Column

غیرقانونی تارکین وطن کا انخلا، اعداد و شمار

غیرقانونی تارکین وطن کا انخلا، اعداد و شمار
تحریر: امتیاز عاصی
پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جسے مملکت میں قیام پذیر غیر قانونی تارکین وطن کے اعدادوشمار بارے پوری معلومات نہیں ہیں ورنہ کسی ملک میں چلے جائیں چند منٹ میں غیر قانونی تارکین وطن کی درست تعداد کا علم ہو جائے گا۔ افغانستان میں روسی جارحیت کے بعد افغان پناہ گزینوں کی پاکستان آمد کا لاامتناعی سلسلہ شروع ہو گیا جو کئی عشرے گزرنے کے بعد ختم نہیں ہو سکا ہے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کسی ملک کے باشندے کو اسی صورت دوسرے کسی ملک پناہ مل سکتی ہے اگر اسے اپنے ملک میں جان کے خدشات ہوں۔ اربوں کھربوں روپے دونوں ملکوں کی سرحد پر باڑ لگانے میں صرف ہو گئے غیر قانونی افغان پناہ گزینوں کی آمد کا سلسلہ بند نہیں ہو سکا۔ وہ جنہیں واپس بھیجا جاتا ہے چند ماہ بعد دوبارہ واپس آجاتے ہیں۔ عجیب تماشہ ہے افغانستان کے لوگ بلوچستان کی راستے منشیات کی باقاعدہ سمگلنگ کرتے ہیں جسے آج تک روکا نہیں جا سکا ہے۔ ہمیں نارکوٹیکس کنٹرول کے ایک اعلیٰ افسر نے بتایا افغانستان سے بلوچستان کے راستے منشیات کی بڑی کھیپ جس میں زیادہ تر افیون زیادہ ہوتی ہے ایران بھیجی جاتی ہے۔ اگر بلوچستان کے راستے افغانستان کے لوگ منشیات ایران بھیج سکتے ہیں تو پاکستان میں افغانستان سے کیا کچھ نہیں آسکتا ہے؟ بدقسمتی سے جو افغان پناہ گزیں وطن میں آئے انہیں کیمپوں میں رکھنے کے بعد شہروں میں رہنے کی کھلی آزادی دے دی گئی جس کے بعد افغان پناہ گزنیوں نے قومی شناختی کارڈ بنوا کر بڑی بڑی جائیدادوں کے مالک بن گئے۔ ان مہاجرین کو کیمپوں سے باہر نکلنے کی آزادی نہ دی جاتی نہ وہ قومی شناختی کارڈ بنوا سکتے جس کے ذمہ دار وہ منصوبہ ساز تھے جنہوں نے افغان مہاجرین کو شہروں میں رہنے کی کھلی اجازت دے دی۔ یہ بات درست ہے افغانستان میں سمندر نہ ہونے سے افغانستان ہماری ذمہ داری ہے Liability تاہم اس کا مطلب یہ نہیں وہ یہاں آکر جو کرنا چاہیں کرتے پھریں۔ افغانوں کی کئی نسلیں جوان ہو گئیں ہیں جو افغان مملکت میں رہ رہے ہیں ان سے پوچھا جائے وہ کہاں کے رہنے والے ہیں تو جواب ملتا ہے پاکستان۔ ایک کم عمر افغان بچے سے ہم نے پوچھ لیا آپ کہاں کے رہنے والے ہو اور آپ
کے ابو کیا کام کرتے ہیں تو اس نے بتایا اس کے والد کی کارپٹس کی دوکان ہے ہیں وہ افغانستان کے رہنے والے ہیں مگر ابو نے منع کر رکھا ہے کسی کو نہیں بتانا وہ افغان ہیں۔ سوال ہے کوئی حکومت غیر قانونی پناہ گزینوں کو پوری طرح نکالنے میں کامیاب کیوں نہیں ہو سکی؟ دراصل قانون نافذ کرنے والے اداروں کے بعض بددیانت ملازمین کی آشیرباد سے غیرقانونی تارکین وطن کو تحفظ حاصل ہے جس کی بنا وہ مملکت سے واپس جانے کو تیار نہیں۔ نگران حکومت سے اب تک دو بار غیر قانونی تارکین وطن کے انخلاء کے آپریشن ہو چکے ہیں جس میں حکومت پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکی۔ کچھ بیرون ملکوں کا دبائو اور کچھ اپنوں کی کارستیانوں کی وجہ سے غیرقانونی تارکین وطن بدستور مملکت میں قیام پذیر ہیں۔ ایک اردو معاصر میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق یکم اپریل سے اب تک دو لاکھ سولہ ہزار افغان پناہ گزیں وطن واپس جا چکے ہیں۔ اکتوبر2023 ء سے گیارہ لاکھ دو ہزار غیرقانونی تارکین وطن اپنے ملکوں کو واپس جا چکے ہیں۔ وہ افغان شہری جن کے پاس افغان سٹیزن کارڈ اب تک دولاکھ سولہ ہزار واپس جا چکے ہیں۔ وزارت داخلہ نے رضاکارانہ طور پر اپنے ملکوں میں واپس جانے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے البتہ وہ غیر قانونی تارکین وطن جو اپنے ملکوں میں واپس نہیں جائیں گے یا جن کی وطن واپس میں کسی قسم کی رکاوٹ ڈالنے والوں کے خلاف سختی سے نپٹنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اب جب کہ افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز کے قیام کی مدت مکمل ہو چکی ہے وہ واپس جانے کا نام نہیں لیتے ہیں۔ افغان شہریوں کی ایک بڑی تعداد جڑواں شہروں میں مقیم ہے جنہیں یورپی ملکوں نے ویزا دینے کا عندیہ دے رکھا ہے نہ انہیں یورپی ملک ویزا دے رہے ہیں نہ وہ افغانستان واپس جا رہے ہیں۔ یہ امر قابل ذکر ہے افغان مہاجرین کی پاکستان آمد سے یہاں جرائم کی شرع میں اضافہ ہوا ہے افغان مہاجرین چوری ڈکیتی اور دھماکوں میں ملوث رہے ہیں ان کی اچھی خاصی تعداد پاکستان کی جیلوں میں اب بھی موجود ہے۔ بلاشبہ غیر قانونی تارکین وطن ہر ملک میں موجودہ ہے لیکن انہیں نکالنے کی سبیل حکومت نے نکالنی ہوتی ہے ۔ کئی حکومتیں گزر چکی ہیں افغان پناہ گزینوں کے انخلا میں ناکام ہو چکی ہیں۔ افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعدا د کو قومی شناختی کارڈ بنوانے سے آئینی تحفظ مل گیا ہے جس کا وہ بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں جب چاہیں افغانستان چلے جاتے ہیں جب چاہیں واپس آجاتے ہیں۔ تعجب ہے جب پاکستان کی حکومت غیر قانونی افغان مہاجرین کی وطن واپس کے سلسلے میں مہم چلانے کا اعلان کرتی ہے اقوام متحدہ اور دوسرے ادارے انہیں واپس نہ بھیجنے کی اپیل کرتے ہیں۔ بھلا کیوں انہیں اپنے وطن واپس نہیں جانا چاہیے؟ اب جب طالبان کی عبوری حکومت نے انہیں واپس آنے کے بعد زندگی کا تحفظ دینے کی ضمانت دے دی ہے تو انہیں اپنے ملک واپس چلے جانا چاہیے۔ پاکستان سے واپس جانے والے افغان پناہ گزینوں کی بڑی تعداد وطن واپس کے بعد کابل ، قندھار اور ننگرہا ر میں قیام کو ترجیح دیتی ہے جس کی وجہ یہ تمام علاقے پاک افغان بارڈر کے قریب واقع ہیں۔اس وقت افغان پناہ گزینوں کی بڑی تعداد بلوچستان اور کے پی کے میں قیام پذیر ہے جنہیں وطن واپس بھیجا جانا بہت ضروری ہے۔ عمران خان کے دور سے اب تک حکومت کے ساتھ بی این پی کے چیئرمین سردار اختر مینگل کا پرانا مطالبہ چلا آرہا ہے بلوچستان سے افغان پناہ گزنیوں کو واپس بھیجا جائے۔ افغانستان میں قیام امن اور طالبان کی عبوری حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد افغان پناہ گزینوں کو پاکستان میں مزید قیام کا کوئی جواز باقی نہیں۔ موجودہ حکومت کو بغیر کسی بیرونی دبائو کو خاطر میں لائے تمام غیر قانونی اور سٹیزن کارڈ ہولڈر افغانوں کو ان کے واپس بھیجے جانے کو یقینی بنانا چاہیے۔

جواب دیں

Back to top button