Column

حکومت بند گلی میں پھنس چکی ہے

حکومت بند گلی میں پھنس چکی ہے
تحریر : رفیع صحرائی
پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما چودھری منظور احمد نے ایک پریس کانفرنس میں حکومت کو خبردار کیا ہے کہ موجودہ بجٹ پاس ہونے سے پہلے پہلے پیپلزپارٹی سڑکوں پر احتجاج کرتی نظر آئے گی۔ وہ حکومت کی طرف سے پیش کیے گئے بجٹ مالی سال 26۔2025پر اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔ انہوں نے حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا اور اسے شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ملازمین کی تنخواہوں میں دس فیصد اور پنشنرز کی پنشن میں صرف سات فیصد اضافہ موجودہ مہنگائی میں انتہائی ناکافی ہے۔ چودھری منظور احمد نے پاکستان پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 2010ء میں مہنگائی بھی اتنی زیادہ نہیں تھی مگر اس وقت کی حکومت نے تنخواہوں میں پچاس فیصد اضافہ کر دیا تھا جبکہ اس سے اگلے سال حکومت نے تنخواہوں میں تین ایڈہاک الائونسز کو بنیادی تنخواہ کا حصہ بنا کر اور اس میں پندرہ فیصد اضافہ کر کے سرکاری ملازمین کو ایک بڑا ریلیف دیا تھا۔ انہوں نے خاوند کی وفات کے بعد بیوہ کی پنشن کو صرف دس سال تک محدود کرنے کے حکومتی فیصلے کو انتہائی ظالمانہ اور سنگ دلانہ قرار دیتے ہوئے اس فیصلے کو واپس لینے اور سرکاری ملازمین کی پنشن اور تنخواہ میں پچاس فیصد اضافے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے واشگاف الفاظ میں اعلان کیا کہ وہ یعنی ان کی پارٹی سرکاری ملازمین کے ساتھ ہے۔ اگر حکومت نے ان کے مطالبات نہ مانے تو پھر بجٹ پاس ہونے سے پہلے ہی پیپلز پارٹی کی طرف سے اس حکومت کے خلاف احتجاج شروع کر دیا جائے گا۔
اگر چودھری منظور احمد کے دعوے کو دیکھا جائے تو ان کی بات سولہ آنے سچ ہے۔ پیپلز پارٹی نے 2008ء سے 2013ء کے دوران اپنے پانچ سالہ دور میں ملازمین کی تنخواہوں میں 85فیصد اضافہ کیا تھا۔ اس سے پہلے پرویز مشرف کے دور میں بھی ملازمین کی تنخواہ اور پنشن میں خاطر خواہ اضافہ ہوا تھا لیکن پیپلز پارٹی کے دور میں سرکاری ملازمین حقیقی طور پر خوش حال ہو گئے تھے۔ جہاں تک پاکستان مسلم لیگ ن کا تعلق ہے تو اس کے ہر دورِ حکومت میں ملازمین پر سختی ہی رہی ہے۔ ایک سال ایسا بھی آیا تھا جب ان کی حکومت نے تمام سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں صرف پانچ روپے کا اضافہ کیا تھا۔ یہ برا ریکارڈ پی ٹی آئی کی حکومت نے آ کر توڑا تھا جب 2020ء میں اس حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہ اور پنشن میں ایک روپے کا اضافہ بھی نہیں کیا تھا۔
