کامیابی سے پہلے ۔۔۔

کامیابی سے پہلے ۔۔۔
محمد مبشر انوار
قرآن کریم کی سورہ التوبہ کی آیت نمبر 41میں اللہ رب العزت فرماتا ہے کہ ’’ نکلو خواہ ہلکے ہو یا بوجھل اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے اموال سے اور اپنی جانوں سے۔ یہی تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو‘‘، جبکہ اگلی آیت میں اللہ کا فرمان ہے کہ ’’ اگر مال غنیمت قریب ہوتا اور سفر بھی چھوٹا ہوتا تو ( اے نبیؐ ) آپ کی پیروی کرتے لیکن ان کو تو بڑی بھاری پڑ رہی ہے دور کی مسافت اور عنقریب یہ لوگ قسمیں کھائیں گے اللہ کی کہ اگر ہمارے اندر استطاعت ہوتی تو ہم ضرور نکلتے تم لوگوں کے ساتھ یہ لوگ اپنے آپ کو ہلاک کر رہے ہیں اور اللہ کو معلوم ہے کہ یہ بالکل جھوٹے ہیں‘‘۔
کرہ ارض کی موجودہ صورتحال بالعموم جبکہ مشرق وسطی کی بالخصوص صورتحال کو ذہن میں رکھیں تو اس آیت کا مفہوم و تفسیر گزشتہ چند دنوں میں زیادہ واضح ہو جاتی ہے گو کہ الہامی و مقدس کتاب کے ایک ایک حرف کی وحدانیت ایمان کا بنیادی جزو و حصہ ہے تاہم اس کی عملی تفسیر و نمونہ گزشتہ چند روز میں مکرر عیاں ہو چکا ہے۔ یوں تو اسرائیل کئی دہائیوں سے فلسطینیوں ہی نہیں بلکہ گرد و پیش کے دیگر مسلم ممالک کے ساتھ مسلسل ظلم و ستم کر رہا ہے لیکن غزہ کے مسلمانوں پر تو اس نے زندگی تنگ کر رکھی ہے اور انہیں ہر صورت ان کے آبائی وطن سے بے دخل کرنے کے درپے ہے جبکہ عالمی نقشے پر ستاون اسلامی ممالک کے آزاد ہونے کا نشان دکھائی دیتا ہے لیکن حقیقتا آزاد و خودمختار فقط بیس کلومیٹر کے اس رقبہ پر بسنے والے مسلمان ہی ہیں۔ نبی اکرمؐ کی حدیث کے مطابق امت مسلمہ ایک جسم کی مانند ہے اور اس کے ایک عضو میں تکلیف، پورے جسم میں محسوس ہوتی ہے، اسرائیلی جارحیت پر عملا کسی مسلم ریاست کو تکلیف محسوس ہوئی تو وہ صرف ایرانی ریاست تھی کہ جو بہرطور غزہ کے مسلمانوں کے لئے میدان جنگ میں برسر پیکار دکھائی دی جبکہ بدقسمتی سے دیگر اسلامی ریاستوں میں اس تکلیف کا احساس صرف اتنا دکھائی دیا کہ ان ممالک کے سفراء نے دنیا بھر کا سفر کیا، سفارتی کوششیں کی لیکن کسی ایک جگہ بھی ان کی کوششیں رنگ نہ لا سکیں۔ ہر کوشش کا اختتام اتنا دکھائی دیا کہ عالمی طاقتوں کی جانب سے ایک دلاسہ، ایک تسلی اور جنگ بندی کرانے کا زبانی جمع خرچ، نہ اس سے زیادہ نہ اس سے کم، جبکہ اس دوران اسرائیل کے مظالم کسی بھی صورت تھمنے کا نام نہ لے رہے تھے، حد تو یہ کہ چند دن کی نمائشی جنگ بندی کے دوران بھی اسرائیلی جارحیت بہرطور جاری رہی، امدادی سامان کے لئے اکٹھے ہوئے غزہ کے شہریوں پر آتش و آہن کی برسات جاری رہی، بچے، بوڑھے، عورتیں، مریض و جوان، غرضیکہ کوئی بھی اسرائیلی درندگی سے محفوظ دکھائی نہ دیا۔ اسرائیل ایک طرف ایرانی مزاحمت کو کچلنے اور اسے براہ راست جنگ میں گھسیٹنے کی کوشش کرتا رہا تو دوسری طرف تھوڑی سے ٹھکائی پر ہی امریکہ کے سامنے دہائیاں دیتا نظر آیا مقصد فقط ایک تھا کہ کسی طرح ایران اس جنگ میں ملوث ہو تو امریکہ اپنے وعدے کے مطابق اسرائیلی دفاع میں جنگ کا حصہ بن جائے، خواہ اس سے امن عالم تباہ ہو جائے، اسرائیل کو اس سے چنداں کوئی غرض نہیں تھی۔
اس دوران ایران نے کسی بھی لمحے، اپنی دینی ذمہ داری سے پہلو تہی نہ برتی، مسلسل نقصانات اٹھاتا، ایران خم ٹھونک کر میدان میں موجود رہا اور اسرائیلی دھمکیوں کے باوجود، انصار اللہ کی جانب سے مسلسل میزائلوں کی بارش برستی رہی، تو بحیرہ احمر میں بھی انصار اللہ نے یہود و نصاریٰ کی تجارت و عسکری جہازوں کا ناک میں دم کئے رکھا، تاآنکہ امریکہ نے براہ راست انصار اللہ سے اپنے جہازوں کی ضمانت نہ لے لی۔ یہ صورتحال تو خیر کسی بھی طور اسرائیلی عزائم کے لئے سودمند نہ تھی کہ اسرائیلی عزائم اس وقت تک بروئے کار نہیں آ سکتے تھے کہ جب تک ایران براہ راست اس جنگ میں نہ کود جاتا یا اسے جنگ میں گھسیٹ نہ لیا جاتا کہ صرف ایران ہی تو تھا تو جو اسرائیل کے خلاف کھل کر بروئے کار آ رہا تھا۔ دوسری طرف اسرائیل و اس کے پشت پناہ تھے، جو پچھلی کئی دہائیوں سے ایران کی گو شمالی کر رہے تھے، ایران پر معاشی پابندیاں تھی تو کہیں اس کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے اس کی مشکیں کسی جارہی تھی، اس پر ہر حوالے سے شدید دباؤ جاری تھا کہ من مرضی کا سودا اس سے طے کیا جائے یا کم از کم اس کی آواز کو دبایا جاسکے لیکن بے سود کہ ایران غزہ میں ہونے والے مظالم پر کسی بھی صورت خاموشی اختیار کرنے کے لئے تیار نہ تھا خواہ اس کی کتنی ہی بھاری قیمت اسے چکانی پڑتی۔ یہ صورتحال اسرائیل اور امریکہ دونوں کے لئے ناقابل قبول تھی، اسرائیل کوئی ایسی حرکت کرنے کے درپے تھا کہ جس سے آگ کے یہ شعلے، اس کی سرحدوں سے باہر پھیلیں اور بزعم خود اسرائیل حق بجانب تھا کہ اس کے پڑوس میں کوئی ایسی اسلامی ریاست نہ تھی جو اس کے ہاتھ روک سکتی جبکہ ایران گزشتہ کئی سالوں سے عالمی پابندیوں میں جکڑا ہوا تھا، اس کی عسکری اہلیت و صلاحیت کے متعلق اندازے اس وقت غلط ثابت ہو گئے جب اسرائیل نے خود پر ضرورت سے زیادہ اعتماد کرتے ہوئے 13جون کی صبح ایران پر براہ راست حملہ کر دیا۔ اس حملے میں اسرائیل، ایران کی اعلی فوجی قیادت کو شہید کرنے میں کامیاب ہو گیا کہ ایران کے اندر ہی اسرائیلی جاسوسی کا موثر نظام موجود تھا، شنید یہی ہے کہ ایرانی سرزمین سے ہی اسرائیلی ڈرونز نے تاک تاک کر مخصوص افراد کو نشانہ بنایا اور اپنے تئیں ایک معرکہ انجام دے لیا۔ امریکہ بہادر بعینہ پاک بھارت کشیدگی کی طرح اولا غیر جانبداری کا راگ الاپتا رہا اور ایران کو صبر و تحمل کی تلقین کرتا رہا لیکن ایران نے غیرت مند قوم کا ثبوت دیتے ہوئے، اس قدر اعلی جانی نقصان کے باوجود، اسی رات اسرائیل پر زبردست حملہ کرکے، اسرائیلی خوش گمانی کو خاک میں ملا دیا کہ خطے میں کوئی بھی ریاست اسرائیل پر براہ راست حملہ نہیں کر سکتی۔ گو کہ ایران کے ابتدائی حملے کا وہ اثر نہیں ہوا جو بعد ازاں ایران کی مسلسل میزائلوں کی بارش نے مرتب کیا ہے کہ اسرائیل اپنے آئرن ڈوم ایئر ڈیفنس سسٹم پر حد سے زیادہ انحصار کرتا تھا لیکن ایرانی میزائلوں کی یلغار کے سامنے آئرن ڈوم ڈھیر ہو چکا ہے کہ آئرن ڈوم ڈیفنس سسٹم بیک وقت کتنے میزائلوں کو روک سکتا ہے؟ ایک حد سے زیادہ اس سسٹم کی استعداد ختم ہو گئی اور اب یہ صورتحال ہے کہ ایرانی میزائل، آگ برساتے، اسرائیل کے کسی بھی کونے میں تباہی پھیلاتے دکھائی دے رہے ہیں، اسرائیلی شہری اپنا ملک چھوڑنے پر مجبور ہو چکے ہیں جبکہ بیرون ملک بھی انہیں خوش آمدید کہنے والے، ان کی خوب ’’ عزت افزائی‘‘ کر رہے ہیں کہ جن جنگی جرائم میں اسرائیل ملوث رہا ہے، اس کے بعد مہذب دنیا کے لئے یہ ممکن نہیں کہ اس کے شہریوں کو پہلے کی طرح اپنے ملک میں خوش آمدید کہیں۔
نیتن یاہو کی ساری خواہشات اس وقت بظاہر مٹی کا ڈھیر بنی دکھائی دے رہی ہیں جبکہ صدر ٹرمپ کے ابتدائی بیانات کہ اسرائیل پر حملہ، امریکہ پر حملہ تصور ہو گا یا وہ اسرائیل کے دفاع میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے یا اسرائیل کے شانہ بشانہ اسرائیل کا دفاع کریں گے، روسی صدر پوتن کی فون کال کے بعد، اب جنگ بندی و مذاکرات کی طرف مائل ہیں حالانکہ پہلے صدر ٹرمپ اسرائیلی حملے سے لاتعلقی کا اعلان کر رہے تھے لیکن اب ان کے بیانات سے ظاہر ہو رہا ہے کہ انہیں اس حملے کا بخوبی علم تھا۔ صدر ٹرمپ کے یہ دہرے معیار بلکہ دوغلا پن اب کھل کر ساری دنیا پر عیاں ہو چکا ہے اور کل تک غزہ میں اسرائیلی مظالم کے خلاف جاری آنکھ مچولی کا کھیل، ایران کے خلاف کھیلنے کی کوشش صدر پوتن کی کال نے برباد کر دی ہے کہ امریکہ کے اس جنگ میں براہ راست کودنے سے روس اور چین کسی بھی صورت پیچھے نہیں رہ سکتے تھے اور یہ دونوں ممالک ایران کے ساتھ کھڑے دکھائی دیتے، جس کا نتیجہ بہرطور تیسری عالمی جنگ کی صورت نکلتا۔ بہرحال دنیا اس وقت بھی تیسری عالمی جنگ کے دہانے پر ہی کھڑی ہے لیکن کیا ایران کی حالیہ عسکری کارکردگی دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایران یہ جنگ جیت گیا ہے ؟؟؟ ( جاری ہے)