Column

آخر کار اسرائیل ذلیل ہو گا

آخر کار اسرائیل ذلیل ہو گا
تحریر : سی ایم رضوان

عالمی فتنہ گر کے طور پر سامنے آنے والے یہودی قابض اسرائیل نے 13جون کو 200جنگی جہازوں کی مدد سے ایران میں 100سے زائد مقامات پر حملہ کرتے ہوئے ایک نئی جنگ چھیڑ دی ہے۔ واضح رہے کہ ان حملوں میں ایرانی مسلح افواج کے سربراہ میجر جنرل محمد باقری، پاسداران انقلاب کے سربراہ میجر جنرل حسین سلامی اور 6جوہری سائنسدان شہید ہوئے۔ اسرائیلی حکام کا دعویٰ ہے کہ ان حملوں میں ایران کے جوہری اور عسکری مراکز کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ دوسری جانب ایرانی میڈیا کے مطابق حملوں کے نتیجے میں خواتین اور بچوں سمیت کم از کم 5شہری شہید اور 50زخمی ہوئے ۔ اس وقت دنیا بھر کے سامنے سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اسرائیل نے ایران پر حملہ کیوں کیا اور حملے کے لئے یہی وقت کیوں چُنا؟ اور کیا اسرائیل کا ہدف مسلمان ملک ایران کا جوہری پروگرام ہے یا وہ مسلمان ملکوں کو کمزور اور تباہ کرنا چاہتا ہے۔ یہ بھی دنیا سے ڈھکی چھپی بات نہیں کہ اسرائیل دراصل امریکہ کی پالیسیوں کا ہی دنیا پر نفاذ کر رہا ہے اور غزہ سمیت دیگر ممالک کے خلاف اس کے جنگی جرائم دراصل امریکہ کی شہ اور ہدایات پر ہو رہے ہیں۔ خود ٹرمپ نے گزشتہ روز یہ تسلیم کیا ہے کہ اسے اسرائیل کے ایران پر مذکورہ تازہ حملے کا پہلے سے علم تھا ساتھ ہی اس نے منافقت سے کام لیتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ وہ یعنی امریکہ اس علاقائی کشیدگی کے حوالے سے کچھ نہیں کر سکتا۔ بہرحال اسرائیل کی اس ننگی جارحیت کی تفصیلات یہ ہیں کہ ایران کے دارالحکومت تہران میں مقامی وقت کے مطابق صبح ساڑھے 3بجے کے قریب دھماکوں کی اطلاعات موصول ہوئیں۔ اسرائیل نے تہران کے رہائشی علاقوں کو نشانہ بنایا، جبکہ دارالحکومت کے شمال مشرقی علاقوں میں بھی دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں۔ اسی دوران اسرائیل میں بھی شہریوں کو فضائی حملے کے سائرن کے ذریعے خبردار کیا گیا اور انہیں ہنگامی فون الرٹس موصول ہوئے۔ تاہم اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ اس نے ایران کے مختلف علاقوں میں درجنوں فوجی اہداف کو نشانہ بنایا، جن میں جوہری تنصیبات بھی شامل ہیں جبکہ ایرانی سرکاری میڈیا نے اطلاع دی کہ تہران سے 225کلومیٹر جنوب میں واقع نطنز کی جوہری تنصیب پر بھی دھماکہ ہوا۔ ادھر عالمی جوہری نگران ادارے، انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی ( آئی اے ای اے) نے بھی تصدیق کی ہے کہ نطنز کی تنصیب حملے کا نشانہ بنی، تاہم ایرانی حکام نے بتایا کہ وہاں تابکاری کی سطح میں کسی قسم کا اضافہ نہیں ہوا۔
