Column

مغرب کا ایران پر ایک اور ’’ آپریشن ایجیکس‘‘

مغرب کا ایران پر ایک اور ’’ آپریشن ایجیکس‘‘
عقیل انجم اعوان
دنیا کی تاریخ میں کئی واقعات ایسے گزرے ہیں جو صرف ایک ملک یا قوم کو نہیں بلکہ پورے عالمی نظام کو متاثر کرتے ہیں۔ ایسے ہی ایک واقع کا نام ہے’’ آپریشن ایجیکس‘‘ ۔ یہ 1953ء میں امریکہ اور برطانیہ کی خفیہ ایجنسیوں کی مدد سے ایران میں کیا گیا ایک خفیہ فوجی و سیاسی منصوبہ تھا جس کا مقصد ایران کے منتخب وزیرِاعظم محمد مصدق کی حکومت کا تختہ الٹنا تھا۔ آج اس واقعے کو سات دہائیاں گزر چکی ہیں لیکن اس کے اثرات ابھی تک ایران، مشرقِ وسطیٰ اور امریکہ کی عالمی ساکھ پر گہرے نقش چھوڑ چکے ہیں۔ یہ کہانی صرف ایران کی نہیں، یہ کہانی اس نظام کی ہے جو طاقتور ملکوں کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ کمزور قوموں کی قسمت کا فیصلہ کریں۔ چاہے اس کے لیے جمہوریت کا گلا ہی کیوں نہ گھونٹا جائے۔
انیسویں صدی کے آخر میں جب ایران میں تیل دریافت ہوا تو برطانوی کمپنیاں وہاں آ دھمکیں۔ برطانیہ کی ’’ اینگلو ایرانین آئل کمپنی‘‘ نے ایرانی تیل پر مکمل اجارہ داری قائم کر لی۔ ایرانی عوام کو ان کے اپنے وسائل سے بہت کم حصہ ملتا تھا اور زیادہ تر منافع انگلستان کے خزانوں میں جاتا تھا۔ کئی دہائیوں تک یہ لوٹ مار جاری رہی اور ایرانی عوام میں بے چینی بڑھتی گئی۔ 1951ء میں ڈاکٹر محمد مصدق کو ایران کا وزیرِاعظم منتخب کیا گیا۔ وہ ایک تعلیم یافتہ، اصول پسند اور قوم پرست سیاستدان تھے۔ مصدق نے پہلا کام یہ کیا کہ ایران کے تیل کو قومیانے کا اعلان کر دیا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اب تیل پر ایران کی حکومت کا کنٹرول ہوگا نہ کہ کسی غیر ملکی کمپنی یا حکومت کا۔ یہ فیصلہ ایرانی عوام کے لیے خوشی کی خبر تھا لیکن برطانیہ کے لیے ایک دھچکا۔ وہ اس فیصلے کو کسی صورت قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھا۔
شروع میں برطانیہ نے اقوامِ متحدہ، عالمی عدالت انصاف اور مختلف اقتصادی پابندیوں کے ذریعے ایران کو دبانے کی کوشش کی لیکن مصدق جھکا نہیں۔ اس دوران برطانیہ نے امریکہ سے رابطہ کیا۔ یاد رہے کہ اس وقت دنیا سرد جنگ کی لپیٹ میں تھی، امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان سیاسی اور نظریاتی جنگ جاری تھی۔ امریکہ کو خدشہ تھا کہ اگر ایران میں عدم استحکام پیدا ہوا تو کمیونسٹ عناصر فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔یہی وہ موقع تھا جب برطانیہ نے امریکہ کو قائل کیا کہ مصدق کو ہٹانے سے مشرقِ وسطیٰ میں امریکی مفادات محفوظ رہیں گے۔ چنانچہ 1953ء میں امریکہ کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے اور برطانیہ کی ایم آئی 6نے ’’ آپریشن ایجیکس‘‘ کا منصوبہ تیار کیا۔
