کامیابی سے پہلے ۔۔۔ ( حصہ دوم)

کامیابی سے پہلے ۔۔۔ ( حصہ دوم)
تحریر : محمد مبشر انوار (ریاض )
ایران کے متعلق امریکہ و اسرائیل کا یہ اندازہ تھا کہ ایران گزشتہ کئی دہائیوں سے مختلف پابندیوں کا شکار ہے اور اس کی نہ صرف معاشی بلکہ عسکری حیثیت بھی خاصی دگر گوں ہو گی لیکن ایران نے قرآنی ہدایت کے مطابق اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کو ترجیح دی، خواہ وہ دشمن کی نظر میں ہلکا یا بوجھل ہی تھا لیکن ایران نے لڑ نے کا فیصلہ کیا۔ ایران کا لڑنے کا یہ فیصلہ نہ صرف انتہائی قابل ستائش ہے بلکہ بہت سے دیگر ممالک کے لئے قابل تقلید بھی ہے جو ایران سے کئی گنا زیادہ معاشی طور پر خوشحال بھی ہیں اور عسکری حوالے سے ان کے پاس بہرطور ایران سے کہیں زیادہ بہتر ساز و سامان بھی موجود ہے اور ان کا جغرافیائی محل وقوع بھی ان سے یہ تقاضہ کرتا ہے کہ وہ سب سے پہلے میدان عمل میں اتر کر غزہ کے مسلمانوں کی مدد کرتے، لیکن اللہ جسے یہ توفیق عطا کرے، یہ اسی کا نصیب اور سعادت ہے۔ بہرحال اس تحریر کی اشاعت تک ممکن ہے کہ جنگ بندی ہو جائے یا بصورت دیگر ایران اپنے اسلحہ خانے سے میزائلوں کے انبار ، اسرائیل پر آگ برسانے کے لئے داغتا رہے خواہ امریکہ ،اسرائیل کی مدد کے لئے اپنا دوسری ائیر ڈیفنس سسٹم یوکرین سے اسرائیل میں نصب بھی کر دے۔ یہ حقیقت اب عیاں ہو چکی ہے کہ ائیر ڈیفنس سسٹم کی حد بھی بیک وقت چند میزائلوں کو روک سکتی ہے اور مسلسل یلغار سے کوئی بھی ڈیفنس سسٹم بہرطور ناکام ہو سکتا ہے لہذا یا تو امریکہ کو بیک وقت ایک سے زیادہ ڈیفنس سسٹم اسرائیل کی حفاظت کے لئے نصب کرنا ہوں گے یا اسرائیل ایرانی میزائلوں سے بعینہ غزہ کی صورت زمین بوس ہو گا۔ ویسے ایک نکتہ مزید وضاحت طلب ہے کہ بیک وقت ایک سے زیادہ ڈیفنس سسٹم نصب کرنے سے اور انہیں بیک وقت متحرک کرنے سے کیا واقعتا مطلوبہ نتائج بھی حاصل ہو سکیں گے یا یہ ڈیفنس سسٹم آپس میں ہی ٹکرائو کی صورت پیدا کریں گے؟ مطلب یہ کہ ایک ہی وقت میں نصب اور متحرک یہ سسٹم کیا الگ الگ میزائل ناکارہ کریں گے یا تمام سسٹم ایک ہی وقت میں ایک ہی میزائل کو ناکارہ کرنے میں متحرک ہوں گے،آتے ہوئے ایک ہی میزائل کو ٹارگٹ کر کے،سب سسٹم ایک میزائل کو ناکارہ کریں گے،بہرحال اس کا اندازہ تو اسی وقت ہو گا اگر امریکہ ایک سے زیادہ ڈیفنس سسٹم نصب کرتا ہے اور ان کی کارکردگی اسی وقت سامنے آئے گی جب دوسری طرف سے میزائلوں کی بارش برسے گی۔ اس سوال کا مقصد صرف اتنا ہے کہ کیا عام حالات میں ڈیفنس سسٹم کو میزائلوں کی بارش روکنے کے لئے تیار کیا جاتا ہے یا چند ایک میزائل کوکامیابی سے ناکارہ کرنے کے لئے بنایا جاتا ہے؟کیونکہ اطلاعات یہی ہیں کہ ایران کے پاس نہ صرف میزائلوں کا وسیع ذخیرہ ہے بلکہ ایران نے اس کے لانچنگ پیڈز کو بھی انتہائی ماہرانہ و شاطرانہ انداز سے اسرائیل و امریکہ سے خفیہ رکھا ہے کہ ایران کے پاس موثر ائیر ڈیفنس سسٹم اور برتر فضائیہ نہ ہونے کے باعث،اسرائیل کا یہ دعویٰ ہے کہ ایرانی فضا اس کے تصرف میں ہے اور اسرائیل با آسانی ایرانی فضائوں میں گھوم رہا ہے۔ دوسری طرف ایران کا یہ دعویٰ ہے کہ اس نے اسرائیلی فضائیہ کے دس کے قریب لڑاکا طیاروں کو مار گرایا ہے ،جن میں تین/چار ایف پینتیس بھی شامل ہیں،اسی پر اکتفا نہیں بلکہ ایران کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ اس نے اسرائیل کی خاتون پائلٹ بھی گرفتار کر لی ہے،جس سے ایک طرف اسرائیلی دعوے کو تقویت ملتی ہے کہ ایرانی فضائیں اس کے تصرف میں ہیں تو دوسری طرف ایران کم تر فضائی طاقت رکھنے کے باوجود،اسرائیل کو کھل کھیلنے کی اجازت نہیں دے رہا،اس کی حقیقت بھی جلد ہی کھل جائیگی۔اس وقت سب سے اہم ترین پہلو یہ ہے کہ کیا طاقتور غیر مسلم طاقتیں،جو ایران سے بغض و پرخاش رکھتی ہیں،اس جنگ میں براہ راست کود جائیں گی یا معاملات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے،خود کو اس سے دور رکھیں گی؟تاحال صورتحال یہی دکھائی دیتی ہے کہ امریکہ بہادر ،جو پہلے کسی حد تک اس جنگ میں براہ راست کودنے پر آمادہ دکھائی دیتا تھا،روس و چین کی تنبیہات کے بعد فی الوقت خود کو اس جنگ سے دور رکھنے پر ترجیح دیتا دکھائی دے رہا ہے جبکہ دوسری طرف ایران پر دباؤ مسلسل بڑھایا جا رہا ہے تا کہ اسرائیل کا نقصان کم سے کم ہو لیکن ایران ایسے کسی دبائو کو خاطر میں نہیں لا رہا اور اس کے میزائل حملے ایک تسلسل کے ساتھ اسرائیل کی تباہی و بربادی رقم کر رہے ہیں۔
بظاہر تو یونہی دکھائی دیتا ہے کہ اسرائیل کی نسبت ،ایران کا نقصان کہیں زیادہ ہو رہا ہے کہ ایران کے اندر سے ہی ایسے ’’ کپوت‘‘ سامنے آ رہے ہیں کہ جو ایران کے لئے نقصان دہ ثابت ہو رہے ہیں جبکہ ایران اس اندرونی شدید زخم کے باوجود خم ٹھونک کر میدان میں کھڑا ہے۔ یہاں فیلڈ مارشل کے اس نازک ترین موقع پر امریکہ کا دورہ اور بالخصوص ٹرمپ کے ساتھ ملاقات ،نہ صرف انتہائی اہم ہے بلکہ اپنے اندر شدید شکوک و شبہات لئے ہوئے ہے کہ اس ملاقات کے پس پردہ کیا معاملات زیر بحث ہوں گے،اس کو سمجھنے کے لئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے کہ پاکستان کا ماضی اس پر ایک کھلی کتاب ہے کہ کس طرح ہمارے زعماء ذاتی مفادات کے عوض،قومی و ملی مفادات کا سودا کرتے آئے ہیں،ویسے پاکستان ہی کیا،سارے مسلم حکمرانوں کا کم و بیش یہی رویہ رہا ہے۔ اس امر پر میڈیا میں کھل کر باتیں ہو چکی ہیں اور تقریبا سب کو ہی علم ہو گیا ہے کہ اس ملاقات میں ٹرمپ کی طرف سے کیا مطالبات کئے جا سکتے ہیں اور ہمارا جواب کیا ہو سکتا ہے کہ بعینہ ماضی میں افغانستان کے خلاف پاکستان کس طرح فرنٹ لائن سٹیٹ بنا اور اس وقت بھی امریکی مفادات کا تقاضہ کیا ہے؟سوال مگر یہ ہے کہ کیا اس مرتبہ ہمارا فیصلہ مختلف ہو گا یا ہو سکتا ہے،اس کا اندازہ بھی آنے والے چند دنوں میں ہو جائیگا کہ پاکستان کی سمت کیا ہوتی ہے؟