Column

اسلامی بلاک کی ضرورت

اسلامی بلاک کی ضرورت
تحریر : حافظ محمد قاسم مغیرہ

ایران پر اسرائیلی حملے کے بعد ایران کی جوابی کارروائی سے اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کے تصور کی نفی ہوئی۔ خطے میں اسرائیل کی بالادستی اور توسیع پسندانہ عزائم کی راہ میں ایک فصیل حائل ہوئی۔ کم و بیش پچاس برس بعد اسرائیل کو کسی توانا مسلح مزاحمتی قوت کا سامنا ہے۔ ایران نے سائنسی تحقیق کے مرکز اور پاور ہائوسز کو نشانہ بناکر اہم تزویراتی کامیابیاں سمیٹی ہیں۔ ایک عرصے سے اسرائیل کے طاقت ور ہونے کی بنا پر ذہنوں پر خوف اور مرعوبیت چھائے ہوئے تھے۔ ایران کی جوابی کارروائی اور پے در پے حملوں سے یہ مرعوبیت ختم ہوئی اور خوف کے سائے چھٹ گئے۔ اسرائیلی حملے اور ایران کی جوابی کارروائی سے اس تاثر کی نفی ہوئی کہ ایران اسرائیل کا خفیہ حلیف ہے اور کبھی اسرائیل کے خلاف کارروائی نہیں کر سکتا۔ ایران کی حمایت میں پاکستان ، سعودی عرب اور ترکی نے واضح اور دو ٹوک موقف اپنایا ہے۔ اس طرح اسلامی بلاک جو ایک ناپید شے سمجھا جارہا تھا ، کے حق میں کچھ آوازیں بلند ہوئیں۔ تاہم اس سلسلے میں ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ جہاں کچھ مسلم ممالک کا ایران کے ساتھ کھڑی ہونا قابل تعریف ہے ، وہیں کچھ مسلم ممالک نے شرم ناک کردار ادا کیا ہے۔ اردن نے اسرائیل کو اپنی فضائی حدود سے گزرنے کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے اور ایران کی جانب سے اسرائیل کو نشانہ بنانے والے میزائلوں کو ناکارہ کر رہا ہے۔
اسرائیل کے پہلے حملے میں ایران کو انتہائی اہم شخصیات سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد ایران کو وی آئی پی شخصیات کے لیے فول پروف سیکیورٹی کا بندوست کرنے کی ضرورت تھی۔ ایران نے اس طرف توجہ نہ دی، اس کا خمیازہ اسے بھگتنا پڑا۔ ایران میں اسرائیل کے فعال انٹیلیجنس نیٹ ورک نے بھی ایران کو شدید نقصان پہنچایا۔ ایران کو اپنے انٹیلیجنس جنس سسٹم کو بہتر، مثر اور فول پروف بنانے کی ضرورت ہے۔ انٹیلیجنس سسٹم کو فعال بنائے بغیر دفاع کو مستحکم نہیں کیا جاسکتا۔ ایران کو اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ بھارت کی جانب ایران کے جھکا اور پاکستان میں تخریب کاری کرنے کے باوجود اس جنگ میں بھارت ایران کے ساتھ نہیں کھڑا۔ اس کے برعکس ایران میں بھارتی جاسوسوں کے اثر و نفوذ نے ایران کو نقصان پہنچایا۔ ایران کو اپنی پراکسی وارز کی حکمت عملی ترک کرکے مسلکی تعصبات سے بالاتر ہوکر تمام مسلم ممالک سے اچھے تعلقات قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ سنی ممالک میں تخریب کاری کرکے ایران کو شاید کچھ تسکین تو ملی ہو لیکن اس کے نتیجے میں ایران تنہائی کا شکار ہوا اور داخلی استحکام اور معیشت پر خاطر خواہ توجہ نہ دے سکا۔ ایران کو اپنی غلطیوں کے انجام سے سیکھتے ہوئے پراکسی وارز کے بجائے سنی ممالک سے تعاون اور اعتماد کا رشتہ قائم کرنا چاہیے۔ ایران کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس کے مسلک سے قطع نظر عالمی طاقتیں بہرحال اسے ایک مسلم ملک کے طور دیکھتی ہیں اور اس کا ایٹمی پروگرام طاقت ور ممالک کو کھٹکتا ہے۔ ایران کو ان تمام محاذوں پر حکمت سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ایران کے پائیدار دوست بہرحال مسلم ممالک ہی ہوسکتے ہیں۔
