ہم نفرت میں سکون چاہتے ہیں

ہم نفرت میں سکون چاہتے ہیں
تحریر: تجمل حسین ہاشمی
ہمارے ہاں انسانی رویے ایک دوسرے سے شدید متاثر ہو چکے ہیں۔ ہم نفرت میں سکون اور خوشی تلاش کرنا چاہتے ہیں، مٹھاس ، مسکراہٹ کی کمی ہے، جھوٹ ، بھروسہ کیلئے خدا کی قسموں کا سہارا لیتے ہیں۔ اپنے کردار اتنے کمزور ہیں کسی دوسرے پر یقین نہیں رہا۔ طاقت سے انسانی رویوں کو بدلنا چاہتے ہیں، حکمرانی کیلئے کھچ بھی کر جاتے ہیں ۔ ضمیر اور ملک گروی رکھا لیتے ہیں۔ ڈنڈے سے قانون نافذ کرنا چاہتے ہیں، سختی سے بچوں کو تعلیم یافتہ بنانا چاہتے ہیں، بے ایمانی، رشوت اور لوٹ مار سی ملک کی ترقی چاہتے ہیں، دہشت گردوں کی پشت پناہی سے امن لانا چاہتے ہیں۔ نفرت کی یہ جنگ صرف حکومتی ایوانوں، مالداروں اور تاجروں تک محدود تھی، مگر یہ گلی محلوں کے علاوہ گھروں تک کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔ مسلسل اس میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ آج ہمارے حکمران نفرت کے سائے تلے ملکی ترقی اور دیرپا امن کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن بجٹ کے اعداد و شمار کے بعد ترقی کا سفر آسان دکھائی نہیں دے رہا ۔ بچپن سے یہی سنتے آئے ہیں کہ شعبہ زراعت ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے، اور یہ حقیقت بھی ہے کہ ہمارے ہاں اکثریت کا روزگار کھیتی باڑی سے وابستہ ہے۔ کیا وزیر اعظم شہباز شریف اس حقیقت سے لاعلم ہیں کہ کسانوں کی کمر ٹوٹ گی ہے ؟ وہ شخص جو گیارہ برس پنجاب جیسے زرعی صوبے کا وزیر اعلی رہا ہو، جہاں زراعت روزگار کا بنیادی ذریعہ ہو، وہ کس طرح اس معاملے سے بے خبر ہو سکتا ہے ؟ اجناس میں پنجاب نہ صرف خود کفیل رہا ہے بلکہ دوسرے صوبوں کی زرعی ضروریات بھی پوری کرتا ہے۔ مگر افسوس کہ آج اسی کسان کے ساتھ ظالمانہ رویہ روا رکھا جا رہا ہے، آج کسان کے لیے سکون اور خوشی محض خواب بن چکی ہے۔ زرعی ملک ہونے کے باوجود اربوں روپے کی اجناس درآمد کی جا رہی ہیں، ملکی پیداوار میں کمی کا سامنا ہے ، جو آنے والے وقتوں میں مزید مشکلات پیدا کرے گا ۔ اس وقت کسان تباہ ہو چکا ہے۔ کسان کی نفرت اب پورے نظام کو ڈبو سکتی ہے ۔
2200ارب روپے کے نقصان کے بعد حکومت کا چند ارب کا کسان ریلیف پیکیج مزید نفرت اور تقسیم کا باعث بن رہا ہے۔ زرعی زمینوں پر ہائوسنگ سوسائٹیوں کی بھرمار ہو چکی ہے اور حکومتیں تماشائی بنی بیٹھی ہیں۔ سینئر مصنف رئوف کلاسرا نے سابق سیکرٹری زراعت ظفر الطاف سے پوچھا کہ وہ کس وزیر اعظم کے ساتھ دوبارہ کام کرنا چاہیں گے، تو ان کا جواب تھا کہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ۔ ان کا کہنا تھا کہ بے نظیر تعلیم یافتہ تھیں، دوسروں کی رائے کو اہمیت دیتی تھیں، عملی زندگی میں تنقید کو ذاتی حملہ نہیں سمجھتی تھیں۔ دیہاتی لوگوں اور غریب عوام کی فکر رکھتی تھی، ان کو پوچھا کرتی تھیں جب کابینہ اجلاس کا اجلاس میں شرکت کرتی تو اُن کی پاس اخباری خبروں کی فائل ہوتی تھی، اور سیکرٹریز سے بالخصوص سیکرٹری زراعت سے سخت بازپرس کرتی تھی کیونکہ ان کا فوکس زراعت تھا۔ بے نظیر شہید کے دور میں زرعی ترقی کی شرح 11فیصد تھی جو اب گھٹ کر 0.56فیصد رہ گئی ہے۔ دعوے بہت ہیں ، لیکن عملی اقدامات کہیں نظر نہیں آتے۔ آئی ایم ایف کے قرضوں سے نجات کے حکومتی دعوے بجٹ میں کھل کر بے نقاب ہو چکے ہیں۔ پچھلی حکومت میں وزیر اعظم شہباز شریف سولر انرجی کے فوائد گنواتے تھے، اور آج اسی پر ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے۔ ریاست کی معاشی مضبوطی اس کی پالیسی میں ہوتی ہے، قوموں کی ترقی حکمتِ عملی میں پنہاں ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں برسوں سے یہی روش چلی آ رہی ہے کہ ایک شعبے کو توجہ دیتے ہیں تو دوسرا برباد ہو جاتا ہے۔ ایک جانب سے ریونیو بڑھاتے ہیں تو دوسری طرف شارٹ فال کا سامنا کرتے ہیں۔ پچھلے بجٹ میں سرکاری ملازمین اور پراپرٹی سیکٹر پر بوجھ ڈالا گیا، اور اب دیگر شعبوں پر بھاری ٹیکس عائد کیے جا رہے ہیں۔ جن کے پاس مراعات کی بھرمار ہے ان کی ہی تنخواہوں میں اضافہ کر دیا گیا ہے، جبکہ غریب کی گردن پر چھری رکھی گئی ہے۔
نئے کاروبار کی طرف عوام کا رجحان ختم ہو چکا ہے، عوام کے اخراجات میں بے تحاشہ اضافہ ہو چکا ہے، آمدن میں بچت نہیں رہی، ایسے صورت حال میں ترقی کیسے ممکن ہے؟ کون سا چراغ روشنی دے گا ؟ 77سال میں ہم یہ نہیں سمجھ پائے کہ قرضوں کے ساتھ معاشرتی بگاڑ میں اضافہ ہوا ہے، نفرت کم ہونے کے بجائے مزید پھیل چکی ہے ، نفرت سے خوش حالی نہیں آ سکتی۔ معاشرتی سماجی و اخلاقی قدریں کمزور ہو چکی ہیں، تقسیم اور تفریق بڑھ چکی ہے۔ دہشت گردی ہزاروں جانیں نگل گی ہیں، دشمن قوتیں اندرونی اور بیرونی قوتیں پچھلے چار سال میں کئی بار ہماری سالمیت کو چیلنج کر چکی ہیں اور ہم ہر بار جواب دینا پڑا ہے۔ قوم اپنے دفاع کے لیے قربانیاں دے رہی ہے، لیکن سیاسی جماعتیں آج بھی ایک دوسرے غدار وطن کہ کر اپنا منجن بیچ رہی ہیں۔ اپنے پروٹوکول اور مراعات میں مگن ہیں۔ قوم کو بجلی گیس اور تعلیم صحت جیسی بنیادی سہولتوں سے محروم رکھا ہوا ہے۔ آج بھی بلوچستان کے کئی علاقوں میں بنیادی سہولتوں موجود نہیں ہیں بجلی، سڑکیں اور مرکزی دوا خانہ نہیں ہیں۔ ایسے میں عوام کیا کرے جواب طلبی پر غدار قرار دئیے جاتے ہیں۔