آئی اے ای اے کے سربراہ رافیل گروسی نے کہا کہ جوہری تنصیبات پر حملے نہ صرف جوہری سلامتی اور تحفظ کے لئے خطرناک ہیں بلکہ ان کے علاقائی اور عالمی امن پر بھی سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے تمام فریقین سے زیادہ سے زیادہ تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی۔ جیسا کہ بیان کیا گیا ہے کہ حملے کی پہلی وجہ ایران کا جوہری پروگرام ہے، جس کے بارے میں اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام دراصل ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کی کوشش ہے، جو خطے اور خصوصاً اسرائیل کے وجود کے لئے سنگین خطرہ ہے۔ اگرچہ ایران بارہا یہ وضاحت دے چکا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام صرف پرامن مقاصد کے لئے ہے، لیکن عالمی جوہری ادارہ ( آئی اے ای اے) اور مغربی ممالک اس وضاحت سے مطمئن نہیں ہیں۔ دوسری وجہ سفارتی تنائو ہے، امریکا اور ایران کے درمیان جوہری معاہدے کی بحالی پر مذاکرات جاری تھے، جن میں پیش رفت کے امکانات تھے۔ اسرائیل ان مذاکرات کا سخت مخالف تھا اور ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ اس سے ایران کو جوہری سرگرمیوں کو جاری رکھنے کا موقع مل سکے گا۔ اسرائیل کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اس نے ایران کے جوہری پروگرام کے دل کو نشانہ بنایا۔ دوسری طرف ایران طویل عرصے سے دعویٰ کرتا آیا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام مکمل طور پر پرامن مقاصد کے لئے ہے اور وہ جوہری ہتھیار بنانے یا حاصل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ ملک بھر میں اس کی کئی جوہری تنصیبات موجود ہیں، جن میں سے کچھ حملے کا نشانہ بنی ہیں۔ تاہم عالمی طاقتوں اور انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کو شک ہے کہ ایران کا پروگرام محض سویلین مقاصد تک محدود نہیں ہے۔ حال ہی میں آئی اے ای اے نے امریکا اور یورپی ممالک کی جانب سے پیش کی گئی ایک قرارداد منظور کی ہے، جس میں کہا گیا کہ ایران جوہری عدم پھیلا کے معاہدے کی مکمل پاسداری نہیں کر رہا۔ گزشتہ ہفتے جاری کی گئی آئی اے ای اے رپورٹ کے مطابق ایران کے پاس 60فیصد تک خالص یورینیم موجود ہے، جو ممکنہ طور پر نو جوہری ہتھیار بنانے کے لئے کافی ہو سکتا ہے، تاہم ایران نے اس رپورٹ کو سیاسی قرار دے کر مسترد کیا ہے۔ یاد رہے کہ اکتوبر میں اسرائیل کی جانب سے کیے گئے حملے کے بعد ایران کا فضائی دفاعی نظام بری طرح متاثر ہو چکا تھا، اسرائیل نے اس موقع کا فائدہ اٹھایا خاص طور پر گزشتہ روز جب ایران مکمل طور پر تیار نہیں تھا کیونکہ اسرائیل کو خدشہ تھا کہ اگر امریکا اور ایران کے درمیان جوہری معاہدے میں کوئی پیش رفت ہوئی تو ایران کو عالمی سطح پر دوبارہ طاقت ملے گی، اسی لئے حملہ ایسے وقت میں کیا گیا جب ایک نیا مذاکراتی دور شروع ہونے والا تھا۔ دوسری خاص بات یہ ہے کہ رات کے آخری پہر صبح ساڑھے 3بجے حملہ اس لئے کیا گیا تاکہ ردعمل کمزور ہو اور جوہری تنصیبات کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچایا جا سکے۔ شاطر یہودی نے چھپ کر وار کر اپنی شاطرانہ فطرت کا ثبوت دیا ہے۔
