بڑھتی غربت میں ترقی کے دعوے

بڑھتی غربت میں ترقی کے دعوے
تحریر : شاہد ندیم احمد
حکومت دعویدار ہے کہ مہنگائی، غربت میں کمی ہورہی ہے، جبکہ مہنگائی، غربت کم ہو نے کے بجائے بڑھتی جارہی ہے، ملک میں ایک طبقہ روز بہ روز امیر ہورہا ہے اور غریب طبقات جینے کے حق سے بھی محروم ہوتے جا رہے ہیں، اس کی بنیادی وجہ پالیسی ساز معاشی اداروں نے ایسی حکمت عملی ہی اختیار نہیں کی ہے کہ جس کی ضرورت تھی، پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے اور زیادہ تر آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے ، جو کہ مسائل سے دوچار ہے، جبکہ شہروں میں بھی بد امنی لاقانونیت بڑھ رہی ہے اور عدم تحفظ کا احساس بڑھ رہا ہے، عوام پریشان ہیں اور آئے روز خودکشی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے، اس کی تصدیق ورلڈ بینک اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی تازہ رپورٹس بھی کر رہی ہیں، لیکن حکو تی حلقے بضد ہیں کہ سب اچھا ہے اور سب اچھا ہو نے جارہا ہے ۔
اس ملک میں سب کچھ کیسی اچھا ہو نے جارہا ہے، جبکہ ایوانوں میں بیٹھے لوگ اپنی آمدن میں اضافہ کر رہے ہیں ، اپنی تنخواہیں بڑھائے جارہے ہیں اور غریب کیلئے مقررہ شرح سے بھی کم دیا جارہا ہے، ورلڈ بینک کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں غربت کی شرح آبادی 39.8سے بڑھ کر 44.7فیصد تک پہنچ گئی ہے جبکہ انتہائی غربت میں زندگی گزارنے والے افراد کی شرح4.9فیصد سے بڑھ کر 16.5فیصد تک پہنچ چکی ہے، عالمی بینک کی نئی تازہ جائزہ رپورٹ میں یومیہ آمدن کی درجہ بندی کا نیا طریقہ وضع کیا گیا ہے اور یومیہ کم از کم آمدن 4.20ڈالر مقرر کی گئی ہے، جو کہ پہلے 3.65ڈالر یومیہ تھی۔
یہ تشویشناک امر ہے کہ پاکستان کی ساڑھے سولہ فیصد آبادی انتہائی غربت کا شکار ہے اور یومیہ تین ڈالر سے بھی کم کماتی ہے، اگرچہ ادارہ شماریات کی رپورٹس میں اعدادوشمار کے مطابق مہنگائی کی شرح گزشتہ چھ دہائیوں کی کم ترین سطح پر آ چکی ہے، مگر یہ مسلسل بڑھتی غربت ظاہر کرتی ہے کہ لوگوں کی اکثریت بنیادی ضروریات ِ زندگی سے ہی محروم ہے اور بیشتر آبادی کی قوتِ خرید نچلی ترین سطح پر پہنچ چکی ہے، اس کی ایک بڑی وجہ رہی ہے کہ گزشتہ چند برسوں سے تمام ’ مشکل معاشی فیصلوں‘ کا بوجھ بالواسطہ ٹیکسوں کی صورت میں عوام پر ڈالا جا تا رہا ہے، اس کے نتیجے میں عام لوگ اب روز مرہ اخراجات اور دو وقت کی روٹی پوری کرنے سے نہ صرف قاصر نظر آرہے ہیں، بلکہ اب مزید کوئی بوجھ برداشت کر نے کیلئے بھی تیار نہیں ہیں۔
حکومت عوام کو ریلیف دینے کے بجائے مزید بوجھ بڑھائے جارہی ہے، اس کے باعث روز مرہ اشیاء ضروریہ بھی عام آدمی کی دسترس سے باہر ہوتی جارہی ہیں، گزشتہ دنوں ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ خوراک کی اشیا پر 18 فیصد کی بلند ترین شرح سے جنرل سیلز ٹیکس پاکستان میں غربت میں اضافے کا سب سے بڑا محرک ہے ۔رپورٹ کے مطابق جی ایس ٹی اب گھرانوں کے اخراجات میں سات فیصد سے بڑھ چکا ہے، جو کہ غریب اور کم آمدنی والے گھرانوں میں مزید غربت کا باعث بنتا جارہاہے، اس بڑھتی غربت میں کمی کی خاطر فوری اور ہمہ جہت عملی اقدامات کی فوری ضرورت ہے، لیکن حکومت کی جانب سے اعلانات کے باوجود کوئی عملی اقدامات ہوتے دکھائی نہیں دئیے رہے ہیں۔
اس حکومت کو چاہئے کہ سب سے پہلے تمام گھرانوں کی آمدنی کا سروے کرائے، تا کہ درست اعدادوشمار دستیاب ہو سکیں، حکومت ابھی تک 2018ء کے ہی سروے پر انحصار کرتی چلی آ رہی ہے، حالانکہ اس کے بعد آمدنی اور اخراجات کی مساوات میں بہت بڑی تبدیلیاں واقع ہو چکی ہیں، اس وجہ سے ہی ماہرین معیشت ورلڈ بینک کے نظر ثانی شدہ تخمینے کو بھی عبوری قرار دیتے ہیں، ماہرین معیشت کا ماننا ہے کہ 2022ء کے سیلاب نے ملک کے ایک چوتھائی حصے اور تین صوبوں میں آبادی کو بری طرح متاثر کیا تھا، کے بعد غربت میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے ، اس کے بعد حکومتی پالیسیوں نے بھی غربت میں اضافے میں بڑا کردار ادا کیا ہے، تاہم اس دوران تخفیف غربت کے سلسلے میں سوائے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی امداد کے کچھ بھی نظر نہیں آتا ہے۔
ہمارے ہاں حالیہ چند برس کے دوران آمدنی کم ہونے کی وجہ سے قوتِ خرید بھی کم ہوئی ہے، جبکہ تخفیف غربت میں کمی کے لیے نقد امداد کے علاوہ حکومت کو ایسے ٹھوس اقدامات کی جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے، جوکہ کسی گھرانے کے لیے حقیقی معنوں میں معاشی استحکام کا باعث بن سکیں اور غربت سے نکالنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں، پاکستان ایک ایسے موڑ پر کھڑا ہے کہ جہاں اسے فیصلہ کرنا ہے کہ اسے اشرافیہ کی گرفت اور مخصوص حلقوں کے مفادات کے تحت کئے گئے پالیسی فیصلوں پر کاربند رہتے ہوئے خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والی 40فیصد آبادی کے ساتھ پسماندہ رہنا ہے یا ان فیصلوں پر نظرثانی کرکے تابناک مستقبل کی راہ ہموار کر نا ہے ۔