Column

قربانی کے گوشت کی ایک بوٹی

قربانی کے گوشت کی ایک بوٹی
تحریر :سیدہ عنبرین

پاکستان بھر میں عید ہمیشہ کی طرح اس امسال بھی مذہبی عقیدت و احترام کے ساتھ منائی گئی، مذہبی عقیدت کے ساتھ ساتھ اب معاشرتی رنگ قدرے غالب نظر آنے لگا ہے۔ عید کی تیاری اور بالخصوص عیدالاضحٰی کی تیاریاں روز عید سے کم از کم پندرہ روز پہلے شروع ہو جاتی ہیں، سب سے پہلے خاندان کے سربراہ کی قربانی کا مرحلہ آتا ہے، اہل خانہ کے کپڑے، جوتے، خواتین کے بال اور ہاتھ رنگنے کا سامان، متوقع مہانوں کی آمد پر ان کی خاطر صدارت کیلئے خریداری تمام کس بل نکال دیتی ہے، عیدالفطر پر پہنے گئے کپڑے دوسری مرتبہ پہننے کا رواج عرصہ دراز قبل ختم ہوا، جب سے رشوت کے پیسے کی ریل پیل شروع ہوئی ہے ہر ویک اینڈ پر عید کے انداز میں شاپنگ ہوتی ہے، کسی کا اس شغل سے جی نہیں بھرتا، سوشل میڈیا پر ایک کلپ ہماری سوچوں کا آئینہ دار ہے، بیگم بجھی بجھی سے بیٹھی ہے، شوہر پوچھتا ہے کیا ہوا، طبیعت خراب ہے کیا؟، بیگم جواب دیتی ہے ہاں بہت زیادہ، شوہر ہمدردی سے کہتا ہے ڈاکٹر کو دکھایا تو اس نے کیا کہا، بیگم منہ بسورتے ہوئے جواب دیتی ہے خون میں شاپنگ کی کمی بتائی ہے۔ غریب آدمی، بے روز گار شخص، شادی شدہ مرد اگر عید پر اپنے بچوں کو نئے کپڑے، جوتے خرید کر نہیں دے سکتا تو وہ ایک منفرد انداز میں قربانی دیتا ہے، وہ اپنے بیوی بچوں کو قتل کر کے خودکشی کر لیتا ہے اور قربانی کی عظیم مثال پیچھے چھوڑ جاتا ہے، اس برس بھی اس قسم کی قربانیاں دیکھنے، سننیں میں آئیں، واقعات کے سلسلے کا آغاز رحیم یار خان سے ہوا، جہاں عید کے لئے نئے کپڑوں کی فرمائش کرنے والوں کے باپ نے اپنے دو گونگے بچوں کو زہر دے کر اپنی زندگی بھی ختم کر لی، قربانی دینے والا بھٹہ مزدور تھا اور عرصہ سے بے روزگار تھا، اینٹوں کے بھٹے نئی ٹیکنالوجی پر منتقل کرنے سے ہزاروں بھٹہ مزدور بے روزگار ہو چکے ہیں۔ اوچ شریف اور مریدکے میں دو نوجوانوں نے زہریلی گولیاں کھا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا، انہوں نے ہر خوشی کے موقع پر اور عیدین پر شاپنگ کا ٹنٹا ہی ختم کر دیا، محلہ اوچ بخاری میں ایک نوجوان ثاقب نے صبح شام کی توتکار سے تنگ آکر اور پرانا نارنگ روڈ مریدکے میں بوٹا نامی شخص نے بھی زہریلی گلیوں کی گود میں ہمیشہ کیلئے پناہ لے لی، اسے ہسپتال لے جایا گیا جہاں علاج کی رفتار نہایت سست اور زہر کی رفتار بہت تیز تھی، پس زہر جیت گیا، مہنگائی اور عید کی خوشیوں کو شکست ہو گئی۔ جس طرح سہ روزہ جنگ میں ہم جیت گئے اور بھارت کو عبرتناک شکست ہوئی، ہمارے درجنوں معصوم شہری موت کے گھاٹ اتر گئے، کتنے بھارتی جہنم واصل ہوئے ابھی تک کسی نے نہیں بتایا۔ قربانیوں کا سلسلہ تین دن جاری رہا، خواتین نے اس حوالے سے مردوں کے شانہ بشانہ اپنا کردار ادا کیا، ہنجر وال کے علاقے جمال کالونی میں ایک خاتون آمنہ کی لاش پنکھے سے لٹکی ہوئی ملی، ٹائون شپ کے ایک گھر سے سومیا کی لاش پنکھے سے لٹکی ملی، مسلم ٹائون لاہور کی نہر سے ایک خاتون کی تیرتی ہوئی لاش ملی، خاتون کا نام معلوم نہیں ہو سکا، یہ بھی معلوم نہ کیا جاسکا کہ خاتون نے اپنی زندگی میں ’’ انگریزی کا سفر‘‘ کتنا کیا اور مرنے کے بعد اس کی لاش نے پانی میں کتنا سفر کیا۔