اسرائیل کے حملے کے تناظر میں کچھ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد ایران میں رجیم چینج ہے۔ فی الحال اس کا امکان دکھائی نہیں دیتا۔ اس کی بڑی وجہ ایران کا ایک مضبوط عسکری طاقت ہونا ہے۔ دوسری بڑی وجہ ایران کے پاسداران انقلاب کی جانب سے شدید مزاحمت کا خدشہ ہے۔ پاکستان کا دوٹوک موقف بھی اس میں مزاحم ہوسکتا ہے۔ پاکستان کے لیے یہ بات تسلیم کرنا ناممکنات میں سے ہے کہ یہ دو انتہا پسندانہ نظریات یعنی ہندو توا اور صیہونیت رکھنی والی دو طاقتوں کے درمیان سینڈوچ بن جائے۔ پاکستان کی سالمیت اور خطے کے امن کے لیے ضروری ہے کہ ایران میں رجیم چینج کی ہر کوشش کو ناکام بنایا جائے۔ اس سلسلے میں پاکستان کیا لائحہ عمل اختیار کرتا ہے، اس کا فیصلہ پاکستان کے پالیسی سازوں کو کرنا ہے۔
تمام مسلم ممالک کو ماضی کی تلخیاں بھلا کر ایک دوسرے کے قریب آنے کی ضرورت ہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ شیعہ سنی تقسیم کی خلیج بہت گہری ہے۔ اس خلیج کے ہوتے ہوئے اشتراک عمل کی کیا پالیسی ہوسکتی ہے۔ طرفین کے علماء کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔
مسلم ممالک کے درمیان التوا کے شکار منصوبوں کو مکمل کرنے کی ضرورت ہے۔ CASA 100، TAPI 1000 اور پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبوں کو جلد پایہ تکمیل تک پہنچا کر مسلم ممالک کے درمیان تعاون کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ ان منصوبوں سے وسطی ایشیاء اور جنوبی ایشیا معاشی تعاون کے اعتبار سے ایک بہتر بلاک بن سکتے ہیں۔
مسلم ممالک کو مغرب پر معاشی انحصار بہ تدریج کم کرتے ہوئے اپنے وسائل کو معاشی استحکام کے لیے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کو ہائیر ایجوکیشن کے اعتبار سے مسلم دنیا میں امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ پاکستان طب ، انجینئرنگ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبوں میں مسلم ممالک کی قیادت کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ پاکستان اس پوٹینشل کو بروئے کار لاکر مسلمان دنیا کو ماہرین کی ایک کھیپ فراہم کر سکتا ہے۔ اس کے لیے پاکستان اور دیگر مسلم دنیا کے مابین ہائیر ایجوکیشن کے لیے طویل مدتی معاہدوں کی ضرورت ہے۔
پاکستان ، ایران اور ترکی مضبوط افواج رکھتے ہیں۔ مسلم ممالک کے درمیان عسکری تعاون کے سلسلے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
مسلم قیادت کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایک موثر اسلامی بلاک کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں حائل ہوں گی۔ اس کے لیے حکمت اور دور اندیشی پر مبنی ایک طویل اور صبر آزما منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔
مسلم ممالک کو امن کے نعروں نے کچھ نہیں دیا۔ دنیا طاقت کی زبان سمجھتی ہے اور طاقت کی بات پر سر تسلیم خم کرتی ہے۔ مسلم دنیا کو کسی صورت عسکری طاقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔
مسلمان ملکوں میں مغربی جمہوریت کا ماڈل فلاپ ہوچکا ہے۔ یہاں مقامی روایات کے مطابق نئے سیاسی نظام کی ضرورت ہے۔ یہ کسی بھی شکل کا نظام ہو لیکن معاشی ترقی اور داخلی استحکام کو یقینی بنائے۔ ایک موثر اسلامی بلاک نہ صرف وقت کی اہم ضرورت ہے بل کہ مسلم دنیا میں بسنے والے کروڑوں مسلمانوں کے دل کی آواز بھی ہے۔ بڑی عالمی طاقتوں نے مسلم دنیا کے دو بڑے مسائل مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین کے حل میں کبھی دل چسپی نہیں لی بل کہ غاصب قوتوں کی حمایت کی ہے۔ مسلمان ممالک کو اپنے مسائل کے حل کے لیے غیروں کہ طرف دیکھنے بجائے آپس میں تعاون بڑھا کر اپنے مسائل حل کرنے چاہئیں۔

جواب دیں

Back to top button