ایران کے خلاف عالمی پابندیوں کے اقتصادی اور فوجی اثرات

ایران کے خلاف عالمی پابندیوں کے اقتصادی اور فوجی اثرات
تحریر : قادر خان یوسف زئی
بین الاقوامی سیاست کی بساط پر ریاستوں کے تعلقات محض سیاسی و سفارتی رابطوں تک محدود نہیں ہوتے، بلکہ اکثر وہ اقتصادی پابندیوں، دفاعی مقابلوں اور پیچیدہ اسٹریٹجک کھیل کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ ایران اور اسرائیل کے حالیہ تنازع نے اس حقیقت کو مزید واضح کیا ہے۔ 13جون 2025ء کو شروع ہونے والا اسرائیل، ایران تنازع محض دو ممالک کے درمیان فوجی ٹکرائو نہیں بلکہ عالمی سیاست کے وسیع تر نقشے پر پابندیوں اور عسکری صلاحیتوں کے امتحان کی ایک نئی شکل اختیار کر چکا ہے۔ اسرائیل کے خلاف ایرانی سرپرائز ردعمل نے امریکہ سمیت یورپ کو بھی ورطہ حیرت میں مبتلا کیا کہ ایران عالمی پابندیوں کے باوجود اسرائیل کے جدید ترین دفاعی نظام کو اکھاڑنے میں کامیاب رہا اور اہداف کو بھرپور نشانہ بنایا ۔ ایران کی اس صلاحیت نی ایران مخالف گروپوں کو پسپا کرنے پر مجبور کیا ۔
تہران پر 1979ء سے لے کر آج تک لگنے والی پابندیاں، امریکہ اور یورپی یونین کے مختلف ادوار میں سخت سے سخت تر ہوتی رہی ہیں۔ یہ پابندیاں اگرچہ ایران کی معاشی کمر توڑنے کے لئے عائد کی گئی تھیں مگر ان کا اثر محض اقتصادی نہیں رہا، بلکہ ایران کی دفاعی اور عسکری حکمت عملیوں پر بھی گہری چھاپ چھوڑ گیا۔ امریکہ کی جانب سے عائد پابندیوں کا سلسلہ اتنا طویل اور گہرا ہے کہ شاید ہی کوئی شعبہ ایسا بچا ہو جو ان پابندیوں کی زد سے محفوظ رہا ہو۔ ایرانی معیشت کے اہم ترین ستون، تیل اور مالیاتی ادارے، پابندیوں کے شدید ترین دبا کا شکار رہے۔ امریکی پالیسی سازوں نے ’’ زیادہ سے زیادہ دبائو‘‘ کے نام سے جو مہم شروع کی، اس کا بنیادی مقصد ایرانی تیل کی برآمدات کو تقریباً ختم کرنا تھا۔ اس مقصد میں وہ بڑی حد تک کامیاب بھی رہے، کیونکہ ایرانی تیل کی برآمدات 2018ء سے 2019ء تک تقریباً 90فیصد تک کم ہو گئیں۔ لیکن اقتصادی میدان سے آگے بڑھ کر دیکھا جائے تو پابندیوں نے ایران کی فوجی صلاحیتوں کو واضح طور پر متاثر کیا۔ ایرانی فوج کے روایتی اسلحہ کی حالت پرانی اور محدود ہے۔ فرسودہ لڑاکا طیارے، کمزور دفاعی نظام، اور بحری طاقت میں نمایاں کمزوریاں ایران کو روایتی جنگ کے میدان میں اسرائیل جیسے جدید اسلحہ سے لیس ملک کے مقابلے میں کمزور بناتی ہیں۔ فضائی دفاع کی خامیوں نے اسرائیل کو ایرانی فضائوں میں داخل ہو کر متعدد اہداف کو نشانہ بنانے کا موقع فراہم کیا، جس سے ظاہر ہوتا ہی کہ پابندیوں کے نتیجے میں دفاعی نظام کی جدید کاری ایران کے لیے ایک کٹھن چیلنج ہے۔
لیکن کیا اس کے باوجود ایران مکمل طور پر کمزور پڑ گیا ہے؟ کیا پابندیوں نے اس کی عسکری قوت کو مفلوج کر دیا ہے؟ یہاں ایک اور حقیقت سامنے آتی ہے جو تہران کی اسٹریٹجک سوچ کی گہرائی کو واضح کرتی ہے۔ ایران نے اس کمزوری کو پہچانتے ہوئے غیر متناسب جنگی حکمت عملیوں کا سہارا لیا۔ یہی حکمت عملی ایران کی سب سے بڑی طاقت بن کر ابھری۔ بیلسٹک میزائل اور ڈرون پروگرام میں خود کفالت حاصل کرنے کے لیے ایران نے پابندیوں کے تحت ہی جدت طرازی کا راستہ تلاش کیا۔ حیران کن طور پر یہ پابندیاں ہی تھیں جنہوں نے ایران کو میزائل اور ڈرون ٹیکنالوجی میں داخلی طور پر مضبوط بنا دیا۔ اس کا واضح مظاہرہ حالیہ اسرائیل ایران تنازع کے دوران دیکھا گیا جب ایران نے سینکڑوں میزائل اور ڈرون اسرائیلی اہداف پر داغے۔ یہ کارروائی ایران کی اسٹریٹجک لچک اور فوجی صلاحیتوں کی واضح مثال تھی جو پابندیوں کے باوجود ممکن ہو سکی۔ ایران نے اپنے پراکسی گروہوں کو فعال رکھتے ہوئے اسرائیل پر دبا بڑھایا، جس سے اسرائیل کو کافی حد تک دفاعی حکمت عملی تبدیل کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ ایران کا پراکسی نیٹ ورک، خاص طور پر حزب اللہ، ابھی تک اسرائیل کے لیے ایک بڑا خطرہ بنا ہوا ہے، جسے مبینہ طور پر ایران سالانہ 700ملین ڈالر تک کی مدد فراہم کرتا ہے۔ پابندیاں اس سپورٹ سسٹم کو مکمل طور پر ختم نہیں کر سکیں۔
لیکن یہ تصویر کا محض ایک رخ ہے۔ اسرائیل کی فضائی قوت نے ایران کے کئی اہم تنصیبات کو نشانہ بنایا، جن میں نتانز اور اصفہان کی جوہری تنصیبات بھی شامل ہیں۔ ایرانی دفاعی نظام اسرائیل کے ان حملوں کو روکنے میں ناکام رہا، جس سے اس کی بنیادی کمزوریاں بے نقاب ہوئیں۔ دفاعی ماہرین کے مطابق ایرانی میزائل انوینٹری بھی تیزی سے کم ہوتی جا رہی ہے جس سے مستقبل میں اسٹریٹجک ڈیٹرنس کی صلاحیت متاثر ہو سکتی ہے۔ اس پیچیدہ صورت حال میں ایران کی پابندیوں سے بچنے کی حکمت عملی بھی اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ شیڈو فلیٹ، فرنٹ کمپنیوں کا جال، اور چین جیسے ممالک کے ذریعے پابندیوں کی خلاف ورزی ایران کو سانس لینے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ شیڈو فلیٹ کے ذریعے ایران سالانہ اربوں ڈالر کی آمدنی حاصل کرتا ہے، اور یہ رقم عسکری پروگراموں کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے۔
حالیہ تنازع سے ایک بات واضح ہو گئی کہ پابندیوں کی وسیع تر شدت بھی ایران کو اسٹریٹجک مقاصد سے مکمل طور پر دستبردار ہونے پر مجبور نہیں کر سکی۔ ایران نے اپنے دفاعی بجٹ کو کم کر کے بھی اپنی بنیادی عسکری اہلیتوں کو زندہ رکھا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ پابندیاں ناکام ہو گئیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تہران کی حکمت عملی میں وہ لچک اور موافقت پیدا ہو گئی ہے جو پابندیوں کی شدت کو غیر مثر بنا دیتی ہے۔ مستقبل میں خطے کی جغرافیائی سیاست کیا رخ اختیار کرتی ہے، یہ کہنا قبل از وقت ہے، لیکن یہ بات واضح ہے کہ اسرائیل، ایران تنازع میں تیزی خطے کو ایک مکمل جنگ کی طرف لے جا سکتی ہے۔ اگر امریکہ اس تنازع میں براہ راست شریک ہو گیا تو جنگ کا پھیلائو بڑھ جائے گا اور یہ صرف اسرائیل کی حد تک محدود نہیں رہے گا۔ ایسی صورت حال میں آبنائے ہرمز میں کان بچھانے کے خطرات بڑھ جائیں گے جو عالمی توانائی مارکیٹ کو مزید غیر مستحکم کر سکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پابندیوں کے ذریعے ایرانی فوجی صلاحیتوں کو محدود تو کیا جا سکتا ہے، لیکن ختم نہیں۔ معاشی دبا کے باوجود، ایران کا جنگی جذبہ اور دفاعی حکمت عملی بدل نہیں سکی۔ یہ صورتحال اس امر کی عکاسی کرتی ہے کہ عسکری حکمت عملی محض اقتصادی پابندیوں سے قابو میں نہیں آتی، بلکہ اس کے لیے زیادہ گہرے سیاسی اور سفارتی اقدامات کی ضرورت ہے۔
یہ تنازع عالمی برادری کو دعوت دے رہا ہے کہ وہ اقتصادی پابندیوں کے کردار، ان کی حدود اور ممکنہ ردعمل کا ازسر نو جائزہ لیں۔ عسکری حکمت عملی، پابندیوں کی حکمت عملی، اور سفارتی کوششیں ایک پیچیدہ پہیلی کے مختلف حصے ہیں جو ایک دوسرے کے بغیر نامکمل ہیں۔ اسرائیل، ایران تنازع اسی حقیقت کا تازہ ترین اور واضح ثبوت ہے۔