Column

ظلم رہے اور امن بھی ہو

ظلم رہے اور امن بھی ہو
تحریر :صفدر علی حیدری

کہتے ہیں کامیاب انسان وہ ہے جو دنیا کو جس حالت میں پائے، اس سے بہتر حالت میں چھوڑ جائے۔
کیا یہ کوئی آسان کام ہے۔ آسان ہوتا تو ہم اپنی دنیا کو پہلے سے بہتر دیکھتے۔
دو دن کی زندگی ہے اور اس میں بکھیڑے سو ہزار۔
اب شاعر شکوہ کیوں نہ کرے
عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
آرزو اور انتظار کرتے کرتے انسان ایک دن منوں مٹی تلے جا سوتا ہے، مٹی مٹی ہو جاتا ہے۔ اور پھر لوگ تو کیا اس کے اپنے گھر والے بھی اسے بھول جاتے ہیں۔ قبر کا نشان تک محو ہو جاتا ہے۔ اب ایسی دنیا کے لیے انسان اتنا تردد بھلا کیوں کرے ۔ ہر ایک کی اپنی اپنی دنیا ہے اور اپنے اپنے مسائل ۔ دنیا کے بیشتر انسان غربت کے ہاتھوں تنگ ہیں۔ ان کی چھوٹی چھوٹی خواہشات حسرت میں بدل جاتی ہیں۔ ادھر امیر آدمی ہے دولت کی ہوس نے اس کا چین و سکون سب غارت کر رکھا ہے۔
امیر لوگوں کی دولت بینکوں اور تجوریوں میں پڑی سڑ رہی ہے۔ وہ اپنے جیسے انسانوں کو روتا تڑپتا ہوا دیکھتا ہے مگر اپنی جیب کو ہوا نہیں لگواتا۔ وہ یہ سوچ کر مطمئن رہتا ہے کہ میں تو بچا ہوا ہوں۔ اس کے مسائل کا حل تو ہے اس کے پاس ۔ دولت کی ’’ ماسٹر کی ‘‘ سے وہ ہر تالا کھولنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
مجھے اکثر خیال آتا ہے کہ کاش انسان اسلحہ جمع کرنے کی بجائے نیکیاں جمع کرتا ، نفرت بانٹنے کی بجائے محبتیں بانٹتا ، دولت کے انبار نہ لگاتا اناج کے انبار لگاتا اور انھیں بھوکے لوگوں کے منہ تک پہنچاتا تو خود بھی خوش رہتا اور دوسرے بھی اس سے خوش اور سکھی رہتے۔ اے کاش ایسا ہوتا۔ کسی تنگ دست کا ہاتھ تھام کر وہ کہتا’’ فکر کیوں کرتے ہو ، میں ہوں ناں!‘‘۔ اصل میں انسان سمجھتا ہے وہ خود سے خوش رہ سکتا ہے۔ وہ روحانی چیز کو مادی آسائشوں میں ڈھونڈتا ہے۔ اور پھر یہ شکوہ کرتا دکھائی دیتا ہے۔
سب کچھ ملا سکون کی دولت نہیں ملی
وہ آج تک یہ سمجھ ہی نہیں پایا کہ خوشی کسی عمل کا نہیں نہیں۔ یہ تو ردعمل کا نام ہے۔ دوسروں کو خوشی دے اور بدلے میں اپنی جھولی حقیقی خوشی سے بھر لو۔
ہم انسان کو دیکھتے ہیں وہ اپنی دنیا اپنے ہاتھوں سے اجاڑنے پہ تلا ہوا ہے۔ جان بچانے کی بجائے جان لینے کے درپے ہیں۔ اناج کی بجائے اسلحے کی فکر میں ہے۔
مجھے ایسے موقعوں پر احمد ندیم قاسمی بے طوح یاد آتے ہیں
اور ان نظم چوگا بھی شاید یہی رونا روتی دکھائی دیتی ہے۔
۔۔۔ باجرے کا اک دانہ اپنی چونچ میں رکھے
چڑیا اماں چوگا دینے آئی ہے
بچے اتنے ننھے مُنے سے ہیں
جب وہ چیختے ہیں
سر سے پنجوں تک چونچیں بن جاتے ہیں
دانہ ایک اور بچے دس ہیں
کس کس کی چونچ سے چونچ ملا کر ڈھارس دے
ذرہ توڑ کے حشر بپا کرنا تو تم نے سیکھ لیا ہے
دانہ توڑ کے زندگی برپا کرنا اس سے اونچا فن ہے
کیا تم دانہ توڑ سکو گے؟
دانہ ایک اور بچے دس ہیں
دانہ توڑ کے زندگی برپا کرنا واقعی ایک اونچا فن ہے۔۔
یقیناَ
دانہ توڑ کے زندگی برپا کرنا واقعی ایک اونچا فن ہے
مگر اس فن کے قدردان کتنے کم ہیں۔ شاید نہ ہونے کے برابر۔
آج ہماری دنیا ایک بار پھر جنگ کی زد میں ہے۔ مشرق وسطیٰ میں آگ و آہن کی بارش ہو رہی ہے۔ فی الحال کوئی فریق ہار ماننے کے موڈ میں نہیں ہے۔ دنیا واضح طور پر دو حصوں میں بٹ چکی ہے۔ کئی بڑے ممالک اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں۔ انصاف پسند کچھ ممالک ایران کی خاموش حمایت کر رہے ہیں۔ اب ہو گا کیا۔ آخر ہر آغاز کا ایک انجام ہوتا ہے۔ ایک امن پسند انسان جب دونوں طرف روتے ہوئے لوگ، اور اٹھتے ہوئے جنازے دیکھتا ہے تو سوچتا ہے انجام جو بھی ہونا ہے جلدی ہو
