Column

جمہوریت کی بحالی میں محترمہ بینظیر بھٹو کا کردار

جمہوریت کی بحالی میں محترمہ بینظیر بھٹو کا کردار
تحریر: راجہ محمد علی منہاس
جب بھی پاکستان میں آمریت کے خلاف جدوجہد کا ذکر آئے گا، محترمہ بینظیر بھٹو کا نام ہمیشہ نمایاں اور بے مثال انداز میں جمہوریت پسند رہنمائوں کی صفِ اول میں لیا جائے گا۔ ایک خاتون رہنما ہونے کے ناطے، محترمہ بینظیر بھٹو نے پاکستان میں جمہوریت کی بحالی اور استحکام کے لیے جو گراں قدر خدمات سرانجام دیں، وہ تاریخ کا ایک روشن اور سنہرا باب بن چکی ہیں۔
محترمہ بینظیر بھٹو ایک درویش صفت، قلندر مزاج اور غیر معمولی حوصلہ و استقلال کی حامل خاتون تھیں۔ انہیں زندگی کے ہر موڑ پر ایک نئے چیلنج کا سامنا رہا، لیکن ہر آزمائش نے انہیں پہلے سے زیادہ باہمت، جری اور بہادر رہنما بنایا۔ وہ اپنے عظیم والد، جناب ذوالفقار علی بھٹو کی حقیقی سیاسی جانشین ثابت ہوئیں۔ جناب بھٹو بھی محترمہ بینظیر بھٹو کی فکری صلاحیتوں اور قائدانہ اوصاف سے متاثر تھے، اسی لیے وہ اکثر اہم ملکی و بین الاقوامی اجلاسوں اور عالمی رہنمائوں سے ملاقاتوں میں انہیں ہمراہ رکھتے۔
جناب ذوالفقار علی بھٹو نے ایک بار جیل سے اپنی بیٹی کو ایک تاریخی خط لکھا۔ وہ لکھتے ہیں: ’’ ایک قیدی کس طرح اپنی ذہین اور خوبصورت بیٹی کو اس کے یومِ پیدائش پر مبارکباد دے سکتا ہے، جب کہ بیٹی بھی قید میں ہو، اور اُس کی والدہ بھی اسی نوعیت کی تکلیف میں مبتلا ہو؟ محبت اور ہمدردی کا پیغام ایک جیل سے دوسری جیل، ایک زنجیر سے دوسری زنجیر تک کیسے پہنچے؟‘‘۔ یہ خط محض ایک ذاتی تحفہ نہیں، بلکہ ایک تاریخی دستاویز ہے۔ اس میں جناب بھٹو نے اپنی بیٹی کو اپنے خاندانی اقدار، عوامی سیاست اور زندگی کے فلسفے سے آگاہ کرتے ہوئے بیش قیمت نصیحتیں کیں ایک اقتباس میں جناب بھٹو لکھتے ہیں: ’’ تمہارے دادا نے مجھے فخر کی سیاست سکھائی، اور تمہاری دادی نے غربت کی سیاست۔ میں ان دونوں کو مضبوطی سے تھامے ہوئے ہوں تاکہ ان کا امتزاج ممکن ہو۔ پیاری بیٹی! تمہیں صرف ایک پیغام دیتا ہوں اور وہ تاریخ کا پیغام ہے، آنے والے دنوں کا پیغام۔ سیاست کرتے ہوئے صرف عوام پر یقین رکھنا، عوام کی نجات اور مساوات کے لیے کام کرنا، کیونکہ جنت تمہاری ماں کے قدموں کے نیچے ہے اور سیاست کی جنت عوام کے قدموں کے نیچے‘‘۔
مزید لکھتے ہیں: ’’ پیاری بیٹی! تم اس وقت تک بڑی نہیں ہو سکتیں جب تک زمین کو چومنے کے لیے تیار نہ ہو جائو، یعنی عاجزی اختیار کرو۔ اور تم اس وقت تک زمین کا دفاع نہیں کر سکتیں جب تک تم زمین کی خوشبو سے واقف نہ ہو جائو‘‘۔
جناب بھٹو نے یہ خط 21جون 1978ء کو، ڈسٹرکٹ جیل راولپنڈی سے، اپنی صاحبزادی بینظیر بھٹو کی سالگرہ کے موقع پر تحریر کیا۔ یہ چند اقتباسات اس تاریخی خط کا حصہ ہیں۔4 اپریل 1979ء پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ثابت ہوا۔ اس روز ایک فوجی آمر نے اپنی طاقت کے نشے میں چور ہو کر، سامراجی اور استعماری طاقتوں کو خوش کرنے کے لیے، ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل کروایا۔ اس سانحے نے نہ صرف پاکستانی عوام کو ان کے محبوب قائد سے محروم کر دیا بلکہ ملک کو فرقہ واریت، لسانیت اور نسلی تعصبات کی دلدل میں بھی دھکیل دیا۔
