Column

تم ایک گورکھ دھندہ ہو

تم ایک گورکھ دھندہ ہو
تحریر: صفدر علی حیدری

مارک ٹوئن نے کہا تھا
There are three kinds of lies: lies, damned lies, and statistics
اردو میں مشتاق احمد یوسفی کا اقتباس اسی خیال کا ایک تغیر معلوم ہوتا ہے، جہاں وہ مزاحیہ انداز میں جھوٹ کو تین اقسام میں تقسیم کرتے ہیں: جھوٹ، سفید جھوٹ، اور سرکاری اعداد و شمار۔
حبیب جالب نے کیا خوب کہا تھا
وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پائوں ننگے ہیں بے نظیروں کے
وفاقی بجٹ 26۔2025کابینہ کے جاری اخراجات میں دوگنا اضافہ کی تجویز دی گئی ہے۔ تنخواہوں اور مراعات کے لیے کابینہ کا بجٹ 35کروڑ 18لاکھ سے بڑھا کر 68کروڑ 87لاکھ کرنے کی تجویز۔ وفاقی وزراء اور وزرائے مملکت کی تنخواہوں اور مراعات کے لیے بجٹ 27کروڑ سے بڑھا کر 50کروڑ 54لاکھ روپے کرنے کی تجویز۔ وزیراعظم کے مشیروں کی تنخواہوں اور مراعات کے لیے بجٹ تین کروڑ 61لاکھ روپے سے بڑھا کر 6کروڑ 31لاکھ روپے کرنے کی تجویز۔ وزیر اعظم کے معاونین خصوصی کے لیے تنخواہوں اور مراعات کی مد میں بجٹ 3کروڑ 70لاکھ روپے سے بڑھا کر 11کروڑ 34لاکھ روپے کرنے کی تجویز۔ کابینہ ڈویژن کا بجٹ 3ارب 33کروڑ 44لاکھ روپے سے بڑھا کر 4ارب 21کروڑ 59لاکھ روپے کرنے کی تجویز۔
بجٹ 26۔2025کے حوالے سے حامد میر نے دلچسپ نکتہ اٹھایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حالیہ بجٹ پیش ہونے کے بعد عام پاکستانیوں کا یہ سوال ہے کہ کیا اس کے بعد مہنگائی میں اضافہ ہوگا یا کمی ہو گی، پھر انہوں نے حبیب جالب کا شعر سنایا:
وہ جب اعلان کرتے ہیں بجٹ کا
غریبوں ہی کا ہو جاتا ہے جھٹکا
حامد میر کے مطابق حبیب جالب نے یہ شعر1991ء میں کہا تھا اور یہ 2025ء میں بھی پورا ہوتا نظر آرہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب بھی بجٹ آتا ہے تو یہ ہمیشہ غریبوں کیلئے بری خبر بن کر آتا ہے ۔
وفاقی حکومت نے 175کھرب سے زائد کا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کر دیا ہے۔ پٹرول، ڈیزل، موٹر سائیکل رکشے، چھوٹی گاڑیاں ، مہنگی ہوں گی۔ موبائل فون اور سولر پینل کی قیمتیں بھی بڑھیں گی۔ کپڑے جوتے میک اپ اور کھلونے سمیت آن لائن شاپنگ جیب پر بھاری پڑے گی۔ بیرون ملک سے آن لائن چیزیں منگوانا بھی مہنگا ، نان وائلنس گاڑیوں اور جائیداد نہیں خرید سکیں گے۔ وزیر خزانہ کا بجٹ تقریر میں کہنا تھا کہ یہ بجٹ انتہائی اہم اور تاریخی موقع پر پیش کیا جارہا ہے، حالیہ پاک بھارت جنگ میں قوم نے یک جہتی کا مظاہرہ کیا، حالیہ جنگ میں کامیابی پر عسکری اور سیاسی قیادت کو مبارک باد دیتا ہوں، عالمی برداری میں پاکستان کا وقار بلند ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قومی عزم اور یکجہتی کو بروئے کار لاتے ہوئے ہماری توجہ اب معاشی ترقی پر ہے، معاشی اصلاحات کے ذریعے معاشی استحکام لایا گیا، معیشت کی بہتری کے لیے کئی اقدامات کیے، افراط زر میں نمایاں کمی ہوئی اور ترسیلات زر 10ماہ میں 36ارب ڈالر رہیں ۔
مالی سال 2025-2026کے لیے اقتصادی ترقی کی شرح 4.2فیصد رہنے کا امکان ہے، افراط زر کی اوسط شرح 7.5فیصد متوقع ہے، بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 3.9فیصد ، پرائمری سرپلس جی ڈی پی کا 2.4فیصد ہوگا.وفاقی بجٹ میں ایف بی آر کے محصولات کا تخمینہ 14ہزار 131ارب روپے ہے، اس کے علاوہ دفاعی بجٹ کیلئے 2550ارب روپے رکھے گئے ہیں ، وفاقی حکومت کی خالص آمدنی11ہزار 72ارب روپے ہو گی جب کہ وفاقی حکومت کے کل اخراجات کا تخمینہ 17ہزار 573ارب روپے ہے، پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے لیے ایک ہزار ارب کا بجٹ مختص کیا گیا ہے۔ نان فائلرز گاڑی یا غیرمنقولہ جائیداد نہیں خرید سکے گا، بجٹ 2025-26میں تجویز ہے۔ بجٹ میں تنخواہوں میں 10اور پنشن میں 7فیصد اضافے کی تجویز دی گئی ہے۔ وفاقی حکومت نے بجٹ 26۔2025میں آن لائن خریداری پر 18فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنیکی تجویز دی ہے۔ پاکستان وہ بدقسمت ملک ہے جہاں لاکھوں بچے سکولوں سے باہر ہیں، غذائیت کی کمی بڑے مسئلوں میں سے ایک ہے ، غربت بہت زیادہ ہے، کروڑوں لوگ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں، پینے کو صاف پانی میسر نہیں لیکن دونوں ملکوں کا دفاعی بجٹ دیکھیں تو یہ حیرت انگیز حد تک زیادہ ہے۔ ماہرین کے بقول جب تک ملک میں جدید معاشی اصلاحات نافذ نہیں ہوں گی اور حکومتیں چاہے علامتی ہی سہی مگر اپنا سائز اور اپنے اخراجات کم نہیں کریں گی۔ دفاع جیسے شعبوں کے بجٹ بڑھنے کا بوجھ ترقیاتی اور فلاحی منصوبوں پر ہی پڑتا رہے گا۔
نجی ٹی وی کے مطابق وزارت پارلیمانی امور نے تنخواہوں میں اضافے سے متعلق نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ اسپیکر قومی اسمبلی و چیئرمین سینیٹ کی تنخواہ 13لاکھ روپے مقرر کی گئی ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق سپیکر قومی اسمبلی و چیئرمین سینیٹ کی تنخواہ میں اضافہ یکم جنوری 2025ء سے لاگو ہو گا۔ واضح رہے کہ اس سے قبل سپیکر قومی اسمبلی و چیئرمین سینیٹ کی تنخواہ 2لاکھ 5ہزار روپے تھی۔ ہر رکن قومی اسمبلی اور سینیٹر کی ماہانہ تنخواہ میں 5لاکھ 19ہزار روپے اضافے کی منظوری دی تھی۔ اس سے قبل اراکین اسمبلی کو ایک لاکھ 80ہزار روپے ماہانہ تنخواہ ملتی تھی۔ موجودہ بجٹ میں غریب کو خاص طور ٹارگٹ کیا گیا ہے۔ مزدور کی تنخواہ 37ہزار رکھی گئی ہے لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ یہ تنخواہ لے گا کہاں سے۔ کون دے گا اسے اتنے پیسے ؟۔
سولر پینلز کی وجہسے ملک میں لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ حل ہوا ہے اور وہ یہ واحد چیز ہے جو سستی ہوئی تھی۔ اب اس پر ٹیکس لگانے کا کہا جا رہا ہے۔ بجلی کے مہنگا ہونے کی خبریں حوصلہ شکن ہیں۔ مجموعی طور پر اس بجٹ میں ایک عام آدمی کے لیے کوئی خوشی کی بات نہیں ۔ جو وزیر خزانہ 37ہزار کا گھر کے چار افراد کا بجٹ نہ بنا سکے وہ پورے ملک کا بجٹ کیسے بنا پائے گا ؟۔
اس بجٹ میں کوئی خوبی ہے تو وہ قوم کی نظروں سے اوجھل رہے گی۔ اسے بس حکومتی اراکین ہی دیکھ سکتے ہیں۔ اگر ان کو کہا جائے کہ یہ حسب اختلاف کا بنایا ہوا بجٹ ہے تو وہ اس میں ایسے ایسے کیڑے نکالیں گے کہ خدا کی پناہ ۔ ایک دن میں نے پوسٹ لگائی ’’ میں اتنا اچھا بھی نہیں ہوں جتنا میری امی مجھے سمجھتی ہے اور اتنا برا بھی نہیں ہوں جتنا میری بیوی مجھے کہتی ہے‘‘۔
افسوس موجودہ بجٹ کے بارے میں ہم یہ بھی نہیں سکتے۔
جس کھیت سے دہقاں کو روٹی میسر نہ آئے، اس کھیت کا غریب سے کیا لینا دینا۔
ملک و قوم کی کسی کو فکر نہیں۔ ہمارے سیاست دانوں کو قوم کی فکر تب ہوتی ہے جب وہ اپوزیشن میں ہوتے ہیں ۔ لیکن جب وہی لوگ حکومت میں آتے ہیں تو انھیں ملک کی فکر پڑ جاتی ہے۔ اب وہ ملک کے نام پر قوم پر ظلم کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
انڈیا سے جنگ جیتنے کا فائدہ سامنے آ گیا۔ مبارک ہو کہ دفاعی بجٹ بڑھا دیا گیا ہے۔
قوم کو چاہیے کہ وہ لفظوں اور ہندسوں کے گورکھ دھندے کو جو کہ ریلیف دینے والا نہیں تکلیف دینے والا ہے، اس کے بارے کچھ سوچنے کی بجائے اپنے کام سے کام رکھے۔ ہو سکتا ہے اسی سے بگڑے کام سنور جائیں۔
آخر میں بہلول دانا کا وہ جواب لکھنے کو دل چاہتا ہے۔
ہارون الرشید نے پوچھا تھا اگر کوئی روٹی چراتا ہوا پکڑا جائے تو اس کی کیا سزا ہے ؟
بہلول کا جواب تھا’’ بادشاہ کے ہاتھ کاٹ دو ‘‘۔
صفدر علی حیدری

جواب دیں

Back to top button