Column

آلائشیں

آلائشیں
تحریر: صفدر علی حیدری
عید قرباں بھی خیر سے گزر گئی۔ ملک میں لاکھوں لوگوں نے اجتماعی یا انفرادی قربانی کر کے جناب ابراہیمٌ بت شکن کی یاد تازہ کی۔
قربانی کرنا بہت ضروری ہے۔ انسان کی زندگی قربانی سے عبارت ہے۔ انسان یہاں اپنے جیسے انسانوں کے لیے کبھی وقت کی، کبھی دولت کی، کبھی جائیداد کی اور کبھی اپنے جذبات کی قربانی دیتا چلا آیا ہے۔
اگر جیب اجازت دیتی ہو تو قربانی ضرور کرنی چاہیے۔ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ قربانی بہت بڑا صدقہ ہے۔ انسان اس صدقے سے بڑی بڑی بلائوں سے بچ جاتا ہے ۔ مجھے کئی بار قربانی نہ کرنے پر بہت دکھ اٹھانا پڑا۔ جیب میں پیسے تھے مگر کسی اور کے لیے رکھ چھوڑے۔ پھر وہی رقم اس کام پر صرف نہ ہو سکی۔ یا تو بیماری پر لگی یا کسی پریشانی کی نذر ہوئے۔
اکثر قربانی کے موقع پر ایک سوال بڑے شدت سے اٹھایا جاتا ہے کہ کیوں نہ بجائے قربانی کے کسی غریب کی امداد کر دی جائے۔ راشن لے کر دے دیا جائے۔ یقیناً یہ ایک اچھا اور مستحسن عمل ہے لیکن قربانی کی قیمت پر نہیں۔ سارا سال انسان نے پاس وقت ہی وقت ہوتا ہے۔ وہ جس کی چاہے مدد کر سکتا ہے۔ جسے چاہے راشن دلا سکتا ہے لیکن اس سے اس کی ذمہ داری پوری نہیں ہو جاتی۔ اگر وہ صاحب حیثیت ہے تو اسے قربانی ضرور کرنا ہو گی، وہ راشن کے نام پر قربانی سے بچ نہیں سکتا۔ مسلمان کا کام احکامات کی پابندی کرنا ہے۔ اپنی پسند کی نئی نئی باتیں گھڑنا نہیں۔ من گھڑت باتوں کا نام دین نہیں ہے۔ پیروی اور اتباع پیچھے چلنے کو کہتے ہیں۔ اس سمت میں جہاں ہادی جائے اور لے جائے۔
امام حریت کا فرمان حسب حال ہے’’ دین لوگوں کی زبان کا چسکا بن چکا ہے جس میں سے وہ اپنی پسندیدہ چیزیں لے لیتے ہیں ‘‘۔
شیطان جو ہمارا کھلا دشمن ہے، کبھی بھی وار کرنے سے نہیں چوکتا۔ اس کا ہر وار اوچھا ہوتا ہے۔ ہم لوگ اچھے کاموں سے بچنے کے لیے اس کے وسوسوں میں ہر وقت گھرے رہتے ہیں۔ وہ کھلا دشمن کھل کے دشمنی کرتا ہے اور ہم بھی اکثر کھلی بانہوں سے اس کو جی آیاں نوں کہتے پائے جاتے ہیں، وہ اپنی شکست آج تک نہیں بھولا جبھی تو وہ انسان دشمنی سے کبھی باز نہیں آتا۔ اب یہ ہمارا کام ہے کہ ہم احتیاط سے کام لیں۔ اپنے جذبات کی بجائے دینی تعلیمات کا خیال رکھیں۔ قدم قدم پر پھسلن ہے، ہر قدم پھونک پھونک کر رکھیں کہ کہیں اپنے مقام سے گر نہ جائیں۔ سردار جی کی طرح چھلکے پر پھسل نہ جائیں ۔
ہمارے اندر آلائشیں جمع ہوتی رہتی ہیں۔ کھانے پینے کی آلائشیں تو ماہ رمضان میں صاف ہو جاتی ہیں لیکن جو خیالات کے آلائشیں ہیں وہ ہر وقت موجود رہتی ہے بلکہ ان میں لمحہ لمحہ اضافہ ہوتا جاتا ہے۔
ممتاز دانش ور وحید اظہر نے کیا خوب فرمایا ہے’’ اندر کشادگی نہ ہو تو باہر کشیدگی پھیل جاتی ہے، یہ تنگ نظری کسی کے کام نہیں آتی، سب کا نقصان کرتی ہے ‘‘۔