آپریشن ایجیکس کی قیادت سی آئی اے کے ایجنٹ کرمٹ روز ویلٹ کر رہے تھے جو امریکی صدر آئزن ہاور اور برطانوی وزیراعظم چرچل کے قریبی مشیر تھے۔ اس منصوبے کے تحت ایران میں افواہیں پھیلائی گئیں، مظاہرے کرائے گئے، صحافت کو خریدا گیا اور مصدق کی حکومت کے خلاف پروپیگنڈا شروع کیا گیا۔ سی آئی اے نے ایرانی فوجی جرنیلوں کو رشوت دی، مذہبی رہنماؤں کو اپنے حق میں کیا اور شاہ ایران کو استعمال کیا جو ابتدا میں ملک سے فرار ہو گئے
تھے۔ 19اگست 1953ء کو فوج نے مصدق کی حکومت کا تختہ الٹ دیا انہیں گرفتار کر لیا گیا اور شاہ کو واپس لا کر ایران کا نیا حکمران بنا دیا گیا۔
آپریشن ایجیکس نے نہ صرف ایران میں جمہوریت کا گلا گھونٹا بلکہ ایران اور مغرب کے تعلقات میں ایک گہری خلیج بھی پیدا کی۔ شاہ ایران کی آمریت کو امریکی پشت پناہی حاصل رہی اور اس نے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کیں۔ اس دور میں ’’ ساواک‘‘ نامی خفیہ پولیس کا قیام عمل میں آیا جس نے ہزاروں ایرانیوں کو تشدد، گرفتاری اور غائب ہونے کا سامنا کروایا۔ یہی وہ دور تھا جب ایران میں امریکہ مخالف جذبات شدت اختیار کرنے لگے۔ عوام کو یقین ہو گیا کہ امریکہ صرف اپنے مفادات کے لیے جمہوریت کو قربان کر سکتا ہے۔ یہی بداعتمادی 1979ء کے اسلامی انقلاب تک جاری رہی۔
1979 ء میں ایران میں آیت اللہ خمینی کی قیادت میں ایک انقلابی تحریک اٹھی جس نے شاہ کی حکومت کو ختم کر دیا۔ اس انقلاب کی ایک بڑی وجہ وہ زخم تھا جو آپریشن ایجیکس نے لگایا تھا۔ آج جب ہم 2025ء کے تناظر میں دیکھتے ہیں تو تاریخ کا پہیہ ایک بار پھر وہیں گردش کرتا محسوس ہوتا ہے۔ جون 2025ء میں ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی میں شدید اضافہ ہوا۔ اسرائیل نے براہ راست ایران پر تباہ کن حملہ کر دیا۔ جس کے جواب میں ایران نے اسرائیلی سرزمین پر میزائل حملے کیے جو خطے کے جغرافیہ اور عالمی طاقتوں کی پالیسیوں میں ایک فیصلہ کن موڑ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ حملے نہ صرف علامتی تھے بلکہ اس امر کا اعلان بھی کہ ایران اب صرف اقوال سے نہیں، افعال سے بھی مزاحمت کرے گا۔ اسرائیل جو خود کو مشرقِ وسطیٰ میں ایک ناقابلِ تسخیر فوجی قوت سمجھتا تھا، پہلی بار اس نے اپنے اندرونی دفاعی نظام کی کمزوری کا سامنا کیا۔ اس حملے نے اسرائیل کے ساتھ ساتھ امریکہ اور برطانیہ کو بھی یہ پیغام دے دیا کہ ایران اب پرانی طرز کی خاموشی نہیں برتے گا۔ یہ بات اب پوشیدہ نہیں رہی کہ مغرب ایران کو دوبارہ ایک آسانی سے قابو میں آنے والی ریاست میں تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ اسرائیل جو امریکہ کی مشرقِ وسطیٰ میں سب سے اہم فرنٹ لائن اتحادی ریاست ہے ہر قیمت پر ایران کے ایٹمی پروگرام کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ کیونکہ ایک جوہری طاقت بننے والا ایران صرف اسرائیل ہی نہیں، مغربی مفادات کے لیے بھی ایک مستقل دردِ سر بن سکتا ہے۔ برطانیہ جو ایک عرصے سے مشرقِ وسطیٰ میں اپنی نوآبادیاتی تاریخ کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے، اب ایک بار پھر ’’ نرم مداخلت‘‘ کے پردے میں ایران میں سیاسی تبدیلی کے خواب دیکھ رہا ہے۔ امریکہ تو عرصہ دراز سے ’’ رجیم چینج‘‘ کی پالیسی پر عمل پیرا ہے، جس کی مثالیں عراق، شام، لیبیا اور افغانستان میں دیکھی جا چکی ہیں۔
