بھارت کے مقابلے میں پاکستان کی علاقائی حکمت عملی

بھارت کے مقابلے میں پاکستان کی علاقائی حکمت عملی
تحریر : علامہ سید جواد نقوی
دنیا کے نقشے پر کچھ سر زمینیں صرف خطے نہیں ہوتیں، تہذیبوں کے سنگم، سازشوں نے نشانے اور طاقتوں کی رسہ کشی کا محور ہوا کرتی ہیں۔ پاکستان انہی میں سے ایک ہے۔ چار بڑے پڑوسیوں میں گھرا ہوا یہ ملک محض ایک جغرافیائی وحدت نہیں بلکہ سوق الجیشی کا حامل قلعہ ہے۔ چین کی دوستی، ایران کی توانائی، افغانستان کی سرحدیں اور بھارت کی دشمنی ان چار دیواروں کے بیچ پاکستان کی بقا، ترقی اور خود مختاری کا راز پوشیدہ ہے، ایسے میں جب چین ثالثی کا کردار ادا کر رہا ہے، افغانستان و پاکستان کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ ایک نشست بھی ہو چکی ہے، اور ہمارے وزیر خارجہ، جو نائب وزیراعظم بھی ہیں، انہوں نے بھی اس پر مثبت رائے کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان کے چار پڑوسی ممالک ہیں: چین، ہندوستان افغانستان اور ایران۔ چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات دوستانہ اور خوشگوار ہیں، اور چین کو پاکستان کی اشد ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کے سیاستدان اور حکمران اس نزاکت کو صحیح طور پر نہیں سمجھتے۔ اگر انہیں اندازہ ہو جائے کہ پاکستان چین کے لیے کس قدر اہمیت رکھتا ہے، تو یہ چین سی کہیں زیادہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم دوسری جانب امریکہ اور برطانیہ کے بھی غلام ہیں، اور ساتھ ہی سعودی عرب کے بھی ماتحت۔ یہی وجہ ہے کہ چین کے ساتھ جس درجے کے تعلقات ہونے چاہئیں، وہ نہیں ہو پائے۔ اگرچہ موجودہ تعلقات خوش آئند اور بہتر ہیں، لیکن پاکستان کی اسٹریٹجک پوزیشن کو دیکھتے ہوئے، اس سے کہیں مضبوط تعلقات ممکن تھے۔
چین کے ایک بڑے لیڈر نے کہا تھا کہ ’’ پاکستان کی ہمارے لیے وہی حیثیت ہے جو امریکہ کے لیے اسرائیل کی‘‘، یعنی جیسے امریکہ اسرائیل کو کبھی تنہا نہیں چھوڑے گا، ویسے ہی چین پاکستان کو کبھی تنہا نہیں چھوڑے گا۔ تاہم، پچھلی حکومت نے چین کے ساتھ تعلقات کو شدید دھچکا پہنچایا، حتیٰ کہ ایک موقع پر باقاعدہ ناراضیاں اور دوریاں پیدا ہو چکی تھیں۔ بعد ازاں ان تعلقات کو بحال کیا گیا، اور اب صورتحال قدرے بہتر ہے۔
ایک پڑوسی سے دوستی کر کے تین پڑوسیوں سے دشمنی کرنا کوئی دانشمندی نہیں۔ افغانستان نے پاکستان کو ہندوستان سے بھی زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ ہر پہلو سے پاکستان کو زک پہنچائی ہے۔ موجودہ دہشت گردی کی سرپرستی کرتے ہوئے انہوں نے پاکستان کے وجود کو ہی خطرے میں ڈال دیا ہے۔ یہ وہ افغان نہیں جو پاکستان کے مخالف تھے، بلکہ یہ وہ طالبان ہیں جو پاکستان کے پروردہ ہیں۔ ان کا ایک ایک سیل پاکستان میں تیار ہوا، لیکن ہمیشہ کی طرح وقت آنے پر وہ پاکستان کے دشمن بن گئے۔
پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ دو محاذ نہ کھولے۔ طالبان سے شکوہ و شکایت بجا ہیں، لیکن جس طرح ہندوستان کو بھرپور جواب دیا گیا، اسی طرح کا جواب افغانستان کو بھی دینا چاہیے تھا۔ بعض ذمہ داران کی جانب سے کئی بار اس بات کا اظہار کیا گیا کہ ہم دہشتگردوں کے ٹھکانوں پر افغانستان کے اندر حملے کریں گے، اور علامتی طور پر ایک دو حملے کیے بھی گئے، لیکن پھربعض افراد محض کوششیں کرتے رہے ، عملاً کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔ وہ کسی سمجھوتے کی سعی میں مصروف رہتے ہیں، مگر افغانوں کی طرف سے کوئی مثبت ردعمل موصول نہیں ہوتا۔ پہلی مرتبہ یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کسی حد تک بہتر ہو سکتے ہیں، اور افغانستان کی جانب سے جو مشکلات ہیں، انہیں کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ یہ سب چین کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔
