہے‘‘۔
صدر ابراہیم تراورے کے یہ الفاظ ہر پاکستانی کے الفاظ لگتے ہیں۔ کاش کوئی ہمارا حکمران بھی انہی الفاظ کے ساتھ ہماری تقدیر بھی تبدیل کر دے۔

جواب دیں

Back to top button