Column

اب آیا اونٹ پہاڑ کے نیچے۔۔۔

اب آیا اونٹ پہاڑ کے نیچے۔۔۔
تحریر : صفدر علی حیدری
بچپن بھی کیسا عجیب و غریب دور ہوتا، گزر کر بھی نہیں گزرتا، یادوں میں سدا بہار رہتا ہے، زندہ رہتا ہے۔ اپنی موجودگی کا احساس دلاتا رہتا ہے۔ وہ ساری شرارتیں، وہ ساری بحث وقوفیاں جو ہم نے اس دور میں کیں ، یاد آتی ہیں تو ہمارے سر شرم سے نہیں جھکتے، ہمارے چہروں پر خوشی کا عکس لہرانے لگتا ہے۔ یہ تو اسے بھی خوش کر دیتی ہیں جن کے سامنے ہم اپنے بچپن کے قصے بیان کرتے ہیں۔
یاد پڑتا ہے کہ بچپن میں ہم نے جب یہ سنا کہ بھڑ مارنے کا دو رکعت کا ثواب ملتا ہے تو جب جب موقع ملتا ہم اس پر حملہ آور ہوتے اور پھر ایک دوسرے کو بتاتے کہ ہم نے آج اتنی رکعت نماز کا ثواب کمایا ہے۔ جمعہ کو چوں کہ چھٹی ہوتی تو اس دن ہمارے ثواب کی گنتی کئی گنا بڑھ جاتی۔
اسی دوران ہم نے ایک نیا کام یہ شروع کر دیا کہ اپنے ہاتھ یا جوتے سے ایک بھڑ کو نیچے گراتے اور پھر اس کے ارٹے سے قبل تیلیوں کی مدد سے اس کی دم کو وہ حصہ اس کے جسم سے الگ کر دیتے جس میں ڈنگ لگا ہوتا تھا۔ اب وہ بے بس کیچوے کے جیسا بن جاتا، جسے ہم ہاتھوں پر اٹھائے اٹھائے پھرتے کہ ہمیں پتہ ہوتا تھا اب یہ ہمیں کچھ نہیں کہہ سکے گا۔ اب اس کی بے بسی ہمارے ہونٹوں پر ہنسی کے لے آتی تھی۔
اب آتے ہیں حال کی جانب جہاں ایران اسرائیل تنازع پوری دنیا کا واحد موضوع بن کر رہ گیا ہے۔ ہر دو جانب سے ایک دوسرے پر تابڑ توڑ حملے جاری ہیں ۔ اسرائیل اگرچہ پلٹ کر وار کر رہا ہے مگر یہ بھی ایک سچ ہے کہ وہ اپنی تاریخ کے ہے بدترین دور سے گزر رہا ہے ۔ اس غنڈے نے لڑائی شروع تو کر دی ہے لیکن اسے سمجھ میں نہیں آ رہا کہ یہ ختم کیسے ہو گی ؟
امریکہ اب اسرائیل کی حمایت میں کھل کر سامنے آ چکا ہے۔ امریکی صدر نے ایرانی عوام کو باقاعدہ دھمکانا شروع کر دیا ہے۔ امریکی صدر نے ایران کی فضائی حدود کے مکمل کنٹرول کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں معلوم ہے رہبرِ اعلیٰ کہاں چھپے ہوئے ہیں۔
مشرقِ وسطیٰ کی صورت حال کے پیشِ نظر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کینیڈا میں منعقدہ جی سیون اجلاس چھوڑ کر امریکہ واپس روانہ ہونے کا فیصلہ کیا، جبکہ فرانسیسی وزیر اعظم نے کہا ہے کہ ایران میں فوجی کارروائیوں سے حکومت کی تبدیلی بڑی غلطی ہو گی۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی تبدیلی سے افراتفری برپا ہو گی۔ ان کا خیال ہے کہ ممالک کو ایران کے جوہری پروگرام پر بات چیت کے لیے دوبارہ مذاکرات کی میز پر آنا چاہیے۔ان کا کہنا تھا ’’ مجھے یقین ہے کہ ہمیں امریکہ کی ضرورت ہے تا کہ ہر ایک کو میز پر واپس لایا جائے‘‘۔
اسرائیلی دفاعی فورس ( آئی ڈی ایف) کے ترجمان ایفی دیفرن نے صحافیوں کو دی گئی بریفنگ میں بتایا ہے کہ ہم نے گہرائی میں جا کر ایران کی جوہری، بیلسٹک اور کمانڈ صلاحیتوں کو نشانہ بنایا ہے، دیفرن نے دعویٰ کیا کہ اسرائیل نے ایرانی سکیورٹی کے رکن علی شادمانی کو ہلاک کیا ہے۔ علی شادمانی غلام علی رشید کے جانشین تھے جو گزشتہ ہفتے اسرائیلی حملے میں مارے گئے تھے ۔ جبکہ اسرائیل کے وزیرِ خارجہ جدون ساعر کا کہنا ہے کہ ایران میں حکومت کی تبدیلی اسرائیلی فوج کی عسکری مہم کا حصہ نہیں ہے تاہم اس مہم کے نتیجے میں ایسا ضرور ہو سکتا ہے۔ جدون ساعر نے صحافیوں کو بتایا کہ اسرائیل کے تین مقاصد ہیں: سب سے پہلے ایران کے نیوکلیئر پروگرام کو شدید نقصان پہنچانا اور ابھی بھی ہم اس میں مصروف ہیں۔ دوسرا مقصد ایرانی حکومت کے بیلسٹک میزائل پروگرام کو شدید نقصان پہنچانا ہے
اور آخر میں اسرائیل کے خاتمے کے منصوبے شدید نقصان پہنچانا بھی ہمارے مقاصد میں شامل ہے ۔
