Column

جعلی ادویات کی روک تھام کی جائے

جعلی ادویات کی روک تھام کی جائے
تحریر : رفیع صحرائی

دیکھا جائے تو جعلی ادویات کی تیاری اور فروخت ملکِ عزیز کا دیرینہ مسئلہ ہے۔ کوئی حکومت بھی اس مافیا پر سخت ہاتھ نہیں ڈال سکی۔ موت کے یہ سوداگر نہ صرف عوام کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں بلکہ دونوں ہاتھوں سے ان کی خون پسینے کی کمائی بھی لوٹنے میں مصروف ہیں۔
ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق ملک میں جعلی ادویات تیار کرنے کی تین ہزار فیکٹریاں موجود ہیں جو ہزاروں اقسام کی جعلی ادویات تیار کرنے میں دن رات مصروف ہیں۔ ان فیکٹریوں کے مالکان میں 35فیصد موجودہ و سابق اراکین اسمبلی ہیں۔ جعلی ادویات کی تیاری میں سندھ پہلے، پنجاب دوسرے، کے پی تیسرے جبکہ بلوچستان چوتھے نمبر پر ہے۔ جعلی ادویات میں طاقت کے انجکشن اور اینٹی بائیوٹکس ادویات سب سے زیادہ تیار ہوتی ہیں۔ رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ لاہور میں لوہاری مارکیٹ، پشاور میں صدر بازار، کراچی میں ایم اے جناح روڈ جعلی ادویات کی بڑی ہول سیل مارکیٹیں ہیں جبکہ سکھر، حیدرآباد اور کوئٹہ میں بھی یہ ادویات بڑی تعداد میں فروخت ہوتی ہیں۔ جعلی ادویات بنانے والی فیکٹریوں کے مالکان میں 21فیصد پرائیویٹ ہسپتالوں کے مالکان جبکہ 15فیصد ڈاکٹر بھی شامل ہیں۔ یہ بھی پتا چلا ہے کہ پرائیویٹ ہسپتالوں کے ساتھ ساتھ بعض سرکاری ہسپتالوں میں بھی جعلی ادویات استعمال کی جاتی ہیں۔
جعلی ادویات بنانے والی فیکٹریوں میں بھارت، چین اور ایران سے سستا اور غیرمعیاری خام میٹیریل درآمد کر کے ان ادویات کی تیاری میں استعمال کیا جاتا ہے جن سے مریضوں کو فائدے کی بجائے الٹا نقصان ہو رہا ہے۔ مریض پرائیویٹ ہسپتالوں میں لاکھوں روپے علاج پر خرچ کرنے کے باوجود موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ یہ ہوشربا انکشاف ہمارے حکمرانوں اور حکامِ بالا کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے کہ ہمارے دیہات میں 70فیصد ادویات جعلی استعمال کی جا رہی ہیں۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ انہیں استعمال کرنے والے بھی نان کوالیفائڈ پریکٹشنر ہوتے ہیں جو چند روز کسی ڈسپنسر یا میڈیکل سٹور پر بطور اسسٹنٹ کام کرنے کے بعد خودساختہ ڈاکٹر بن کر پریکٹس شروع کر دیتے ہیں۔ ڈرگ انسپکٹرز ان ’’ ڈاکٹرز‘‘ سے اپنا ماہانہ بھتہ وصول کر کے انہیں مریضوں کی زندگیوں سے کھیلنے اور لوٹ مار کرنے کی کھلی چھٹی دے دیتے ہیں۔
ہماری ہر حکومت کو صورتحال کا مکمل طور پر علم ہوتا ہے مگر اس مافیا پر ہاتھ ڈالنے کی جرات کبھی کوئی حکومت بھی نہیں کر سکی کیونکہ حکومت کے اپنے اندر موت کے یہ ہرکارے بیٹھے ہوتے ہیں جو اپنے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہونے دیتے۔ اس کے برعکس ہر چند ماہ بعد یہ مافیا حکومت پر دبا ڈال کر ادویات کی قیمتیں بڑھوانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
معزز قارئین! درج بالا حقائق کی روشنی میں یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ میں آ گئی ہے کہ ہمارے اراکین اسمبلی اور بڑے لوگ اپنے علاج کے لیے بیرون ملک کیوں جاتے ہیں۔ انہیں اپنے ملک میں علاج کروانا کیوں پسند نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہی نظر آتی ہے کہ انہیں صورتحال کا پتا ہوتا ہے بلکہ ان میں سے یقیناً کئی حضرات تو خود جعلی ادویات کی فیکٹریوں کے مالک ہوتے ہوں گے۔
ہمارے حکمرانوں، اراکینِ پارلیمنٹ، مراعات یافتہ لوگوں اور اشرافیہ کو پتا ہوتا ہے کہ ان کے ملک میں ہسپتالوں اور ادویات کا کیا معیار ہے۔ ڈاکٹرز کی ایک بڑی تعداد کیسے ڈرگ مافیا کی سہولت کار بنی ہوئی ہے اس لیے وہ ملک کے اندر علاج کروانے کا رسک ہی نہیں لیتے۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ میاں نواز شریف لندن اور امریکہ سے اپنا علاج کروا رہے ہیں۔ سنا ہے بلاول بھٹو نے بھی گزشتہ سال بیرون ملک سے اپنا علاج کرایا تھا۔ صدرِ مملکت آصف زرداری بھی دبئی میں اپنے پائوں کا علاج کرانے گئے تھے۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف بھی اپنے علاج کے سلسلے میں چند ماہ قبل بیرون ملک تشریف لے گئی تھیں۔ جب ہمارے یہ خادم پاکستان میں علاج ہی نہیں کراتے تو انہیں کیا خبر ہو گی کہ اس وقت پاکستانی عوام علاج معالجے کی مہنگی دستیابی اور جعلی ادویات کے سبب کس قدر کرب و اذیت کا شکار ہیں۔ حقیقت میں اس وقت پاکستانی عوام کی حیثیت جانوروں اور کیڑے مکوڑوں سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔ عوام جب تک جہالتوں کے پہاڑ بن کر زندہ باد، مردہ باد، آوے ای آوے اور جاوے ای جاوے کے نعروں سے باہر نہیں نکلتے تب تک حکمرانوں کے لیے راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔

جواب دیں

Back to top button