علاوہ ازیں! گریٹر اسرائیل کے منصوبہ کو ذہن میں رکھیں تو یہ اس وقت تک ممکن ہی نہیں جب تک غیر مسلم دنیا کھل کر اسرائیل کے شانہ بشانہ کھڑی نہیں ہوتی اور اسرائیلی یلغار کو آگے بڑھنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے عقب کو محفوظ بنا کر ہی پیشقدمی کرے وگرنہ اسرائیل کو ہمیشہ عقب سے حملے کا خطرہ رہے گا۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو شامی قیادت کا اسرائیلی حمایت کا اعلان واضح کرتا ہے کہ الجولانی بھی بہرطور اسرائیلی مہرے کے طور پر ہی کام آئے گا اور اردن کے موجودہ کردار کو سامنے رکھیں تو اسرائیل کو اس سے بھی کوئی خطرہ نظر نہیں آتا،لبنان کی صورتحال بھی کوئی بہت زیادہ مختلف دکھائی نہیں دیتی یا اس کو بھی تب تک قابو کر لیا جائیگا ،باقی ترکیہ بچتا ہے ،جس کے بوقت ضرورت پرکاٹنے میں اسرائیل و ہمنوا کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں،اس کے متعلق حتمی طور پر کچھ نہیں کہاجاسکتا۔
نبی اکرمؐ کی پیش گوئیوں کو ذہن میں لائیں تو واضح طور پر ارشاد گرامی ہے کہ یہودی آخر وقت میں سرزمین حجاز تک پہنچ جائیں گے لیکن اس کے باوجود وہ مدینہ منورہ میں داخل نہیں ہو سکیں گے۔ اس حدیث نبویؐ کو سامنے رکھیں تو اس وقت بظاہر جو کامیابیاں ایران کا مقدر بنی نظر آتی ہیں،وہ عارضی ہی ہو ں گی تاہم ایران کے اس کردار کی اہمیت بہرطور تاریخ میں رقم ہو گی کہ ایسے وقت میں جب صرف ایرانی ریاست،جو چاروں طرف سے گھری ہوئی تھی،نے غزہ کے مسلمانوں کی مدد سے ایک لمحے کے لئے بھی ہاتھ نہیں کھینچا بلکہ اپنی حیثیت سے کہیں آگے بڑھ کر، صیہونی و نصرانی طاقتوں سے کم وسائل کے ساتھ بھی بھڑ گئی۔ ایران آج کی دنیا میں حقیقی معنوں میں سورہ توبہ کی پیش کردہ دوآیات پر بھرپور طریقے سے عمل پیرا ہے،اور ممکنہ طور پر انہی آیات پر عمل پیرا ہونے کے طفیل ہی ایران کو یہ کامیابی بھی ملی ہے۔ زمینی حقائق بے شک ایران کی اس کامیابی کی نوید سنا رہے ہیں لیکن میرا یہ ایمان ہے کہ جو فرمان آقائے نامدار محمد مصطفیؐ نے فرمایا ہے، وہ ہو بہو بروئے کار آئے گا اور اس کے مطابق ایران کی یہ کامیابی بہرطور عارضی ہی ہوگی کہ جب تک یہودی شام و عراق و اردن و سعودی عرب کی سرزمین پر قابض نہیں ہو جاتے،مسلمانوں کے لئے حقیقی کامیابی ممکن نہیں۔ دوسری روایت یہ بھی ہے کہ خراسان سے اٹھنے والا لشکر جب تک سرزمین ہند کے حکمرانوں کو زیر نہیں کر لیتا،انہیں پابہ زنجیر اسیر نہیں بناتا،خراسان کا لشکرمنزلیں مارتا بیت المقدس تک نہیں پہنچتا،مسلمانوں کے لئے حقیقی و حتمی کامیابی ممکن نہیں کہ ہند کو فتح کرنے کے بعد ہی خراسان کے لشکر کا عقب محفوظ ہو گاوگرنہ ہر لمحہ عقب سے وار کا خدشہ و خطرہ موجود رہے گالہذا ایران کی اس کامیابی کو عارضی ہی سمجھا جائے گا کہ تاحال ہند کے حکمران کھلے بندوں نہ صرف آزاد ہیں بلکہ وہ ہند میں مسلمانوں کے خون کی ہولی بھی کھیل رہے ہیں۔ جب تک یہ عوامل پورے نہیں ہو جاتے، مسلمانوں کے لئے عارضی کامیابی ہی ہے اور یہ سب حقیقی و حتمی کامیابی سے پہلے مسلمانوں میں کمزوری کو ختم کرنے اور قرآن پر ایمان کو مضبوط کرنے کے مترادف ہے۔