Column

آگ کے دہانے پر کھڑا مشرقِ وسطیٰ

آگ کے دہانے پر کھڑا مشرقِ وسطیٰ
تحریر : حافظ محمد یاسر ایڈووکیٹ

دنیا جب یوکرین اور روس کے تنازع پر نظریں جمائے بیٹھی تھی، تب مشرقِ وسطیٰ ایک نئی جنگ کے دہانے پر جا پہنچا ۔ اس بار آتش فشاں کو دہکانے والا ہاتھ اسرائیل کا تھا۔13جون 2025ء کو، اسرائیل نے ایران کے متعدد شہروں پر بھرپور فضائی حملے کیے۔ یہ کارروائیاں کسی ’’ ممکنہ خطرے‘‘ کے خلاف نہیں بلکہ ایک مکمل جنگی حکمتِ عملی کے تحت کی گئیں، جن کا مقصد ایران کے نیوکلیئر پروگرام کو پیچھے دھکیلنا اور خطے پر اپنی بالا دستی کا ایک اور مظاہرہ کرنا تھا۔ اسرائیل کی جانب سے اصفہان، کرمان، قم اور تہران میں واقع دفاعی اور سائنسی مراکز کو نشانہ بنایا گیا۔ ان حملوں میں ایران کے سینئر افسران اور سائنسدانوں کی شہادت نے اس حملے کی سنگینی کو اور بڑھا دیا ہے۔
اسرائیل کی اس کارروائی پر حیرت انگیز طور پر مغربی دنیا خاموش ہے، بلکہ بعض حلقوں نے اسے ’’ دفاعی اقدام‘‘ قرار دیا۔ گویا اب کسی ملک کی خودمختاری اور اس کی سرحدوں کی حرمت کو عالمی طاقتوں نے اپنی پسند اور مفاد کے تابع کر دیا ہے۔ ایران نے فوری طور پر دفاعی ردعمل دیا، تاہم اُس کا لہجہ واضح تھا:’’ ہم جنگ نہیں چاہتے، مگر جارحیت کا جواب ضرور دیں گے‘‘ ۔ یہ طرزِ عمل بتاتا ہے کہ ایران اس مرحلے پر مکمل جنگ کے لیے تیار نہیں، لیکن اسے دیوار سے لگانا بھی خطرناک ہو گا۔
ایسی نازک صورت حال میں جس ریاست کی نگاہیں سب سے زیادہ تلاش کی جا رہی ہیں، وہ ہے سعودی عرب۔ سعودی عرب کا جغرافیائی، سیاسی اور مذہبی وزن اسے مشرقِ وسطیٰ میں ایک قدرتی لیڈر بناتا ہے۔ حالیہ برسوں میں ایران کے ساتھ سفارتی روابط کی بحالی نے اسے ایک ممکنہ ثالث کا مقام بھی عطا کیا ہے۔ الریاض اس وقت ایک غیر جانبدار، متوازن اور موثر پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔ جو جنگ کی مخالفت اور سفارت کی وکالت کرتی ہے۔ تاہم وقت تقاضا کر رہا ہے کہ یہ احتیاط اب فعال قیادت میں بدلے۔ ریاض کی جانب سے اسرائیلی حملوں کی مذمت اور ایران کے ساتھ کھڑے ہونے کا بیان تو جاری کیے گئے ہیں لیکن ایک سوال انتہائی ضروری اور اہم ہے کہ
کیا سعودی عرب اس موقع پر صرف ایک مبصر بنے گا؟ یا وہ عرب اور مسلم دنیا کو یکجا کر کے، ایک مشترکہ موقف اختیار کرنے کی راہ ہموار کرے گا؟۔
قارئین کرام! مسلم امہ کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ آج ایران نشانہ ہے، کل کوئی اور ہو سکتا ہے۔ اگر اسرائیل کو بے لگام چھوڑ دیا گیا تو اس کا اگلا ہدف لبنان، شام یا حتیٰ کہ خلیج کی ریاستیں بھی ہو سکتی ہیں۔ امت مسلمہ کے لیے یہ وقت بے حسی کا نہیں، بیداری کا ہے۔ او آئی سی (OIC)، عرب لیگ، اور مسلم قیادت اگر اب بھی خاموش رہے تو یہ خاموشی کل ان کے اپنے شہروں کی تباہی کی آوازوں میں بدل سکتی ہے۔
اس وقت سب سے بڑی ضرورت جنگ نہیں، قیادت ہے۔ ایسی قیادت جو جذبات کی نہیں، حکمت کی بنیاد پر فیصلے کرے۔ جو ایران کی خودمختاری کا دفاع بھی کرے، اور مشرقِ وسطیٰ کو ایک اور بڑی جنگ سے بھی بچا لے۔ سعودی عرب کے پاس ابھی موقع ہے کہ اسلامی ممالک کی قیادت کرنے کی سعی کرے۔ تمام مسلم ممالک کے درمیان اتحاد و یگانگت پیدا کرنے کا کردار ادا کرے ، لیڈر بنے اور تاریخ رقم کرے۔ تاریخ ہمیشہ موقعوں کو یاد رکھتی ہے، ضائع کرنے والوں کو نہیں۔

جواب دیں

Back to top button