Column

جنگ اور ایرانی عوام کا الم

جنگ اور ایرانی عوام کا الم
تحریر : روشن لعل
اس وقت فلسطینیوں کے بعد ایرانی وہ دوسری قوم ہیں جنہیں اس کرہ ارض پر المناک زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ ایرانیوں کا موجودہ الم تو اسرائیل کی طرف سے ان پر مسلط کی گئی حالیہ جنگ ہے لیکن ان کی المناک زندگی کا آغاز اس سے بہت پہلے ہو گیا تھا۔ ایک عرصہ سے المناک زندگی گزارنے والے ایرانیوں کے پاس قابل فخر ماضی کے ساتھ ساتھ، زمانہ حال میں ہر وہ قدرتی نعمت موجود ہے جس کی بدولت وہ اقوام عالم میں قابل رشک زندگی گزار سکتے ہیں۔ عرصہ دراز سے اقتصادی پابندیوں کا اسیر ہونے کے باوجود ایران کو اس وجہ سے دنیا کی ابھرتی ہوئی اقتصادی طاقت تصور کیا جاتا رہا کیونکہ ترقی پذیر ملکوں میں یہ واحد ملک ہے جس کے انسانی وسائل ترکی کی طرح ،خام تیل کے ذخائر سعودی عرب سے مماثل، قدرتی گیس کی فراوانی روس جیسی اور معدنی وسائل آسٹریلیا کے ہم پلہ تصور کیے جاتے ہیں۔ اقتصادی پابندیوں کے باوجود ایران کا صنعتی ڈھانچہ کبھی بھی مفلوج نہ ہوا۔ اپنے فعال صنعتی ڈھانچہ کے سبب ایران کو لوہے کی پیداوار میں دنیا کے پہلے 15ملکوں، آٹو موبائل انڈسٹری میں بھی دنیا کے پہلے 15ملکوں اور سیمنٹ کی پیداوار میں دنیا کے پہلے 5بڑی ملکوں می شمار کیا گیا۔ اس کے علاوہ سائنس کے کئی شعبوں میں بھی ایران کی ترقی فقید المثال سمجھی گئی۔ ایران کو سائنٹفک کاغذ کی پیداوار میں دنیا کا 17 واں بڑا ملک کہا گیا۔ اس کی یہ صلاحیت ترکی اور اسرائیل سے بھی بہتر سمجھی جاتی رہی۔ بہترین سائنسدان اور انجینئر تیار کرنے والی ایران کی شریف یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی اور تہران یونیورسٹی کا شمار دنیا کی قابل قدر یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے۔ ایران میں اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود بھی اگر اس کے عوام عرصہ دراز سے المناک زندگی گزارنے پر مجبور ہیں تو اس کے محرکات صرف بیرونی نہیں بلکہ اندرونی بھی ہیں۔
آج ایران پر ایٹمی اسلحہ بنانے کی صلاحیت حاصل کرنے کے الزام کے تحت جنگ مسلط کی گئی ہے۔ ترقی یافتہ اور سرمایہ دار ملکوں کے جس کارٹل نے کبھی عراق پر تباہی برپا کرنے والے کیمیائی ہتھیار رکھنے کا الزام لگا کر حملہ کیا تھا وہی کارٹل آج بھی کوئی ثبوت پیش کیے بغیر بضد ہے کہ ایران کا نیوکلیائی شعبہ میں تحقیق کا مقصد ایٹم بم بنانے کی صلاحیت حاصل کرنے کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے۔ اس طرح کے الزام لگا کر ایرانی عوام پر زندگی کا دائرہ تنگ کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ایٹمی طاقت بننے کی کوششیں کرنے کے الزام کے تحت جن ایرانیوں کا ناطقہ بند کیا جارہا ہے ان کی بہت بڑی تعداد سال2016 ء میں بارک اوبامہ کے صدارتی عہد کے دوران اس وقت رات بارہ بجے کے بعد خوشیاں مناتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئی تھی جب امریکہ اور ایران کے درمیان نیوکلیائی معاہدے پر عملدرآمد کا آغاز ہوا تھا۔ امریکہ کے ساتھ جوہری معاہدے پر عمل درآمد کے آغاز پر ایرانیوں نے سڑکوں پر نکل کر جس طرح بے ساختہ اپنی خوشیوں کا اظہار کیا اس سے یہ بات کھل کر سامنے آئی تھی کہ وہ کس قدر بالغ نظر ہیں کیونکہ خوشیاں منانے والے ان ایرانیوں کو یہ غم نہیں تھا کہ ان کا ملک اب ایٹمی قوت نہیں بن سکے گا بلکہ وہ اس امید پر خوش تھے کہ بیرونی پابندیاں ختم ہونے کے بعد ان پر معاشی ترقی کے بند دروازے اب کھلتے چلے جائیں گے ۔ ایران ، امریکہ جوہری معاہدہ طے پانے سے پہلے امریکہ میں اس کی حمایت یا مخالفت کی پیمائش کے لیے جو سروے ہوئے ان میں 59فیصد لوگوں نے اس کی حمایت اور 31فیصد نے مخالفت کا اظہار کیا تھا جبکہ 10فیصد نے کوئی جواب دینا مناسب خیال نہ کیا۔