جنرل ضیاء الحق نے پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف ان تمام عناصر کی پشت پناہی کی جو مرکزیت کے مقابلے میں صوبائیت اور علاقائیت کو فروغ دے رہے تھے۔ ایسے وقت میں محترمہ بینظیر بھٹو کو پیپلز پارٹی کا قائم مقام چیئر پرسن مقرر کیا گیا کیونکہ بیگم نصرت بھٹو، قائد عوام کی شہادت کے صدمے سے ابھی تک باہر نہیں آ سکیں تھیں۔
ملک میں انسانی حقوق کی پامالی روز کا معمول بن چکی تھی۔ اس ظلم و آمریت کے خلاف تمام جمہوری سیاسی جماعتوں نے ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو کر جدوجہد کا اعلان کیا، جس میں پاکستان پیپلز پارٹی صف اول میں تھی۔
مارچ 1981ء میں فوجی حکومت نے ایک بے بنیاد کیس میں دوبارہ بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو کو گرفتار کر لیا۔ یہ قید تقریباً چار برس تک جاری رہی اور دونوں کو بالآخر 1984ء میں رہا کیا گیا۔
قید کے دوران بیگم نصرت بھٹو شدید بیمار ہو گئیں۔ ابتدائی معائنے سے ان کے پھیپھڑوں کے کینسر کی تشخیص ہوئی، جس کے بعد 1982ء میں انہیں علاج کی غرض سے بیرونِ ملک بھیجا گیا۔ محترمہ بینظیر بھٹو کو ابھی بھی طویل عرصے تک 70-کلفٹن، کراچی میں نظر بند رکھا گیا۔
اسی دوران محترمہ بینظیر بھٹو کو پرانی کان کی تکلیف دوبارہ شدت اختیار کر گئی، لیکن مسلسل حبس و قید کی حالت میں بروقت علاج ممکن نہ تھا۔ آخرکار 1984ء میں انہیں بھی علاج کے لیے بیرونِ ملک جانے کی اجازت ملی۔ انہوں نے لندن کو اپنا قیام گاہ منتخب کیا کیونکہ وہ سمجھتی تھیں کہ لندن میں پاکستانی برادری سے رابطہ رکھنا نسبتاً آسان ہے۔ ان دنوں بیگم نصرت بھٹو جنیوا میں زیر علاج تھیں۔
ایک روز بیگم نصرت بھٹو نے بیٹی سے کہا: ’’ بینظیر! تم اپنی زندگی کے کئی قیمتی سال جیلوں کی نذر کر چکی ہو۔ میں چاہتی ہوں کہ اب تم خوش رہو۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ تم ایک عام انسان کی طرح زندگی کو انجوائے کرو؟‘‘۔
محترمہ بینظیر بھٹو کے لیے اپنی والدہ کا یہ مشورہ نظر انداز کرنا آسان نہیں تھا، لیکن ان کے پاس اپنی سیاسی جدوجہد جاری رکھنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہ تھا۔
محترمہ بینظیر بھٹو نے بیرونِ ملک قیام کے دوران ایک جانب عوامی رابطے کو مضبوط رکھا، تو دوسری جانب عالمی اخبارات و جرائد میں مضامین لکھ کر دنیا کی توجہ اس امر کی طرف مبذول کرائی کہ کس طرح پاکستان میں ایک آمریت بنیادی انسانی حقوق کو پامال کر رہی ہے اور آزادی اظہارِ رائے کو طاقت کے زور پر دبایا جا رہا ہے۔ محترمہ نے عالمی رہنمائوں سے کبھی براہِ راست ملاقاتوں اور کبھی خط و کتابت کے ذریعے پاکستان کی صورتِ حال کو اجاگر کیا۔