چین نے عندیہ دیا ہے کہ سی پیک کا دوسرا مرحلہ، جس میں پاکستان کے ساتھ افغانستان کو بھی شامل کیا جائے گا، زیرِ غور ہے۔ یہ ایک سوچ، ایک آئیڈیا اور منصوبہ بندی کا حصہ ہے، جس پر کام ہو رہا ہے۔ پاکستان نے اس منصوبے کو قبول کیا ہے، اور چین، افغانستان کو اقتصادی ترغیبات دے کر اسے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش کر رہا ہے۔
بہرکیف، یہ ایک بہترین حکمتِ عملی ہے کہ افغانستان کو کسی نہ کسی طرح اعتماد میں لیا جاءے، اس کے ساتھ مفاہمت یا معاہدہ کیا جائے تاکہ دہشتگردی کا سدباب ممکن ہو سکے۔ یہی طریقہ ایران کے ساتھ بھی اپنانا چاہیے، کیونکہ پاکستان اور ایران کے تعلقات کی نوعیت بھی اہم ہے۔
بھارت کی نظریں دونوں پڑوسیوں، یعنی ایران اور افغانستان ( طالبان) پر ہیں۔ بھارت طالبان میں کافی حد تک رسوخ حاصل کر چکا ہے۔ طالبان بھارت کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ جنگ کے زمانے میں، جب سات مئی کو جنگ شروع ہوئی اور دس مئی تک جاری رہی، انہی دنوں افغانستان کی سلامتی کونسل کے سربراہ نے خفیہ طور پر بھارت کا دورہ کیا اور وہاں کے دفاعی مشیروں سے ملاقات کی۔ یہ بات پاکستانی ذرائع ابلاغ اور اخبارات میں بھی رپورٹ ہو چکی ہے۔
یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ افغانستان نے اس جنگ میں بھارت کا ساتھ دیا ۔ وہ کھل کر بھارت کے ساتھ کھڑے ہوئے، اور ان کے حق میں بیانات بھی دئیے۔ دو ممالک واضح طور پر بھارت کے ساتھ کھڑے ہوءے: ایک اسرائیل اور دوسرا طالبان۔ انہوں نے کسی قسم کا لحاظ نہیں رکھا۔
دوسری طرف ایران ہے۔ ظاہر ہے کہ بھارت کے ایران کے ساتھ تعلقات، پاکستان کی نسبت بہتر ہیں۔ ایران اور بھارت کے درمیان تجارت بھی ہے، معاہدے بھی ہیں، سیاسی و اقتصادی روابط بھی بہتر ہیں، اور دیگر معاملات میں بھی وہ ایک دوسرے کے ساتھ ہیں۔ باوجود اس کے کہ نظریاتی لحاظ سے بھارت، ایران کے مقابل ہے، کیونکہ بھارت اسرائیل کا اتحادی ہے، لیکن علاقائی مفادات کے تحت ایران، اپنی مشکلات کے پیش نظر، بھارت کو رعایت دیتا ہے۔
بھارت ایران کے ساتھ معاہدے بھی کرتا ہے اور امریکہ سے اقتصادی پابندیوں میں چھوٹ بھی حاصل کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، بھارت اس وقت ایران سے تیل خرید رہا ہے اور امریکہ نے اسے اس پر روکا نہیں، کیونکہ بھارت نے یہ چھوٹ پہلے سے لے رکھی ہے۔ اسی طرح چاہ بہار بندرگاہ اور دیگر معاملات میں بھی بھارت کو ایران کی جانب سے خصوصی رعایتیں حاصل ہیں۔
بھارت کی کئی دلچسپیاں ہیں، لیکن اس کی سب سے بڑی دلچسپی یہ ہے کہ اگر ایران کے ساتھ تعلقات درست کیے جائیں، تو ایران اکیلا نہیں رہے گا بلکہ افغانستان بھی بھارت کا دوست بن جائے گا، اور اس طرح پاکستان کا مکمل محاصرہ ممکن ہو جائے گا۔ صرف چین باقی رہ جائے گا، جبکہ چین کے ساتھ پاکستان کی کوئی بڑی، کھلی اور آزاد میدانی سرحد نہیں ہے۔ ایک پہاڑی درہ ہے، جہاں سے گزر کر پاکستان اور چین کے درمیان راستہ قائم ہوتا ہے۔ باقی ایسی کوئی سرحد موجود نہیں، جیسی سرحدیں پاکستان ایران، افغانستان یا بھارت کے ساتھ رکھتا ہے، یعنی میدانی، دریائی اور زمینی رابطے۔