بعض حلقوں کی طرف سے مذکورہ جوہری معاہدے کو ایران کی پسپائی تصور کیا گیا تھا، اس کے باوجود اکثر ماہرین اس بات پر متفق تھے کہ پابندیوں کے خاتمے کے بعد اب ایرانی معیشت کو ترقی کے بھر پور مواقع دستیاب ہوں گے۔ دوسرے لوگوں کی طرح امریکی صدر اوبامہ نے بھی اسی قسم کے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ اگر ایران نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جوہری ہتھیار بنانے کی اپنی کوششیں جاری رکھیں تو پھر وہ بھی اس عمل کا سخت رد عمل کی صورت میں جواب دیں گے۔ اس طرح کی ملی جلی باتوں کے دوران عام ایرانیوں کی اکثریت اس بات پر مطمئن تھی کہ پابندیوں کی وجہ سے بیرونی دنیا میں منجمد کر دیئے گئے ان کے اثاثے پھر سے بحال ہو جائیں گے، ان پر عائد سفری پابندیاں ختم ہو جائیں گی اور وہ دنیا کے کسی بھی آزاد و خود مختار ملک کے شہریوں کی طرح زندگی گزار سکیں گے۔
بارک اوبامہ کے دور صدارت میں جو امریکہ ، ایران نیوکلیائی معاہدہ ہوا اس کے پس منظر کے مطابق، انقلاب کے بعد ایران بیرونی دنیا سے الگ تھلگ ہونا شروع ہو گیا تھا۔ عراق کے ساتھ جنگ کے بعد ایران مزید تنہائی کا شکار ہوا۔ بیرونی دنیا کو شروع دن سے ایران کے ایٹمی پروگرام پر تشویش تھی۔ لہذا ایران کو اس کے ایٹمی پروگرام پر تحفظات دور ہونے کی صورت میں عاید اقتصادی پابندیاں ختم کرنے کی پیشکش کی گئی۔ اس سلسلے میں 2006ء میں امریکہ ، برطانیہ، روس، چین، فرانس اور جرمنی کے نمائندوں کے ایرانی سفارت کاروں سے مذاکرات کا آغاز ہوا۔ ان مذاکرات میں اس وقت مثبت پیش رفت ہوئی جب 2013ء میں معتدل مزاج حسن روحانی ایران کے صدر منتخب ہوئے۔ نومبر 2013ء میں اس سلسلے میں ایک عبوری معاہدے پر طے پایا جو امریکہ اور ایران کے درمیان34 برس میں ہونیوالے پہلا معاہدہ تھا۔ اس تسلسل میں جنوری 2016ء میں ایران پر عاید اقتصادی پابندیوں کے خاتمے کا اعلان کیا گیا ۔
بارک اوبامہ کا دوسرا صدارتی دور ختم ہونے پر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کا صدر بننے کے بعد اپنے اولین اقدامات کے تحت ایران ، امریکہ نیوکلیائی معاہدہ ختم کرنے کا اعلان کرنے کے ساتھ ہی ایران پر پھر سے اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں۔ صدر ٹرمپ کے اس عمل کا ایرانیوں پر یہ اثر ہوا کہ وہ لوگ جنہوں نے قدامت پرست مذہبی رہنمائوں کو مسترد کر کے بھاری اکثریت سے معتدل مزاج حس روحانی کو ایرانی صدر بنایا تھا انہوں نے اپنا ووٹ ابراہیم رئیسی جیسے قدامت پرست کے حق میں اپنا ووٹ ڈال کر اسے ایرانی صدر بنایا۔ قدامت پرست ابراہیم رئیسی کے صدر بننے کے بعد ایران پہلے سے بھی زیادہ اپنی پراکسی جنگوں میں الجھتا گیا۔ ہیلی کاپٹر حادثے میں ابراہیم رئیسی کی موت کے بعد ایرانی عوام نے پھر سے اپنا ووٹ روشن خیال اور معتدل سمجھے جانے والے موجودہ ایرانی صدر مسعود پزیشکان کے حق میں دیا۔ ایرانی عوام کی جو اکثریت معتدل مزاجی اور روشن خیالی کی طرف گامزن ہو تی رہتی ہے اس عوام پر جنگ مسلط کیے جانے کے بعد اس کی سوچ کس طرف مائل ہوگی یہ آنے والے وقت میں ہی پتہ چل سکے گا لیکن فی الحال یہ نظر آرہا ہے کہ ارتقائی عمل کے دوران ایرانیوں کی سوچ کا رخ جس روشن خیالی اور معتدل مزاجی کی طرف مڑ رہا تھا، ٹرمپ اور نیتن یاہو نے اس کے آگے بند باندھ دیا ہے۔

جواب دیں

Back to top button