کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے

کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے
تحریر : رفیع صحرائی
بالآخر پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کرانے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ حکومت پنجاب نے اعلان کیا ہے کہ اس سال ماہ نومبر میں صوبہ بھر میں بلدیاتی نتخابات کروا دیئے جائیں گے۔ اس کے لیے حکومت پنجاب نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں پانچ ارب روپے کی رقم بھی مختص کر دی ہے۔ پنجاب اسمبلی نے صوبے میں بلدیاتی انتخابات کرانے کی منظوری بھی دے دی ہے۔ ان انتخابات کے انعقاد کے لیے ورکنگ شروع کر دی گئی ہے۔ پتا چلا ہے کہ نئے بلدیاتی نظام میں اضلاع کی بجائے تحصیل کونسلز کو مالی سطح پر بااختیار بنایا جائے گا۔
پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے لیے یہ فیصلہ بھی کیا گیا ہے کہ یونین کونسل کے چیئرمین اور وائس چیئرمین کے انتخاب کا طریقہ کار تبدیل کیا جائے گا۔ اب ان کا انتخاب براہِ راست ووٹرز نہیں کریں گے بلکہ یونین کونسل کے چیئرمین اور وائس چیئرمین کا انتخاب کونسلرز کریں گے۔ یاد دہے کہ اس سے پہلے چیئرمین اور وائس چیئرمین کا انتخاب پینل کی صورت میں ووٹرز نے کرنا تھا۔
بلدیاتی ادارے جمہوریت کی نرسری ہوتے ہیں۔ کسی بھی ملک کی جمہوریت کی مضبوطی کا اندازہ لگانا ہو تو اس ملک کے بلدیاتی نظام اور بلدیاتی اداروں کو حاصل اختیارات سے لگایا جاتا ہے۔ یہ ادارے جمہوری معاشرے کی شان، جان، پہچان اور آن ہوتے ہیں۔ ان اداروں کے ذریعے عوام کے مسائل ان کی دہلیز پر حل کیے جاتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں ہمیں جمہوریت اوجِ ثریا پر نظر آتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں بلدیاتی اداروں کے انتخابات میں باقاعدگی پائی جاتی ہے۔ ان کے جمہوری ادارے مکمل طور پر فعال اور بااختیار ہیں اور یہ ادارے مقامی سطح پر عوام کے مسائل حل کرنے میں سنجیدگی سے کوشاں رہتے ہیں۔
ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے۔ یہاں ہر شعبہ زندگی میں الٹی گنگا بہانے کا رواج ہے۔ بلدیاتی اداروں کو سب سے زیادہ نقصان ہمارے سیاست دانوں اور جمہوری حکومتوں نے ہی پہنچایا ہے۔ وہ جنہیں ہم آمر کہتے ہیں ان کے ادوار میں جمہوری ادارے پھلے پھولے بھی اور فعال بھی رہے۔ اقتدار کی نچلی سطح تک منتقلی بھی ہوئی اور ان سیاسی نرسریوں نے ملکی سیاست کو بہت سے سیاستدان بھی عطا کئے۔
ایوب خان کا بی ڈی نظام ہو یا جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے بلدیاتی سسٹم ہوں۔ سبھی نے بلدیاتی اداروں کو فعال اور مضبوط کیا۔ ہمارے سیاست دانوں کے لیے بلدیاتی نظام ایک ناپسندیدہ سسٹم ہے۔ آپ مشہور سیاسی خانوادوں پر نظر ڈال لیں۔ وہ کسی نہ کسی طور ہر حکومت کا حصہ رہے ہیں۔ جاگیرداروں اور وڈیروں کو وراثت میں زمین اور جائیداد کے ساتھ ساتھ سیاست بھی ملتی ہے۔ ان موروثی سیاست دانوں اور وڈیروں، جاگیرداروں کو بلدیاتی نظام وارا نہیں کھاتا۔ بلدیاتی نظام میں عام آدمی کو بھی آگے آنے کا موقع مل جاتا ہے جو اقتدار اور اختیارات پر قابض ان موروثی سیاست دانوں کو کسی صورت گوارا نہیں ہے۔
گزشتہ سال 2024ء میں یہ خبر تواتر کے ساتھ گردش کرتی رہی کہ پنجاب کے صوبائی وزیر بلدیات جناب ذیشان رفیق کی طرف سے ایک سمری تیار کر لی گئی ہے جو ماہِ جون2024 ء میں اسمبلی سے پاس کروا لی جائے گی۔ اس سمری کے مطابق پنجاب میں یکم جولائی 2024ء سے 31دسمبر 2025ء تک اٹھارہ ماہ کے لیے بلدیاتی اداروں کو جنہیں عمران خان کے دور میں معطل کیا گیا تھا اپنی مدت پوری کرنے کے لیے بحال کر دیا جائے گا۔ عوام کی طرف سے اس فیصلے پر خوشی کا اظہار کیا گیا تھا۔ کیونکہ صرف صوبہ پنجاب میں ہی بلدیاتی ادارے معطل ہیں اور پی ڈی ایم کی حکومت، نگران حکومت یا موجودہ جمہوری حکومت نے بلدیاتی اداروں کی بحالی یا نئے بلدیاتی انتخابات کروانے کی طرف پیش رفت نہیں کی تھی۔ یہاں تک کہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان جناب عمر عطا بندیال جنہوں نی پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں ٹوٹنے کے بعد ان دو صوبوں میں انتخابات کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا تھا وہ بھی بلدیاتی اداروں کی طرف سے غافل ہی رہے تھے۔ ایسے میں ان اداروں کی بحالی اور فعالیت کی خبر ٹھنڈی ہوا کا جھونکا تھی مگر ابھی اس خبر کی بازگشت بھی ختم نہ ہوئی تھی کہ پنجاب میں بلدیاتی اداروں کے ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیئے گئے اور بحالی کا معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا تھا۔
اب ایک مرتبہ پھر بلدیاتی اداروں کے انتخابات کی خبر دی گئی ہے جو سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات کا نتیجہ ہے۔ اللہ کرے یہ پیش رفت عملی جامہ پہننے کے مرحلے تک پہنچ جائے اور درمیان میں کوئی بہانہ بنا کر بلدیاتی انتخابات مزید سال دو سال کے لیے آگے نہ بڑھا دیئے جائیں۔ جس طرِح اسلام آباد کیپیٹل ایریا میں بلدیاتی الیکشن بار بار التوا کا شکار ہو رہا ہے۔