Column

صورتحال

کالم :صورتحال
تحریر:سیدہ عنبرین
فقط گردن ہلانے والے جانور
ایران میں اسلامی انقلاب کے فوراً بعد امریکہ، اسرائیل اور بغل بچوں نے سازشیں شروع کر دیں کہ ایران کو پرانی ڈگر پر واپس لایا جائے اور ماضی کی طرح وہاں امریکہ نواز، اسرائیل نواز حکومت قیام کردی جائے، جو خطے میں اس کے حلیف کے طور پر اس کے مفادات کی نگہبانی کرنے کے ساتھ ساتھ علاقائی قوتوں پر نظر رکھے اور امریکہ کو باخبر کرتی رہے کہ کہاں کیا ہو رہا ہے۔ جوابی انقلاب کیلئے مختلف ادوار میں کئی ملین ڈالر خرچ کئے گئے تاکہ با اثر شخصیات اداروں اور گروہوں کی خدمات حاصل کرکے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے راہ ہموار کی جاسکے۔ ماڈرن عورتیں بے حجاب ہو کر اور اخلاق باختہ لباس پہن کر سڑکوں پر آئیں۔ مختلف این جی اوز نے زیر زمین سرگرمیوں کے ذریعے اسلامی سوچ کو بدلنے کیلئے مختلف ہتھکنڈے استعمال کئے لیکن امریکی و اسرائیلی گماشتوں کو ہر محاذ پر ناکامی ہوئی۔ ایران پر پابندیاں لگا کر بھی مقاصد حاصل نہ ہوئے تو براہ راست حملے کا منصوبہ بنایا گیا۔
آج امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کہتا ہے کہ ایران کو مذاکرات کی میز پر واپس آنا پڑے گا، لیکن وہ کیوں دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک رہا ہے، کوئی اس سے پوچھنے کیلئے تیار نہیں۔ جس رات ایران پر حملہ ہوا ایران مذاکرات کی میز پر تھا، اسے ایک طرف مذاکرات میں مصروف رکھ کر تاثر دیا گیا کہ مذاکرات کے نتیجے کا انتظار کیا جائیگا جبکہ دوسری طرف اسرائیل کو اشارہ کر دیا گیا کہ وہ ایران پر حملہ آور ہو جائے۔
دنیا خوب جانتی تھی کہ اسرائیل کسی نہ کسی بہانے ایران پر حملہ کریگا۔ جسے امریکہ اور یورپ کی خوشنودی حاصل ہوگی لیکن دنیا کو اندازہ نہ تھا کہ ایران اس حملے کا دندان شکن جواب دیگا۔ آج ایرانی میزائلوں سے اسرائیل کے آٹھ شہر لرز رہے ہیں، عمارتیں زمین بوس ہو رہی ہیں۔ فوجی اہمیت کے مرکز، دفاتر اور تنصیبات کے پرخچے اڑتے نظر آرہے ہیں، لیکن دنیا کی نظروں سے تمام تباہی کو اوجھل رکھنے کیلئے میڈیا پر پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں، اس بات کو یقینی بنایا جا رہا ہے کہ کوئی تصویر، کوئی ویڈیو کلپ کہیں سے اپ لوڈ نہ ہو سکے اور اسرائیل میں ہونے والی تباہی کو دنیا کی نظروں میں آنے سے روکا جا سکے، لیکن تمام تدابیر اسی طرح ناکام ہوئی ہیں، جس طرح اسرائیل کا دفاعی نظام آئرن ڈوم ناکام ہوا ہے اور امریکہ کے جدید ترین F۔35طیارے گرائے گئے ہیں۔ یہ بات بھی کسی کے وہم و گمان میں نہ آئی تھی کہ چھیالیس برس سے پابندیوں اور تنہائی کا شکار ایران اتنی مزاحمت کریگا۔ اور دنیا کا سٹیٹ آف دی آرٹ امریکی جہاز مار گرائے گا۔ یہ کارنامہ پہلے پاکستان ایئر فورس نے انجام دیا جب اس نے چار رافیل طیارے مار گرائے، دوسرا کارنامہ ایرانی سپاہ نے انجام دیا ہے۔ انہوں نے ریڈار جام کر دئیے یا توپوں سے یہ جہاز گرائے اس کی اہمیت نہیں، اہمیت اس بات کی ہے کہ اسرائیلی غرور کے بعد امریکی غرور خاک میں مل گیا ہے، امریکی صدر کو جب آخری F۔35جہاز گرائے جانے کی اطلاع ملی تو وہ جی سیون کے اجلاس میں شریک تھا، وہ اس کی کارروائی چھوڑ کر بجلی کی تیزی سے نکلا اور امریکہ پہنچ گیا، اس کی عجلت دیکھ کر شرکاء کانفرنس کو خیال آیا کہ ٹرمپ کے پیٹ میں اچانک مروڑ اٹھا ہے اور اسے واش روم جانا ہے، یہ مروڑ تو ضرور تھا لیکن F۔