انفرادی قربانیوں کے ایسے واقعات پنجاب میں کثرت سے ملتے ہیں، پنجاب پاکستان کی سب سے زیادہ آبادی رکھنے والا صوبہ ہے، یہ مسائل میں بھی سب سے آگے ہے، بے روزگاری اور زندگی کی بنیادی سہولتوں کی عدم دستیابی میں اب پنجاب کا احساس محرومی پاکستان کے دیگر تمام صوبوں کے احساس محرومی کو بہت پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ گویا یہاں ہمارا احساس محرومی جیت گیا ہے، دوسرے نمبر پر سندھ ہے، جہاں پنجاب سے ملتے جلتے حالات ہیں، گنتی کے چند بڑے شہر چمک دمک رہے ہیں، باقی صوبے میں گھپ اندھیرا ہے، جہاں پون صدی بعد جانور اور انسان ایک جوہڑ سے پانی پیتے نظر آئیں اسے آپ کتنا ترقی یافتہ اور خوشحال کہہ سکتے ہیں اور کس منہ سے کہیں گے، اگر پھر بھی آپ اسے ترقی کہیں گے تو نینوں و الے جواباً ’’ فٹے منہ‘‘ کہنے کا حق رکھتے ہیں۔
روز عید سے ایک شب قبل جانوروں کی خریداری کیلئے فرزندان اسلام ٹوٹے پڑتے ہیں، ایک بڑی تعداد میں لوگ ٹوٹے دانتوں اور ٹوٹے سینگوں والے جانور خرید کر خوشی خوشی گھر لوٹتے ہیں تو قربانی کے جانور کو نہلاتے دھلاتے اس کے ساتھ اٹھکیلیاں کرتی، ایلفی سے جوڑا گیا اس کے سینگ کا ٹکڑا زمین پر گر جاتا ہے تو علم ہوتا ہے انسانوں کو دھوکہ دینے والے خدا کو دھوکہ دینے سے بھی نہیں چوکتے، پہلے صرف ٹوٹے سینگوں والے بکرے، چھترے بکتے تھے، اس برس تو نقلی بتیسی والے بکرے بھی مکروفریب کے اندھیرے میں فروخت کر دئیے گئے۔
نماز عید بلا مبالغہ روح پرور اجتماع ہوتا ہے، جن مساجد میں جوتوں کی حفاظت پر کوئی سکیورٹی گارڈ مامور نہ تھا وہاں نمازی نماز پڑھ کر لوٹے تو متعدد افراد کے جوتے قربان ہو چکے تھے۔ ایک مسجد کی انتظامی کمیٹی کارکن بعد از نماز مسجد کو تالا لگا رہا تھا، وجہ پوچھی تو جواب ملا مجبوری ہے تالہ نہ ڈالیں تو اگلی نماز کے وقت تک مسجد کی ٹوٹیاں ، لوٹے، پنکھے حتیٰ کہ دریاں تک نہ ملیں۔
زیادہ مسلمان اسلامی اصولوں کے مطابق قربانی کرتے ہیں اور گوشت تقسیم کرتے ہیں، مگر اب بھی کچھ ایسے ہیں جو بکرے کی ایک ران ساس کو، دوسری باس کو، ایک دستی سالے کو اور دوسری دستی اسے بھیجنا نہیں بھولتے جس کا نام اور رشتہ تحریر نہیں کیا جاسکتا، ہڈیاں، پسلیاں، چربی، کلیجی، پھیپھڑے ضرورت مندوں کو فراح دلانہ انداز میں آدھ پائو کے پیکٹ بنا کر تقسیم کئے جاتے ہیں۔
روز عید قربانی کے جانوروں کو اونچی عمارتوں کی چھتوں سے اتارنا، ان کے ساتھ کشتی کرنا، جانور کو زمین پر لٹانے کی کوششوں میں اس کی فلائنگ کک سے پسلیاں تڑوانا اور اونٹ کا حلق پر چھری چلنے کے بعد کبھی کبھار اٹھ کر بھاگ پڑنا، عیدالاضحیٰ کے تہوار کا حصہ ہے۔ اس عید پر بھی یہ سب کچھ دیکھنے میں آیا، لیکن لاکھوں افراد کی دی گئی قربانی کا گوشت جو دنیا بھر کے غریب ملکوں کو بھجوایا جاتا ہے، فلسطین اور غزہ تک اس کی ایک بوٹی نہ پہنچ سکی۔ ہمارے عقیدے کے مطابق سب مسلمان جنت میں جائینگے بعض تو بکرے پر سوار ہو کر۔

جواب دیں

Back to top button