پاکستان مسلم لیگ ن کی 2013ء سے 2018ء کے درمیان بننے والی حکومت میں پاکستان پیپلز پارٹی اس کی اتحادی تھی۔ تب بھی ملازمین کی تنخواہ اور پنشن کے معاملے پر پاکستان پیپلز پارٹی بجٹ کے موقع پر اڑ جاتی تھی اور سرکاری ملازمین کی تنخواہ و پنشن بڑھوانے میں اپنا موثر کردار ادا کرتی تھی۔ گزشتہ اور اس سے پچھلے سال بھی بجٹ کے موقع پر ملازمین کو ریلیف دلوانے میں بلاول بھٹو نے بھرپور کردار ادا کیا تھا۔ اب ایک مرتبہ پھر پاکستان پیپلز پارٹی کو موقع مل گیا ہے کہ وہ سرکاری ملازمین کی اشک شوئی کرتے ہوئے حکومت کو مجبور کریں کہ وہ پنشن اور تنخواہ میں اضافے کے علاوہ حکومت کی جانب سے سلب کی گئی مراعات سرکاری ملازمین کو واپس دلوائیں۔ سرکاری ملازمین کی پنشن اور گریجویٹی پر کٹ لگا دیئے گئے ہیں۔ ان کی اولاد کے لیے بھرتی کا کوٹہ پہلے ہی ختم کر دیا گیا تھا۔ موجودہ حکومت نے ڈیتھ کوٹہ ختم کر کے سرکاری ملازمین کو ان کے جائز حق سے محروم کر دیا ہے۔ لیو ان کیش منٹ کے حق سے بھی سرکاری ملازمین کو محروم کر دیا گیا ہے۔ یہ حکومت آئی ایم ایف کے مقرر کردہ وزیرِ خزانہ کے ذریعے سرکاری ملازمین کو مسائل کی چکی میں جھونکتی چلی جا رہی ہے۔ اس کا وزیرِ خزانہ ایک بینکار ہے۔ بینکار کبھی بھی عوام کا خیر خواہ نہیں ہو سکتا۔
سرکاری ملازمین اور پنشنرز کے لیے چودھری منظور احمد کی پریس کانفرنس اہک امید کی کرن بنی ہے۔ اگر پاکستان پیپلز پارٹی ساتھ نہ دے تو حکومت ایڑی چوٹی کا زور لگا کر بھی بجٹ پاس نہ کروا سکے گی۔ صرف پیپلز پارٹی ہی نہیں مولانا فضل الرحمان، ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی نے بھی بجٹ پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے احتجاج کا عندیہ دیا ہے۔
حالات سے لگ تو ایسا ہی رہا ہے کہ حکومت کو بیک فٹ پر جانا پڑے گا۔ حکومت بہت بری طرح پھنس چکی ہے تاہم حکومت کے پاس عمران خان فارمولا بھی موجود ہے کہ ایجنسیوں کے ذریعے ’’ بندے‘‘ پکڑ کر بجٹ منظور کروا لیا جائے۔ موجودہ بجٹ سے اشرافیہ کے علاوہ کوئی بھی مطمئن نہیں ہے۔ اگر زبردستی بجٹ پاس کروانے کی کوشش کی گئی تو انڈیا سے جنگ جیت کر اسٹیبلشمنٹ نے جو اپنا مورال آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دیا ہے وہ زمین بوس ہو جائے گا۔ اسے ایک مرتبہ پھر دفاعی پوزیشن پر جانا پڑ جائے گا جو وہ کبھی نہیں چاہے گی۔ نہ ہی یہ کسی صورت بھی ملک کے مفاد میں ہے۔ دوسری طرف بلاول بھٹو کے پاس سنہری موقع ہاتھ آ گیا ہے کہ وہ پنجاب میں اپنی پارٹی کی ساکھ کو بحال اور مضبوط کریں۔ اس کے لیے اگر انہیں حکومتی اتحاد سے نکلنا بھی پڑے تو انہیں نکلنے میں دیر نہیں کرنی چاہیے کہ اگر بجٹ پاس نہ ہو سکا تو اسے حکومت کے خلاف عدمِ اعتماد سمجھا جائے گا اور وزیرِ اعظم کو اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینا پڑے گا۔ بلاول کو ہمت، دلیری اور جرات سے کام لینا ہو گا۔ حکومت بجٹ پاس کرنے میں مدد کے بدلے انہیں پنجاب میں سپیس دینے اور ان کے بندے اکاموڈیٹ کرنے کی پیشکش لازمی کرے گی۔ اب اگر بلاول پیچھے ہٹے تو پیپلز پارٹی کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا۔ وہ مضبوطی سے ڈٹ گئے تو حکومت کی رہی سہی مقبولیت میں بڑا ڈینٹ ڈالنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ تاریخ بہادروں کو یاد رکھتی ہے۔ سرنڈر کرنے والے مفتوحین کی صف میں جگہ پاتے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button