یاد رہے کہ شاطر اسرائیل نے ایران کے اندر فوجی کارروائی سے قبل میڈیا کی ایک ٹھوس چال کے ذریعے اسے چکمہ دیا۔ یہ انکشاف خود اسرائیلی اخبار ’’ یروشلم پوسٹ‘‘ نے کیا ہے۔ اخبار کے مطابق اس فریب کاری کا مقصد حیرت کا پہلو مضبوط رکھنا اور ایرانی ردِ عمل میں تاخیر پیدا کرنا تھا۔ اس اخبار نے بتایا ہے کہ ایک ایسی رات میں جب بظاہر سکون چھایا ہوا تھا، دنیا جوہری مذاکرات کے ایک نئے دور کا انتظار کر رہی تھی اور ذرائع ابلاغ میں اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو کی تعطیلات اور ان کے بیٹے کی شادی کی خبروں کا چرچا تھا۔ دوسری جانب اسرائیل پسِ پردہ اپنی سب سے خفیہ اور فریب پر مبنی کارروائی کی تیاریوں میں مصروف تھا۔ بند دروازوں کے پیچھے، اسرائیلی قومی سلامتی کونسل کے اجلاس میں ایران کے اندر حملے کا فیصلہ کیا گیا۔ اسرائیل نے جان بوجھ کر قومی سلامتی کونسل کے اجلاس کو یرغمالیوں سے متعلق مذاکرات کا عنوان دیا، تاکہ ایران کو مطمئن رکھا جا سکے اور اسے حملے کے وقت سے بے خبر رکھا جائے۔ تاہم جیسے ہی اجلاس کا آغاز ہوا، حکومت نے اتفاق رائے سے حملے کی منظوری دے دی۔ اس میڈیا فریب کاری میں اسرائیلی حکومت نے غزہ میں یرغمالیوں سے متعلق مذاکرات کی آڑ میں قومی سلامتی کونسل کا اجلاس بلایا، اور دعویٰ کیا کہ اس کے اعلیٰ عہدے دار امریکا روانہ ہو رہے ہیں تاکہ ایران اور امریکا کے درمیان متوقع جوہری مذاکرات میں شرکت کی جا سکے۔ ساتھ ہی یہ افواہیں بھی پھیلائی گئیں کہ نیتن یاہو اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان اختلافات پیدا ہو چکے ہیں اور نیتن یاہو اپنی نجی مصروفیات جیسے بیٹے کی شادی کے لئے اسرائیل کی فضائی حدود بند کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ یہ تمام اطلاعات مبینہ طور پر ناظرین کو گمراہ کرنے اور اصل منصوبہ چھپانے کے لئے جان بوجھ کر ذرائع ابلاغ کے ذریعے پھیلائی گئیں۔ اسی اخبار کے مطابق اس فریب کاری کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ ایران کو غافل رکھا جائے تاکہ اسرائیلی فضائی حملہ مکمل طور پر اچانک اور مثر ہو کیونکہ اس سے قبل اسرائیل کے آرمی چیف نے وزیراعظم نیتن یاہو کو دوٹوک رپورٹ دی تھی کہ اسرائیل ایران کا تنہا مقابلہ نہیں کر سکتا، گو کہ ایران اس وقت تنہا ہے۔ نسبتاً کمزور ہے اور عالم اسلام کا شیرازہ بکھرا ہوا ہے۔ ان حالات میں یہ کہنا بجا ہو گا کہ اسرائیل اور عالم یہودیت کا اصل نشانہ ایران کا جوہری پروگرام نہیں بلکہ اسلام کی طاقت ہے۔ ان حالات میں گو کہ اسرائیل کے پاس جدید اسلحے اور سپر پاور کی پشت پناہی کی طاقت ہے مگر ان حالات میں بھی دنیا بھر کے مسلمانوں کا ایمان ہے کہ بالآخر تباہی اور ذلت اسلام دشمن یہودیوں کا مقدر ہو گا۔ گو کہ ایران اس وقت ظاہری طور پر مقابلے میں کمزور ہے لیکن غیبی طاقت ایران کے پاس ہے۔ ماضی قریب میں اس کا ثبوت پاک بھارت کشیدگی میں بھارت کی پسپائی اور ذلت ہے کہ طاقت کے زعم میں مبتلا بھارت پاکستان کی چند گھنٹوں کی مار نے اسے جنگ بندی بھیک مانگنے پر مجبور کر دیا تھا۔

جواب دیں

Back to top button