35طیاروں کی تباہی کا تھا۔ اسرائیل کا اہم شہر بیت یام مکمل طور پر کھنڈر بن چکا ہے۔ مرد و عورتیں چیختے چلاتے جان بچانے کیلئے جلد از جلد وہاں سے نکل جانا چاہتے ہیں، تباہی کے حیران کن منظر ہیں، جن کا کوئی تصور بھی نہ کر سکتا تھا۔ یہی حال تل ابیب کا ہے، جہاں شہر کی نصف سے زائد اہم فوجی و دیگر عمارتیں ملبے میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ دیگر کیثر المنزلہ عمارتوں کی طرح ایک پچاس منزلہ عمارت پر ایرانی میزائل گرا تو وہ یوں ٹکڑوں میں تقسیم ہوئی جس طرح خربوزے پر تین مرتبہ چھری چلائی جائے تو وہ چھ پھانکوں میں بٹ جاتا ہے۔ اس عمارت میں ہر فلور پر پچیس فلیٹ تھے، ساڑھے بارہ سو فلیٹ مع اس کی پانچ بیسمنٹ آن واحد میں ملبے کا ڈھیر بن گئے۔ ان کے کچھ مکین بنکروں میں جا چکے تھے، لیکن نصف سے زائد ابھی جانے کی تیاریوں میں مصروف تھے کہ زندہ درگور ہو گئے، فائر بریگیڈ اور دیگر عملہ ملبے تلے دبے لوگوں کو نکالنے کی کوششوں میں مصروف ہیں، ابھی ایک عمارت پر کام شروع کرتے ہیں تو قریب ہی دوسری عمارت زمین بوس ہوتی نظر آتی ہے۔ یہی حال اسرائیل کے ایک بہت اہم شہر حیفہ کا ہے، جہاں فوجی تنصیبات، آئل ریفائنری اور نیول ہیڈ کوارٹرز جیسی اہم عمارتیں تھیں، رافیل کمپنی کا اہم دفتر اور فیکٹری بھی یہاں تھی جو ملیا میٹ ہو گئی ہے۔ اس شہر پر میزائلوں کی برسات شروع ہوئی تو ساحل کے ساتھ بنی عمارتوں کے مکین چیونٹیوں کی طرح نکل کر بھاگے، کچھ تو صرف انڈر گارمنٹس میں نظر آئے۔ میزائلوں نے انہیں مکمل لباس پہننے کی مہلت نہیں دی۔ ابتدائی چند روز تو ہوائی جہاز بھر بھر کر بیرون ملک پرواز کرتے رہے مگر اب نتین یاہو نے انخلا پر پابندی عائد کردی ہے، جس پر لوگ متبادل ذرائع یعنی کشتیوں اور موٹر بوٹس کے ذریعے شہر چھوڑ کر یونان اور قریبی ملکوں میں پناہ کیلئے پہنچ رہے ہیں۔ موت کا اتنا خوف کبھی انسانوں کے چہروں پر دیکھنے میں نہیں آیا جو آج ہر اسرائیلی کے چہرے پر ہے۔ حیفہ میں مائیکرو سافٹ گوگل اور اہم ترین ریفائنری مع ان کی فیکٹریوں کے تباہ ہوئے ہیں، سائٹ کے نصف سے زیادہ حصے ناکارہ ہو گئے ہیں، یہ اسرائیل کی اہم بندر گاہ ہے، جہاں ہر روز اربوں ڈالر کا مال پہنچتا ہے اور یہیں سے بیرونی دنیا کو روانہ کیا جاتا ہے۔ اس بندرگاہ کے کچھ ٹرمینل بھارتی کاروباری شخصیت ایڈانی کے پاس ہیں، جو بھارتی وزیراعظم مودی کے فرنٹ مین ہیں۔ دوسری جنگ عظیم میں حیفہ کی بندرگاہ کا کردار بہت اہم تھا۔ ایران نے جرات و ہمت کی جو مثال قائم کی ہے وہ تاریخ میں اہم مقام حاصل کریگی۔ عالم اسلام کیا کر رہا ہے اسے سمجھنے کیلئی شاید اس سے بہتر مثال کوئی اور نہ ہو، ایک فلسفی چلتے ہوئے کولہو کے پاس رکا اور اس نے مالک سے پوچھا کہ بیل کے گلے میں گھنٹیاں کیوں باندھ رکھیں ہیں، مالک نے جواب دیا ان گھنٹیوں کی آواز سے مجھے دور بیٹھے بیٹھے بھی معلوم ہوتا ہے کہ بیل اپنا کام کر رہاہے۔ فلسفی نے پوچھا کہ اگر بیل رک جائے اور صرف اپنا سر ہلاتا رہے تو پھر ؟۔ بیل کے مالک نے جواب دیا جناب ! وہ جانور ہے فلسفی نہیں، پوری امت مسلمہ اس وقت جنگ کے کولہو میں اپنا کردار ادا کرنے کی بجائے ایک جگہ رک کر صرف اپنی گردن ہلا رہی ہے اور مطمئن ہے کہ گھنٹیاں بج رہی ہیں۔

جواب دیں

Back to top button