روس اور چین نے ایران پر اسرائیلی حملوں کو غیرقانونی اور عالمی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ صیہونی ریاست دنیا کو جوہری تباہی کی طرف دھکیل رہی ہے۔ روسی وزارتِ خارجہ نے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایران کی جوہری تنصیبات پر اپنے ان حملوں کو فوری طور پر بند کرے۔ روس نے مغربی ممالک پر الزام لگایا کہ وہ صورتحال کو سیاسی انتقام کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
یہ بات واضح ہے کہ مغربی بلاک کی جانب سے جوہری عدم پھیلائو کے عالمی نظام کو چالاکی سے سیاسی مخالف ممالک سے حساب برابر کرنے کے لیے استعمال کرنا عالمی برادری کے لیے مہنگا ثابت ہو رہا ہے اور بالکل ناقابل قبول ہے۔
خلیج فارس اور خلیج عمان کے بیچ واقع آبنائے ہرمز ایران اور عمان کی سرحد کے درمیان موجود ہے جو ایک مقام پر صرف 33کلومیٹر چوڑی ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مجموعی عالمی تیل کی رسد کا پانچواں حصہ اسی راستے سے گزرتا ہے۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت اور ایران جیسے ممالک سے تیل دیگر ممالک کو پہنچایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ دنیا میں سب سے زیادہ ایل این جی برآمد کرنے والا ملک قطر بھی اپنی برآمدات کے لیے اسی گزر گاہ پر انحصار کرتا ہے۔ 1980ء سے 1988ء تک جاری رہنے والی ایران اور عراق کی جنگ کے دوران دونوں ممالک نے ایک دوسرے کی تیل کی رسد اور برآمدات کو متاثر کرنے کی کوشش کی تھی اور اس تنازع کو اسی وجہ سے تاریخ میں ’’ ٹینکر جنگ‘‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اگر ایران آبنائے ہرمز کو بند کر دے تو عالمی تیل کی 20فیصد رسد متاثر ہو گی۔ جون میں جے پی مورگن نامی عالمی ادارے نے خبردار کیا تھا کہ ایسا ہونے سے تیل کی قیمت فی بیرل 120سے 130ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔ اب ایک نئی صورت حال سامنے آ رہی ہے۔
تل ابیب کے جنوب میں واقع بیت یام کا علاقہ عرصہ دراز سے اسرائیل میں دائیں بازو کی اتحادی حکومت کی حمایت کرتا رہا ہے۔ اتوار کی صبح اسی علاقے میں ایک ایرانی میزائل دس منزلہ رہائشی عمارت پر گرا جس کے نتیجے میں کم از کم آٹھ افراد ہلاک ہوئے اور درجنوں ملبے تلے دب گئے۔ ایران کے خلاف کارروائی کے باوجود اگر یہ تنازع بڑھتا ہے اور عام شہریوں کی ہلاکتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو یہ کہنا مشکل ہے کہ اسرائیل کے عوام کتنے مشکل دن برداشت کر پائیں گے۔
آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے ایک بیان نے مسلم دنیا کے دل جیت لیے ہیں : ’’ اگر ہم مار بھی دئیے گئے تو کوئی مسئلہ نہیں کیوں کہ ایران اہم نہیں اسلام اہم ہے ‘‘۔
یہ صرف ایک جملہ نہیں یہ وہ پیغام ہے جو دل پر اثر کرتا ہے۔ یہ وہ للکار ہے جو دشمنوں کے محلات ہلا دیتی ہے، انہوں نے کہا ہم کچھ بھی نہیں، اسلام پر تو امام حسینؓ قربان ہو گئے۔ اسلام کی عظمت یہ ہے کہ امام حسینؓ نے اپنی پوری اولاد کو بھی دین پر قربان کر دیا۔
یہ بیان صرف ایران کی نہیں ہر اس دل کی آواز ہے جو حق کے لیے دھڑکتا ہے، یہ وہ وقت ہے جب دنیا کو سننا ہو گا کہ اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد ایران کے ساتھ ساری دنیا کے غیور عوام ہیں۔ مسلمانوں کی اکثریت اس جنگ میں ایران کے ہمراہ کھڑی ہے ۔
ایران کو گھر کے بھیدیوں کی خبر رکھنا ہو گی۔ ان کی خبر لینا ہو گی ورنہ ان کا دشمن اتنا کامیاب نہیں ہو سکتا تھا۔ ایران نے بھارت کا مکروہ چہرہ بھی شاید اب پہچان لیا ہے۔
کہتے ہیں اونٹ بیٹھ بھی جائے تو قامت میں کتے سے بلند ہوتا ہے۔ ایران نے اولین دھچکے کے بعد اپنا آپ ثابت کیا ہے۔ جنگ کچھ دن اور چلی اور وہ استقامت سے حملے کرتا رہا تو اسرائیل کی حالت اس بھڑ جیسی ہو جائے گی جس کا ڈنگ نکل چکا ہو۔
پوری دنیا کے مظلوم عوام کو ایرانی جرات نے ایک نئی سمت دکھائی ہے۔ غیرت کی، حمیت کی، حکمت کی اور جرات کی سمت۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایران کو سرخ رو فرمائے، آمین
صفدر علی حیدری

جواب دیں

Back to top button