Column

بے نظیر بھٹو کا سیاسی ظہور اور جدوجہد

بے نظیر بھٹو کا سیاسی ظہور اور جدوجہد
تحریر : ڈاکٹر ضرار یوسف
محترمہ بے نظیر بھٹو نے پہلی مرتبہ 28جون 1972ء کو پاکستان اور بین الاقوامی پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں بھرپور توجہ حاصل کی، جب صدر پاکستان ذوالفقار علی بھٹو، 92رکنی وفد کے ہمراہ ایک اہم مشن پر بھارت کے شہر شملہ روانہ ہوئے۔ ان دنوں قوم مشرقی پاکستان کے سانحے کے بعد مایوسی اور امید کے درمیان جھول رہی تھی۔ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن چکا تھا۔ پاکستان کے 93ہزار فوجی اور شہری بھارت کی قید اور مغربی پاکستان کا تقریباً دس ہزار مربع میل رقبہ بھارت کے قبضے میں تھا۔ ایک شکست خوردہ قوم کا لیڈر، مذاکرات کی میز پر اپنے تدبر اور فہم و فراست کے جوہر دکھانے کا ارادہ لیے بھارت جا رہا تھا۔
بیگم نصرت بھٹو ان دنوں علیل تھیں، لہٰذا وفد میں ان کی نمائندگی محترمہ بے نظیر بھٹو نے کی۔ یہ ان کا پہلا اہم بین الاقوامی دورہ تھا، اُس وقت ان کی عمر صرف 19برس تھی، جسے لڑکپن سے نکلنے کا دور کہا جا سکتا ہے۔
صدر ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی ٹیم کو ہدایت دی کہ ’’ شملہ مذاکرات کے دوران خوشی یا غمی کا تاثر چہروں پر ظاہر نہ ہونے پائے، اور بھارت میں جنگی قیدیوں یا دیگر حساس موضوعات پر کوئی گفتگو نہ کی جائے۔ ہر موقع پر مکمل ضبط اور نارمل رویہ اختیار کیا جائے‘‘۔
یہ دراصل محترمہ کی عملی سیاسی تربیت کا آغاز تھا۔ شملہ مذاکرات کے دوران محترمہ کو بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی اور ان کی ٹیم سے ملاقات کا موقع ملا، اور وہ براہِ راست دیکھتی رہیں کہ صدر بھٹو ایک ہاری ہوئی جنگ کے بعد بھی مذاکرات کی میز پر کس حکمت سے فتح حاصل کرتے ہیں۔ آخرکار، تین جولائی کی صبح 4:00 بجے شملہ معاہدہ طے پایا، جس پر ذوالفقار علی بھٹو اور اندرا گاندھی نے دستخط کیے۔
تعلیم کا سفر اور آکسفورڈ کی قیادت
1973 ء کے موسمِ خزاں میں محترمہ بے نظیر بھٹو برطانیہ منتقل ہوئیں اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے لیڈی مارگریٹ ہال میں فلسفہ، سیاست، اور اقتصادیات میں انڈرگریجویٹ ڈگری کامیابی سے مکمل کی۔ اپنے والد کے اصرار پر انہوں نے مزید ایک سال آکسفورڈ میں رہ کر پوسٹ گریجویٹ تعلیم سینٹ کیتھرین کالج میں مکمل کی۔ 1977ء میں محترمہ آکسفورڈ یونین کی صدر منتخب ہوئیں اس منصب پر فائز ہونے والی وہ پہلی ایشیائی خاتون تھیں ۔ ان کی مدت کے بعد ان کی قریبی دوست وکٹوریہ شوفیلڈ ان کی جانشین بنیں۔ بھارتی طلبا سے سماجی روابط کے باوجود، وہ ہمیشہ پاکستانی وقار کی علامت رہیں۔