مگر 2025ء کا ایران 1953ء کا ایران نہیں۔ آج ایران نہ صرف عسکری و تکنیکی طور پر بہتر ہو چکا ہے، بلکہ اس کی نظریاتی بنیادیں بھی کہیں زیادہ مضبوط ہو چکی ہیں۔ اگرچہ ملک کو اندرونی چیلنجز درپیش ہیں جیسے مہنگائی، احتجاج، نسلی و صنفی مسائل مگر مغرب کی کھلی مداخلت نے ایرانی قوم میں ایک بار پھر مزاحمت کا جذبہ جگایا ہے۔ ’’ آپریشن ایجیکس‘‘ آج بھی زندہ ہے، مگر اب وہ نفسیاتی، سفارتی، سائبر اور میڈیا محاذوں پر لڑا جا رہا ہے۔ ایران کے خلاف خبری پراپیگنڈا، مغربی تھنک ٹینکس کی رپورٹس اور انسانی حقوق کے نام پر لابی مہمات۔ یہ سب ایک نئے طرز کی جنگ کا حصہ ہیں، جس کا ہدف صرف حکومت نہیں بلکہ ایرانی قوم کی شناخت، مزاحمت اور آزادی کا تصور ہے۔
افسوس کا مقام یہ ہے کہ جہاں ایران مغرب کے اتحاد کے خلاف تنہا کھڑا ہے وہاں عالمِ اسلام بدستور تفرقہ بازی اور مفادات کی سیاست میں الجھا ہوا ہے۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ترکی اور دیگر مسلم ممالک اپنے اپنے مفادات کی بنیاد پر خارجہ پالیسی چلا رہے ہیں، جبکہ فلسطین، یمن، شام اور عراق جیسے مسلم خطے خاک و خون میں لپٹے ہوئے ہیں۔ کیا یہ امر حیران کن نہیں کہ ایک طرف مغرب، تمام تر نظریاتی، ثقافتی اور جغرافیائی اختلافات کے باوجود متحد ہو کر ایک مقصد پر عمل پیرا ہے اور دوسری طرف امتِ مسلمہ صرف اپنے مفادات کی کشمکش میں تقسیم ہے؟ ایران کا تنہا کھڑا ہونا نہ صرف اس کی جرأت ہے بلکہ ہمارے اجتماعی زوال کا بھی آئینہ ہے۔ ایران اور اسرائیل کا یہ تنازع صرف دو ریاستوں کے درمیان جنگ نہیں، بلکہ ایک بڑے نظریاتی تصادم کی علامت ہے۔ ایک طرف ایران ہے، جو اپنی نظریاتی خود مختاری، اسلامی شناخت اور فلسطین کی حمایت کا پرچم بلند کیے ہوئے ہے۔ دوسری طرف اسرائیل ہے جو امریکی سرپرستی میں پورے خطے کو دوبارہ ترتیب دینے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ اگر عالمِ اسلام نے اب بھی آنکھیں بند رکھیں، تو وہ دن دور نہیں جب ایک اور ’’ ایجیکس‘‘ صرف ایران نہیں بلکہ کسی اور مسلم ملک کے دروازی پر دستک دے گا۔ آج اگر ایران کمزور ہوتا ہے تو کل یہ آگ پاکستان، ترکی، یا کسی اور مسلم ملک تک پہنچ سکتی ہے۔ اس لیے اب وقت آ گیا ہے کہ امتِ مسلمہ خوابِ غفلت سے بیدار ہو اور کم از کم مشترکہ دشمن کے خلاف فکری اور سفارتی سطح پر یکجہتی کا مظاہرہ کرے۔ تاریخ کا سبق یہی ہے کہ جو قومیں اپنے ماضی کو بھول جاتی ہیں وہ اپنا مستقبل بھی گنوا بیٹھتی ہیں۔ 1953ء کا ’’ آپریشن ایجیکس‘‘ صرف ایران کے خلاف نہیں تھا بلکہ پورے مشرقِ وسطیٰ کی آزادی اور خودمختاری کے خلاف ایک اعلانِ جنگ تھا۔

جواب دیں

Back to top button