اب سوال یہ ہے کہ اندر کی آلائشیں کیسے نکالی جائیں، ان کی صفائی کیسے ہو تو عرض ہے کہ شیطان کا ہتھیار بھی تو منفی خیالات ہی ہوتے ہیں۔ وہ مسلسل منفی سوچ ہمارے ذہن میں انڈیلتا رہتا ہے۔ یہ سوچ کر کہ کوئی نہ کوئی وار تو کام کر جائے گا۔ اور کر بھی جاتا ہے۔
ہم بولتے وقت سوچ لیا کرتے ہیں، قدم اٹھاتے ہوئے بھی آگے دیکھ لیتے ہیں مگر ایک چیز ایسی ہے جس پر عملا ہمارا کوئی اختیار نہیں۔ ہم سوچتے ہیں اور بے اختیار سوچتے ہیں اور عمومآ منفی سوچتے ہیں بلکہ سوچتے چلے جاتے ہیں۔ ہمیں یہ اطمینان جو ہوتا ہے کہ کوئی ہمیں دیکھ سکتا ہے نہ سن۔ کوئی ہم پر نگران مقرر نہیں جو ہم ڈریں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہم جانے کتنوں کو خیالوں ہی خیالوں میں ٹھکانے لگا چکے، کتنوں کا منہ توڑ چکے، کتنوں کو بھری محفل میں بے عزت کر کے اپنی دشمنی کا بدلہ لے چکے۔ ہمیں اس وقت یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ خدا تو ہے۔ وہ تو سب دیکھتا، سب سنتا ہے۔ اسے تو سب خبر ہے، سب کی خبر ہے۔ ہمیں یاد آتا بھی ہے تو یہ سوچ کر دل کو مطمئن کر لیتے ہیں کہ وہ کون سا ہمارا راز فاش کرے گا۔ سو دل میں پلنے والے جذبات اور ذہن میں مچلتے خیالات ہمیں اپنا اسیر کر لیتے ہیں۔ یہ منفی جذبات و خیالات ہمارے باطن کو فلتھ ڈپو بنا دیتے ہیں۔ اکثر ہم اسی کے تعفن کو خود ہی جھیلتے چلے جاتے ہیں ۔ یہ تعفن کا ڈھیر یہ ’’ روڑھی ‘‘ ہماری اصل شخصیت کو دبا دیتی ہے۔ اس کا دم گھٹ رہا ہوتا ہے مگر فرار کی کوئی راہ موجود نہیں ہوتی
ایک بار میں نے ایک بزرگ سے پوچھا ’’ ہم خود کچھ بھی نہیں ہیں بس خیالات کا انبار ہیں۔ ہم کیا ایسا کریں کہ ہمارے اندر کوئی منفی بات پیدا ہی نہ ہو تاکہ ہم کوئی منفی کام کر ہی نہ پائیں ‘‘، تو ان کا جواب تھا ’’ اہل اللہ کی صحبت اختیار کر لو۔ صحبت صالح ترا صالح کند ‘‘۔
کہتے ہیں منفی سوچنے والا اس سوچ کا اس قدر عادی ہو جاتا ہے کہ وہ چاہے نہ چاہے اس کی سوچ منفی راستے پر ہی چلتی رہتی ہے ۔ اس کی مثال پگڈنڈی کی ہے جو کسی کھیت میں موجود ہو تو ہر مسافر خود بخود اسی پر چلنے لگتا ہے۔ یہی حال منفی سوچنے والے کا ہے وہ شعوری یا لاشعوری طور پر اسی پکڈنڈی پر اکثر وقت چلتا رہتا ہے۔ اس بار آپ نے ایک بات نوٹ کی ، صفائی کا انتظام خاصا مناسب رہا سو تعفن کچھ محسوس ہوا۔ دوسری بات یہ کہ آج کل لوگ قربانی کرنے کے باوجود دوسروں کے گھر قربانی کا گوشت کم کم بھیجنے لگے ہیں، جانے کیوں ۔ بہت سے لوگوں سے سنا ہے کہ یہ بھاری ہوتا ہے، کھایا نہیں جاتا۔ تو بھئی بھاری رکھنے والے پر ہوتا ہے دینے والے کے لیے نہیں۔ قربانی بانٹنے کا نام ہے تقسیم کرنے کا نام ہے، فریزر میں بھر لیتے کا نام نہیں۔