ایک طرف محترمہ بینظیر بھٹو جمہوریت کے قیام اور عام انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ کر رہی تھیں، تو دوسری طرف جنرل ضیاء الحق نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے ریفرنڈم کرانے کا فیصلہ کیا۔ اس ریفرنڈم میں ایک مبہم سوال شامل تھا جس کے تحت’’ ہاں‘‘ کا ووٹ جنرل ضیاء کو مزید پانچ سال کے لیے صدر منتخب کرنے کے مترادف تھا۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے اس ریفرنڈم کی پرزور مخالفت کی اور عام انتخابات پر زور دیا، کیونکہ ان کے نزدیک فوجی آمر نے مذہبی جذبات کا سہارا لے کر چالاکی اور فریب سے اپنے اقتدار کو دوام دینے کی کوشش کی۔ بعد ازاں جنرل ضیاء نے غیر جماعتی بنیادوں پر عام انتخابات کا اعلان کیا، جن کا پاکستان پیپلز پارٹی نے بائیکاٹ کیا۔
اسی دوران محترمہ بینظیر بھٹو کو اپنے جواں سال بھائی شاہنواز بھٹو کی ناگہانی وفات کا صدمہ برداشت کرنا پڑا۔ وہ ان کی میت لے کر لاڑکانہ آئیں، جہاں انہیں گڑھی خدا بخش میں ذوالفقار علی بھٹو کے پہلو میں دفن کیا گیا۔ بعد ازاں محترمہ کو گرفتار کیا گیا اور 3نومبر 1985ء کو رہائی کے بعد وہ فرانس چلی گئیں۔
یہی وہ لمحہ تھا جب محترمہ نے آمریت سے آخری اور فیصلہ کن ٹکر لینے کا عزم کیا۔ 10اپریل 1986ء کو وہ وطن واپس لوٹیں، اور لاہور ایئرپورٹ پر ان کا فقیدالمثال تاریخی استقبال ہوا، جس میں ملکی و غیر ملکی میڈیا کے مطابق 30لاکھ سے زائد افراد شریک تھے۔ بی بی صاحبہ نے مسلسل دس گھنٹے تک ٹرک پر کھڑے ہو کر اپنے چاہنے والوں کے نعروں کا جواب ہاتھ ہلا کر دیا۔
اس موقع پر لائوڈ سپیکر کا نظام ناکافی تھا کیونکہ عوام کی تعداد منتظمین کی توقع سے کہیں زیادہ تھی۔ لیکن جب محترمہ نے ہاتھ ہلایا، تو پورا مجمع ایک دم خاموش ہو گیا۔ اپنے خطاب میں انہوں نے کہا: ’’ میں قسم کھاتی ہوں کہ عوام کے حقوق کے حصول کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کروں گی۔ کیا تم آمریت سے نجات چاہتے ہو؟ کیا تم جمہوریت چاہتے ہو؟ کیا تم انقلاب چاہتے ہو؟‘‘۔ لاکھوں لوگوں نے یک زبان ہو کر ’’ ہاں‘‘ میں جواب دیا۔ محترمہ نے کہا: ’’ میں اپنے لوگوں کی خدمت کے لیے لوٹی ہوں، مجھے کسی سے انتقام نہیں لینا۔ میں اپنا انتقام ختم کرتی ہوں۔ لیکن میں تم سب سے پوچھنا چاہتی ہوں، کیا تم جنرل ضیاء کو مزید اقتدار میں دیکھنا چاہتے ہو؟‘‘۔ عوام نے یک آواز نعرہ لگایا: ’’ ضیاء جاوے، ای جاوے!‘‘۔
محترمہ ہر روز لاکھوں افراد کے اجتماعات سے خطاب کرتیں۔ جونیجو حکومت اور جنرل ضیاء کے درمیان سرد مہری مزید بڑھی، یہاں تک کہ جنرل ضیاء نے آئین کے آرٹیکل 58(2)(b)کے تحت اسمبلیاں توڑ دیں۔ اسی دوران دسمبر 1987ء میں محترمہ کی شادی جناب آصف علی زرداری سے انجام پائی۔
جنرل ضیاء نے 16نومبر 1988ء کو انتخابات کا اعلان کیا، لیکن 17اگست 1988ء کو طیارہ حادثے میں وہ انتقال کر گئے ۔ ان کے بعد غلام اسحاق خان قائم مقام اور پھر مستقل صدر بنے اور انتخابات حسبِ شیڈول منعقد ہوئے۔18 اگست کو پیپلز پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں محترمہ کی زیر صدارت قرارداد منظور کی گئی کہ: ’’ ہم کسی کی موت پر خوشی نہیں مناتے، جنرل ضیاء سے ہمارا سیاسی اختلاف ضرور تھا، لیکن وہ افغانستان میں روسی جارحیت کے خلاف ڈٹ گئے تھے۔ تاہم وہ ایک غیر آئینی حکمران تھے جنہوں نے قوم کو قرض، غربت، بے روزگاری، استحصال اور منشیات کے سوا کچھ نہ دیا‘‘۔
