وفاقی بجٹ کا طائرانہ جائزہ

وفاقی بجٹ کا طائرانہ جائزہ
تحریر: امتیاز عاصی
وفاقی بجٹ26۔ 2025ء کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ حالیہ بجٹ دیکھ کر یہ بات سامنے آئی ہے حسب سابق یہ بجٹ بھی خسارے کا سودا ہے۔ حکومت کے اخراجات اس کے ذرائع آمدن سے کہیں زیادہ ہیں اور اس خسارے کو پورا کرنے کے لئے بنکوں سے قرضہ لینے کی تجویز ہے۔ بینک کا قرضہ روزمرہ کے اخراجات پورا کرنے کے لئے لیا جاتا ہے۔ اس بجٹ کو سمجھنے کے لئے ملک کے مالی نظام کو سمجھنا بے حد ضرور ی ہے۔ حکومت رواں سال کے اعداد و شمار کی بنیاد پر اگلے سال کے اخراجات کا تخمینہ لگاتی ہے پھر ان اخراجات کو پورا کرنے کے لئے ذرائع آمدن کا جائزہ لیا جاتا ہے اور ضرورت کے مطابق ذرائع آمدنی میں اضافے کے لئے ٹیکسوں میں اضافہ تجویز کیا جاتا ہے۔ اگر پھر بھی اخراجات پورے نہ ہوں تو بنکوں سے قرضہ حاصل کرکے اخراجات کو پورا کیا جاتا ہے۔ اگلے سال کے بجٹ کا سرسری جائزہ لینے سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت بہت سے غیر ضروری اخراجات پر قابو پانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ وزیر خزانہ کا دعویٰ ہے وہ جیتنے اخراجات کم کر سکتے تھے اس سے زیادہ اخراجات کم نہیں ہو سکتے۔ وہ ادارے جو ملکی معیشت کے لیے سفید ہاتھی کا درجہ رکھتے ہیں ان کو غیر ضروری طور پر پالنے کے لئے ٹیکس سے وصول کردہ سرمایہ بے دردی سے خرچ کیا جاتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے سرکاری اسٹیل مل اور ایئر لائن تو نقصان اٹھاتی ہیں مگر حکمرانوں کی اپنی اسٹیل مل اور ایئر لائن منافع کماتی ہیں۔ ایک اور اہم بات یہ ہے جس پر غور کرنے کی ضرورت ہے وہ وفاقی پول میں صوبوں کا حصہ ہے ۔ اب جب کہ اٹھارویں ترمیم کے تحت بہت سے محکمے صوبوں کو منتقل ہو چکے ہیں ان پر وفاق میں وزارتیں رکھنا اور ان پر اخراجات کرنا بیوروکریسی اور وزراء کی فوج پالنا تو ضروری ہوسکتا لیکن ملک کے لئے غیر ضروری۔ افواج پاکستان کے لئے بجٹ میں غیر معمولی اضافہ بھی محل نظر ہے۔ بھارت سے حالیہ تصادم میں یہ واضح ہو گیا ہے کہ مستقبل کی جنگ نیٹ ورک اور ٹیکنالوجی کی جنگ ہے جس میں پاکستان کو واضح برتری حاصل رہی ہے لہذا دفاعی بجٹ میں اضافہ ناگزیر تھا۔ حالیہ بجٹ کے ذریعے ایک ظالمانہ ٹیکس نظام کو تحفظ دیا گیا ہے جس پر کھل کر بات ہونی چاہیے۔ حکومت امیر اور طاقت ور طبقات سے ٹیکس وصول کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ اس لئے ٹیکس کا سارا بوجھ بالواسطہ محصولات کے ذریعے عام آدمی پر ڈال دیا گیا ہے۔ پاکستان کے ٹیکس ڈھانچے میں بالواسطہ ٹیکسوں کا بلاواسطہ سے زیادہ ہونا حکومت کی معاشی ناانصافیوں کا بین ثبوت ہے۔ جب حکومت امیر اور طاقت ور طبقات سے ٹیکس وصول کرنے میں ناکام ہوجاتی ہے تو وہ بجلی، گیس کے بلوں اور پٹرول کی قیمت میں غیر ضروری ٹیکس شامل کر دیتی ہے جو عام اور غریب طبقے کے معاشی بربریت کی حیثیت رکھتی ہے۔ عجیب تماشہ ہے بجٹ میں سولر پینلز پر ٹیکس کا نفاذ سمجھ سے بالاتر ہے بھلا سولر پینلز سے حکومت کا کیا لینا دینا ہے سولر پینلز سے حکومت کا فائدہ ہے جس سے بجلی کا بوجھ کم ہونے میں مدد ملے گی لیکن حکومت نے اس پر بھی ٹیکس ٹھوک دیا ہے۔ حکومت کی اتحادی پیپلز پارٹی نے سولر پینلز پر ٹیکس اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کو مسترد کر دیا ہے ۔ سرکاری ملازمین پہلے ہی سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ وفاقی وزیر خزانہ کا دعویٰ ہے 2016ء کے بعد پہلی مرتبہ ہوا ہے ۔ سوال ہے ارکان پارلیمنٹ کوئی غریب لوگ نہیں ہوتے ہیں یوں تو وہ عوام کی خدمت کے داعی ہوتے ہیں لیکن سرکاری خزانے سے ایک ایک پائی وصول کرنے سے انکار نہیں کرتے۔ تعجب ہے چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر کا مشاہرہ بیس لاکھ کر دیا گیا ہے۔ بھلا وہ کوئی غریب لوگ ہوتے ہیں۔ بیس لاکھ تنخواہ کے ساتھ بیس لاکھ کی مراعات کس کھاتے میں ڈالیں گے؟، وفاقی وزیر خزانہ کی یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے مہنگائی دیکھ کر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا گیا ہے۔ وزیر خزانہ پہلے سے باخبر کر رہے ہیں حکومت ٹیکسز کے نفاذ کے لئے قانون سازی کرے ورنہ پانچ سو ارب تک مزید ٹیکس لگانے پڑیں گے۔ حکومتی دعووں کے برعکس آل پاکستان انجمن تاجران نے وفاقی بجٹ کو مسترد کرتے ہوئے جلد آئندہ کے لائحہ عمل کے اعلان کا فیصلہ کیا ہے ان کا کہنا ہے بجلی کے بلوں پر پہلے تیرہ قسم کے ٹیکسز لگے ہوئے تھے کہ کاربن لیوی بھی لگا دی گئی ہے۔ کہا جاتا ہے سبسڈیز ختم کر رہے ہیں اگر ختم کرنا ہے تو اس کا اعلان کیوں نہیں کیا گیا ہے جو اس امر کا غماز ہے دال میں کچھ کالا ہے۔ نئے بجٹ میں آن لائن ٹرانزیکشن کرنے والوں پر بھی ٹیک نافذ کر دیا ہے جو ہمارے نزدیک ضروری تھا۔ اصولی طور پر کاروباری طبقہ جب تک حکومت کو خاطر خواہ ٹیکس ادا نہیں کرے گا حکومت کا مالیاتی نظام چل نہیں سکتا۔ ٹیکس گوشوارے جمع نہ کرانے والوں پر دس لاکھ جرمانہ اور ان کا اکائونٹ بند کرنے کی نوید سنائی گئی ہے جو احسن اقدام ہے۔ یہ کہاں کا اصول ہے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے زبردستی انکم ٹیکس وصول کر لیا جائے اور کاروباری لوگوں کو شتر بے مہار چھوڑ دیا جائے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے جب تک ہمارے ملک کا ٹیکس وصولی کا نظام ٹھیک نہیں ہوتا اس وقت تک ہمارا معاشی نظام درست سمت پر نہیں چل سکتا۔ بجٹ میں کہا گیا ہے ملکی ترسیلات زر میں اضافہ ہوا ہے جو قابل تعریف ہے اوورسیز پاکستانیوں کو وطن واپس پر زیادہ سے زیادہ سہولتیں ملنی چاہیں تاکہ اپنے سرمایہ غیر قانونی ذرائع کی بجائے بنکوں کے ذریعے بھیجیں۔ یہ امر خوش آئند ہے زراعت پر ٹیکس کا نفاذ نہیں کیا گیا ہے جس سے کسانوں کو زیادہ سے زیادہ ریلیف ملنے کے ساتھ اجناس کی قیمتوں میں بھی اضافہ نہ ہونے کی امید کی جا سکتی ہے۔ ہول سیلرز اور رٹیلرز سے ٹیکس وصولی کے سلسلے میں وفاقی وزیر خزانہ نے کچھ اس طرح بے بسی کا اظہار کیا ہے کہ ان سے پولیس اور فوج کے ذریعے ٹیکس وصول کا آپشن رہ گیا ہے۔ بہرکیف مجموعی طور پر دیکھا جائے تو حالیہ بجٹ کو ظالمانہ اس لئے قرار دیا جا سکتا ہے، جس میں نہ تو سرکاری ملازمین نہ ہی عام آدمی کو کسی قسم کا ریلیف ملنے کی توقع کی جا سکتی ہے۔