سیاسی زندگی کا آغاز اور ضیاء آمریت کی مخالفت5 جولائی1977ء کو جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء نافذ کیا۔ اس وقت 18اکتوبر 1977ء کو انتخابات منعقد کرنے کا اعلان ہوا اور الیکشن مہم جاری تھی۔ 28ستمبر کو لائلپور ( موجودہ فیصل آباد) کے دھوبی گھاٹ میں ایک بڑے جلسہ عام سے بیگم نصرت بھٹو نے خطاب کرنا تھا، لیکن 27ستمبر کو انہیں نظر بند کر دیا گیا۔ ان کی جگہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے جلسے سے خطاب کیا۔ یہ ان کا پنجاب میں پہلا اور ملک میں تیسرا بڑا سیاسی جلسہ تھا۔ صرف 23سال کی عمر میں وہ پارٹی کی قیادت میں اپنی والدہ کے شانہ بشانہ آ گئیں۔ یہ جلسہ تاریخی حیثیت اختیار کر گیا، عوام کا جم غفیر دھوبی گھاٹ، بھوانہ بازار، کوتوالی روڈ اور جھنگ روڈ تک پھیل گیا۔ 29 ستمبر کو محترمہ نے اوکاڑہ میں جلسہ کیا۔ عوامی ردِ عمل اور جلسوں کی شدت نے مارشل لاء انتظامیہ کو پریشان کر دیا۔ انہیں یقین ہو گیا کہ 18اکتوبر کو الیکشن ہوئے تو پیپلز پارٹی کی فتح یقینی ہے ۔ یکم اکتوبر کو جنرل ضیاء نے انتخابات منسوخ کر دئیے۔
قید، اذیت اور مزاحمت کا سفر
ضیاء آمریت نے محترمہ کے حوصلے پست کرنے کے لیے قید، نظر بندی، اور شدید ذہنی و جسمانی اذیتوں کا سہارا لیا۔ 1977 ء سے 1988ء تک انہیں متعدد بار گرفتار اور نظر بند کیا گیا۔ وہ لاہور، سکھر اور دیگر جیلوں میں طویل قید تنہائی کا سامنا کرتی رہیں۔ قید کے دوران ان سے کتابیں، اخبارات اور رسائل چھین لیے جاتے۔ مقدمات یا الزامات کا کوئی واضح جواز نہیں ہوتا، یہ صرف سیاسی انتقام کی بنیاد پر سلوک کیا جاتا۔ ان کے والد، قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو، کو ایک جانبدار متعصبانہ عدالتی فیصلے کے تحت پھانسی دے دی گئی۔ محترمہ کی اپنے والد سے آخری ملاقات جیل ہی میں ہوئی، جو ایک ناقابلِ فراموش اذیت ناک لمحہ تھا۔ جیل کی کال کوٹھری میں شدید گرمی، سردی، روشنی اور ہوا کی کمی، طبی سہولتوں کی عدم دستیابی اور مسلسل نگرانی جیسے حالات ان کے صبر کا امتحان لیتے رہے۔ ملاقاتوں کے دوران سرکاری اہلکار موجود ہوتے، نجی گفتگو میں مداخلت کرتے، اور لکھنے پڑھنے کی آزادی محدود کر دی جاتی۔ باوجود تمام تر پابندیوں کے، انہوں نے اپنی یادداشتیں سنبھال کر رکھیں، جنہیں بعد ازاں انہوں نے اپنی خودنوشت Daughter of the East( دخترِ مشرق) میں قلمبند کیا۔
بے نظیر بھٹو استقامت کی علامت
محترمہ بے نظیر بھٹو کی قید، صرف ایک سیاسی رہنما کی گرفتاری نہ تھی بلکہ آمریت کے خلاف جمہوریت کی جنگ تھی۔ ایک نوجوان لڑکی نے ظلم، صدمات اور تنہائی کے اندھیروں میں بھی استقامت، وقار اور اصولوں پر سمجھوتہ نہ کیا۔
یہ جدوجہد تمام سیاسی کارکنان کے لیے ایک مشعلِ راہ ہے کہ کس طرح اپنے نظریے اور مقصد کے لیے ظلم و ستم کا سامنا کیا جاتا ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو، عظیم قائد ذوالفقار علی بھٹو کی بہادر بیٹی، تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔
بے نظیر بھٹو زندہ باد

جواب دیں

Back to top button