Column

ایران بمقابلہ اسرائیل: بیلسٹک میزائلوں کی بارش اور دنیا کا لرزتا ضمیر

ایران بمقابلہ اسرائیل: بیلسٹک میزائلوں کی بارش اور دنیا کا لرزتا ضمیر
تحریر : عابد ایوب اعوان
دنیا جس خدشے سے ڈرتی تھی، وہ اب حقیقت میں بدلتا دکھائی دے رہا ہے۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان سالہا سال سے جاری سرد اور نیابتی جنگ اب ایک کھلے، خطرناک اور ممکنہ طور پر عالمی سطح پر پھیلنے والے تصادم میں ڈھل چکی ہے۔
حالیہ پیش رفت: جنگ کی دہلیز پار
گزشتہ ہفتے اسرائیل نے شام میں ایرانی کمانڈروں کے ایک اجلاس پر فضائی حملہ کیا، جس میں پاسدارانِ انقلاب کے کئی اہم اہلکار مارے گئے۔ اس حملے کے ردعمل میں ایران نے پہلی بار براہِ راست اسرائیل پر جوابی وار کیا اور وہ بھی محدود نہیں بلکہ شدید اور منظم۔ ایران نے بیلسٹک میزائلز، کروز میزائلز اور خودکش ڈرونز کے ذریعے تل ابیب، حیفہ اور اسرائیل کے جنوبی فوجی اڈوں پر حملے کیے۔ اسرائیلی دفاعی نظام ’’ آئرن ڈوم‘‘ نے کئی حملے روکنے کی کوشش کی، لیکن متعدد مقامات پر دھماکوں کی اطلاعات ہیں۔ سائرن، خوف، اور تباہی کا ماحول اسرائیل میں چھا گیا۔ یہ حملہ صرف علامتی نہیں بلکہ ایران کی عسکری صلاحیت اور سیاسی جرات کا مظاہرہ تھا اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ جنگ اب دونوں ملکوں کی سرزمین پر منتقل ہو چکی ہے۔
عالمی ردِعمل اور پوزیشننگ: امریکہ کی ایران پر ’’ شدید نتائج‘‘ کی دھمکی، اسرائیل کے دفاع میں کھلے عام شانہ بشانہ۔ امریکی جنگی بحری جہاز خلیج فارس میں موجود، اسرائیلی انٹیلیجنس کے ساتھ فوری معلومات کا تبادلہ جاری۔ روس و چین کا امریکہ کو مداخلت سے باز رہنے کا مشورہ۔ ایران کے حق میں خاموش سفارتی حمایت جاری۔ دنیا کو ایک اور یوکرین جیسے بحران سے بچانے کی بات ہو رہی ہے، مگر دلچسپی درپردہ اپنا اثر بڑھانے کی بھی ہے۔ اقوامِ متحدہ کی امن کی اپیل، ہنگامی اجلاس، مگر عملاً بے اثر۔
ممکنہ اثرات اور عالمی خطرات:
1: تیسری عالمی جنگ کا عملی آغاز، اگر اسرائیل ایران کی سرزمین پر بڑے پیمانے پر حملہ کرتا ہے۔
2: جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا خطرہ، ایران و اسرائیل دونوں نے ’’ ہر حد تک جانے‘‘ کے عندیے دئیے ہیں۔
3: تیل اور گیس کی عالمی سپلائی میں خلل، خلیج فارس میں جنگ، عالمی معیشت کا سانس بند کر سکتی ہے۔
4: مہاجرین کی نئی لہر، لبنان، شام، اور دیگر ہمسایہ ممالک میں انسانی المیے جنم لینے کو ہیں۔
5۔ مسلم دنیا میں مزید تقسیم، ایران مخالف عرب ریاستیں اسرائیل کے قریب، جبکہ عوام کی ہمدردی فلسطین و ایران کے ساتھ۔
پاکستان، ترکی اور دیگر ریاستوں کی پوزیشن: پاکستان کی پالیسی خاموش اور محتاط ہے۔ سرکاری بیانات میں امن کی اپیل ہے، مگر عوامی سطح پر اسرائیل کے خلاف غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔ ترکی نے کھل کر ایران کے موقف کو تقویت دی ہے، جبکہ خلیجی ریاستیں دبائو میں ہیں کہ کھل کر کسے سپورٹ کریں۔
نتیجہ: ایران اور اسرائیل کے درمیان براہِ راست حملوں کا آغاز تاریخ کا ایک نیا باب ہے، وہ باب جو یا تو مشرقِ وسطیٰ کو خاکستر کر دے گا یا عالمی ضمیر کو جگا کر امن کی نئی راہ نکالے گا۔
یہ صرف دو ممالک کی جنگ نہیں، یہ پوری دنیا کے امن کا مسئلہ ہے۔
ایسے میں صحافت، تجزیہ، اور عوامی شعور کی ذمہ داری ہے کہ وہ آواز بلند کریں، سچ لکھیں، اور امن کو ممکن بنانے کی کوشش کریں۔

جواب دیں

Back to top button