لہٰذا بھارت کی پوری کوشش ہے کہ ایران کو اعتماد میں لے اور ایران کے ذریعے افغانستان کو سپورٹ کرے، جیسا کہ اس نے کیا بھی ہے۔ بھارت نے پاکستان سے افغان تجارت ختم کروا دی ہے تاکہ پاکستان افغان ٹرانزٹ روٹ نہ بن سکے، اور اس کے بجائے ایران کو یہ کردار ملے۔ بھارت نے چاہ بہار بندرگاہ بھی اسی مقصد کے لیے حاصل کی ہے۔ درحقیقت، بھارت کو چاہ بہار کی ضرورت اپنے لیے نہیں بلکہ افغانستان کے لیے ہے، کیونکہ یہی واحد بندرگاہ ہے جو افغانستان کے قریب واقع ہے، اور اس بندرگاہ کے ذریعے وہ افغانستان کو متبادل راستہ دے کر پاکستان کا محاصرہ مکمل کرنا چاہتا ہے۔
جس طرح ہمارے سفارتکار چین کی مدد سے یہ کوشش کر رہے ہیں کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات بہتر ہوں، اور چین نے اس حوالے سے پیشکش کی ہے جسے پاکستان نے سراہا ہے، اسی طرح چین ہی کی مدد سے یا خود براہِ راست، پاکستان کو ایران کے ساتھ اپنے معاملات سلجھانے چاہئیں۔
میرے خیال میں، جتنا فائدہ ایران پاکستان کو دے سکتا ہے، اتنا شاید چین بھی نہیں دے سکتا۔ کیونکہ خود چین انرجی کے میدان میں ایران کا محتاج ہے۔ ایران کے پاس توانائی کے ذرائع موجود ہیں: تیل ، گیس اور بجلی ہے۔ ہر چند کہ آج کل وہ خود بجلی کے بحران سے دوچار ہے، لیکن یہ قلت انرجی کی نہیں بلکہ پابندیوں کی وجہ سے ہے۔ ان کے بجلی پیدا کرنے والے پلانٹ پابندیوں کی بنا پر فعال نہیں، اس لیے یہ ایک وقتی بحران ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایران کے پاس بجلی موجود ہے۔
جبکہ پاکستان میں بجلی ، پٹرولیم ،کیمیکلز اور گیس کی کمی ہے۔ یعنی بنیادی انرجی کے حوالے سے پاکستان کو شدید ضرورت ہے۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ہم افسانوی راستے تلاش کرتے ہیں، جیسے افغانستان سے سرنگیں لگائیں گے، یا کبھی قازقستان سے گیس لائیں گے، کبھی آذربائیجان سے، کبھی کسی اور سے۔ لیکن یہ سب دور دراز کے خواب ہیں۔
جب پڑوس میں ایران موجود ہے، جہاں ہمارے ساتھ معاہدے بھی ہیں، اور ہم خود ان معاہدوں کے پابند بھی ہیں، تو وہاں سے انرجی کیوں نہ لی جائے؟ صرف اپنے سیاسی معاملات درست کر لیں۔ ایران کا بھی مفاد اسی میں ہے۔
ایران اور پاکستان کی مشکلات ایک جیسی ہیں دونوں دہشت گردی کی زد میں ہیں، دونوں کو ایک جیسے مسائل درپیش ہیں، دونوں پابندیوں کے زیر اثر ہیں، تو ایک مشترکہ اتحاد وجود میں آ سکتا ہے۔ ایران اور پاکستان دونوں کے چین کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ جب یہ طے ہے کہ بھارت پاکستان کا دشمن ہے، تو مودی کی موجودگی میں ہندوستان کے ساتھ نہ دوستی ممکن ہے، نہ معمولی تعلقات۔ مودی پاکستان کے لیے نیتن یاہو بنتا جا رہا ہے، اور اس نے وہی عزائم اپنا لیے ہیں جو اسرائیل نے اپنے دشمنوں کے خلاف اپنائے۔
لہٰذا پاکستان کو مستقبل میں ہر پہلو سے تیار رہنا ہوگا کہ اگر مودی اقتدار میں ہے تو پاکستان میں امن نہیں آ سکتا۔ پاکستان کے لیے امن صرف اس وقت ممکن ہے جب افغانستان، ایران اور چین کی طرف سے بھی امن ہو، تاکہ صرف ایک سرحد پر دشمن کا سامنا کرنا پڑے۔ ہمیں امید ہے کہ ہمارے سیاسی اور عسکری قائدین ان شاء اللہ سنجیدگی سے اس مسئلے کو حل کریں گے۔
علامہ سید جواد نقوی