ایک آدمی نے پانچ سات کلو قربانی کا گوشت فریج میں رکھ چھوڑا۔ اگلے ماہ اس کا بل بیس ہزار سے زیادہ آیا تو اس کی چیخیں نکل گئیں۔
عید جیسے مواقع آلائشوں کی صفائی کا مناسب وقت ہوتے ہیں۔ دلوں کی قدورتیں با آسانی صاف ہو سکتی ہیں، بس انا کو اپنی ذات سے بلند نہ ہونے دیں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہماری سوچ کو پاک کر دے اور اسے منفی آلائشوں سے بچا لے۔۔۔
اب پیش خدمت ہے ایک افسانہ
الائشیں
صفدر علی حیدری
افسانہ ۔۔۔۔
’’ کمال ہے یار اس بار تو محلے والوں نے مجھے سچ میں حیران کر دیا ہے ‘‘۔ ’’
کیوں کیا ہوا ہے ؟ کیا ایسا کر دیا ہے محلے والوں نے ؟‘‘
’’پورا محلہ گھوم کر دیکھو لو کہیں بھی تمہیں آلائشیں دکھائی نہیں دیں گی ایسا لگتا ہے کہ کسی نے قربانی کی ہی نہ ہو‘‘
’’ ہاں یہ تو ہے ، اس بار واقعی معجزہ ہوا ہے ورنہ تو ہفتوں محلے سے تعفن نہیں جاتا ‘‘۔ میرے دوست نے تائید کی’’ لگتا ہے یہاں کے لوگ اب مہذب ہو گئے ہیں ‘‘۔
’’ یہ سب کچھ پتہ ہے کس کی وجہ سے ہوا ہے ‘‘۔
’’ نہیں ۔۔ مجھے تو علم نہیں ہے ‘‘۔
’’ وہ رحیم داد کو جانتے ہو ناں ، وہی جو مزدور ہے ‘‘۔
’’ ہاں ہاں جانتا ہوں ‘‘۔۔۔
’’ بس یہ سب اسی کا کیا دھرا ہے‘‘
’’ نہ کر یار ‘‘۔۔۔
’’ سچ کہہ رہا ہوں۔ آ میرے ساتھ میں تجھے اس کے پاس لے چلتا ہوں ‘‘۔
پھر وہ مجھے بازو سے پکڑ کر اس کے گھر لے گیا۔ دروازے پر دست دی گئی تو اندر سے ایک لڑکا نکلا۔ اس کا باپ بقول اس کے گھر پر نہیں تھا۔ ہم جانے کے لیے مڑے ہی تھے کہ وہ بھی وہاں آ گیا
رحیم داد تم نے کس کے کہنے پر یہ سب کیا ہے۔ کیا کمیٹی والے نے تجھے مقرر کیا تھا، نہیں جناب ۔۔۔ میں نے خود سے کیا ہے۔ پچھلے محلے میں بھی میں خود سے یہ سب کیا کرتا تھا۔ صفائی وقت پر ہو جائے تو بدبو نہیں پھلتی
تو پھر تجھے مزدوری کون دے گا
مزدوری ، کیسی مزدوری ؟ میرا بس ایک سو خرچ ہوا ہے۔ ہتھ ریڑھی کا کرایہ دینا پڑا ہے مجھے۔ اور بس
نہیں یار تو نے سارا دن محنت کی ہے تمہارا بھی تو حق بنتا ہے
بس جناب جو بھی حق بنتا ہے وہ میں اپنے رب سے لوں گا۔ میں قربانی نہیں کر سکا کہ میرے پاس اتنے پیسے ہی نہیں تھے ۔ میں سمجھوں گا صفائی کا کام کر کے میں نے اپنے حصے کا کام کر دیا ہے۔ میرے بس میں تھا میں نے وہ کیا۔ کیا پتہ میرے رب کو میری یہی بات بھا جائے ۔ اچھا جناب مجھے اجازت بچے صبح سے بھوکے ہیں۔ میں نے گھر سودا دینا ہے ۔
اس نے کہا تو میری نظر اس کے ہاتھ میں دبے شاپر پر جا رکیں ۔ ارے بھئی کیا عید پر بھی بچوں کو دال کھلائے گا، میں نے حیرت سے پوچھا
کیا کروں جناب ۔۔۔ قربانی کی فرصت نہ تھی اور محلے میں کسی کو گوشت بھجوانے کی توفیق نہیں ہوئی۔
ہم نے ایک دوسرے کو دیکھا اور ندامت سے سر جھکا کر اپنے گھر آ گئے۔
کاش وہ ہمارے اندر کی آلائشوں کو بھی کہیں ٹھکانے لگا آتا۔

جواب دیں

Back to top button