محترمہ نے انتخابات تک اپنی حکمت عملی انتہائی تدبر سے مرتب کی۔ انتخابی مہم کے دوران انہیں اور بیگم نصرت بھٹو کو IJIکی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا، لیکن انہوں نے اخلاقی حدود میں رہتے ہوئے اس کا جواب دیا، جس سے عوامی ہمدردی میں اضافہ ہوا۔16نومبر 1988ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی نے 93نشستیں حاصل کیں جبکہ IJIصرف 54پر کامیاب ہوئی۔ سندھ میں IJIکوئی نشست نہ جیت سکی۔
محترمہ بینظیر بھٹو عالمِ اسلام کی پہلی منتخب خاتون وزیرِاعظم بنیں۔ ایوان صدر میں منعقد ہونے والی تقریب میں صدر غلام اسحاق خان نے ان سے حلف لیا اور اپنے خطاب میں انہیں خراج تحسین پیش کیا: ’’ محترمہ بینظیر بھٹو ایک باصلاحیت، اعلیٰ تعلیم یافتہ، شائستہ، اور عوام دوست رہنما ہیں۔ وہ قوم کی پسندیدہ قیادت ہیں‘‘۔
حلف برداری کے موقع پر ایوانِ صدر میں قائداعظم محمد علی جناحؒ اور ذوالفقار علی بھٹو کی تصاویر آویزاں تھیں، جو اس تاریخی لمحے کی گواہ تھیں۔
دنیا بھر سے بی بی کو مبارک باد کے پیغامات موصول ہوئے، جن میں سب سے نمایاں بھارتی وزیرِاعظم راجیو گاندھی کا تھا: ’’ آپ کے والد اور میری والدہ نے شملہ معاہدے پر دستخط کیے تھے، جو ہمارے درمیان دوستی اور امن کی بنیاد ہے۔ آپ اور میں اسی عہد کے نمائندہ ہیں‘‘۔
تاہم بی بی کو اقتدار میں آنے کے بعد بھی مسلسل سیاسی مخالفت اور سازشوں کا سامنا رہا۔ کبھی نواز شریف اور کبھی ایوانِ صدر سے ان کے خلاف محاذ کھولے گئے۔ کبھی انہیں عورت ہونے کی بنیاد پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا، مگر ان کے پائے استقلال میں کوئی لغزش نہ آئی۔
انہوں نے نہ صرف جنرل ضیاء کی آمریت، بلکہ نواز شریف کی انتقامی سیاست اور جنرل مشرف کی آمرانہ طرزِ حکومت کا بھی ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ یہاں تک کہ لندن میں نواز شریف کے ساتھ ’’ چارٹر آف ڈیموکریسی‘‘ پر دستخط کیے، جس سے سیاسی مفاہمت اور جمہوریت کے تسلسل کی راہ ہموار ہوئی۔
آج اگر پاکستان جمہوریت کی راہوں پر گامزن ہے، اگر ہم دشمن کو موثر جواب دے پا رہے ہیں، تو یہ سب قائدِ عوام ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی صاحبزادی محترمہ بینظیر بھٹو کی قیادت، فہم و فراست، اور قربانیوں کا ثمر ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو نے 21جون 1978ء کو اپنی بیٹی کو لکھا تھا: ’’ عوام کی نجات اور مساوات کے لیے کام کرنا‘‘۔
محترمہ بینظیر بھٹو نے اس وصیت کو اپنی زندگی کا مشن بنایا۔ آج صدر آصف علی زرداری اور ان کے بیٹے بلاول بھٹو زرداری اسی مشن کی تکمیل کے لیے مصروف عمل ہیں، اور محترمہ کے اس قول کو عملی جامہ پہنا رہے ہیں: ’’ جمہوریت بہترین انتقام ہے‘‘۔

جواب دیں

Back to top button