Finish it , just finish it
اگر جنگ جاری رہی اور پھیل گئی تو انسان کا وجود مٹ جائے گا بس اسلحہ باقی رہے گا۔
انسانوں کے پروردگار کی مرضی البتہ یہ نہیں ہے۔ دنیا اسی نے بنائی ہے، ختم بھی وہی کرے گا مگر کب تک، یہ راز صرف اسی کو معلوم ہے۔
ہتھیاروں کے سینے میں دل نہیں ہوتا
ان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا
ان کا کوئی رشتہ دار نہیں ہوتا
وہ سب کو ایک نظر سے دیکھتے ہیں
مگر ان کو چلانے والے تو انسان ہوتے ہیں
ان کے سینے میں دل بھی ہوتا ہے
اور اس میں جذبات بھی
وہ کیوں اندھے ہو جاتے ہیں
روتے چیختے چلاتے ہوئے لوگ دیکھ کر کس کو خوشی ہو گی، مگر کیا کریں تم لوگوں نے وحشی جانوروں کو اپنا قائد بنا رکھا ہے۔
الہامی مذاہب میں کسی کا خون بہانا بہت بڑی جسارت ہے۔ اسلام ہو، عیسائیت ہو یا یہودیت، کہیں بھی اس کام کا مباح قرار نہیں دیا گیا۔ کہیں بھی یہ تحریک نہیں دلائی گئی کہ لوگوں کا قتل عام ہو۔ بے گناہوں کے خون کی ہولی کھیلی جائے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں اکثر جھگڑے الہامی مذاہب کے لوگوں کے درمیان رہتے ہیں۔ ان تینوں ادیان کی تعداد باقی تمام مذاہب کے لوگوں سے زیادہ ہیں۔ گویا یہ لوگ اکثریت میں ہیں۔ عیسائی اور یہودی تو ٹیکنالوجی پر پورا کنٹرول رکھتے ہیں۔ دولت ان کے گھر کی باندی ہے۔ اگر وہ اپنے اپنے مذہب کی تعلیمات پر عمل کرنے لگیں تو مذہب ہو جائیں۔ اور مذہب کے جان لینے کی بجائے جان بچانے والے بن جائیں۔
دانہ توڑ کے زندگی برپا کرنا واقعی ایک اونچا فن ہے
اس اونچے فن کے قدردان بن جائیں۔ دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے میں منہمک ہو جائیں۔ دنیا میں بگاڑ پھیلانے کی بجائے بگاڑ سے روکنے والے بن جائیں۔
مسلمانوں کو دہشت گرد کہنے والے، اسلام کو تلوار کے زور پر پھیلنے کا الزام لگانے والے کبھی اپنے گریبان میں جھانک لیں تو بغلیں جھانکتے دکھائی دیں۔
اب صورت حال یہ ہے کہ دو بھینسے لڑتے لڑتے اپنے سینگ پھنسا بیٹھے ہیں۔ کوئی ایک پیچھے ہٹنا بھی چاہے تو نہیں ہٹ سکتا۔ ایسی صورت میں کسی بڑے کو آ کر بیچ بچائو کرانا ہو گا مگر افسوس ۔۔۔
آج کا بڑا امریکہ ہے جو خود امن نہیں چاہتا۔ وہ ہر وقت کوئی نہ کوئی طوفان اٹھائے رکھتا ہے۔ ایسے میں ان دونوں ملکوں کی صلح کون کرائے گا۔ سیز فائر کیسے ہو گا ؟
جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتی۔ مسائل ہمیشہ مذاکرات سے میز پر حل ہوتے ہیں۔ آخر آغاز کا انجام تو ہونا ہی ہے۔ اب وہ جتنا جلدی ہو گا اتنا نقصان کم اٹھانا پڑے گا۔
ایران ہتھیار ڈالنے پر آمادہ نہیں۔ اس کا رضاکارانہ طور پر ہتھیار ڈالنا بنتا بھی نہیں ہے اسرائیل دبائو میں ہے۔ اس سے اپنی مرضی کے معاہدے پر دستخط کرانا بہت ضروری ہے۔ اس کے دانت ٹوٹے نہیں تو کھٹے ضرور ہو چکے ہیں۔ اس سے یہ بات منوانی ہو گی کہ وہ کبھی نہتے فلسطینیوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھے۔ ان پر حملہ کرنے سے باز رہے گا ۔ کوئی ایسی حرکت نہیں کرے گا جس سے فلسطین کے عوام کو کسی قسم کے نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ صرف اسی صورت میں پائیدار امن کی امید کی جا سکتی ہے
ورنہ تو
ظلم رہے اور امن بھی ہو
کیا ممکن ہے تم ہی کہو

جواب دیں

Back to top button