عوام دوست بجٹ

عوام دوست بجٹ
پاکستان 2018ء کے وسط سے لے کر 2024ء کے اوائل تک اپنی تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزرا ہے۔ گزشتہ برس فروری میں جب عام انتخابات ہوئے اور اُس کے نتیجے میں اتحادی حکومت کا قیام عمل میں آیا تو اُس کے لیے اُس وقت اقتدار ہرگز پھولوں کی سیج نہیں تھا، بلکہ یہ کانٹوں سے بھری ایک پُرخار راہ تھی، جس سے گزرنا چنداں آسان نہیں تھا۔ معیشت کا پہیہ جام تھا۔ مہنگائی کا بدترین طوفان تھا۔ بے روزگاری کا سیلاب آیا ہوا تھا۔ کاروبار کے لیے حالات ناسازگار تھے، لوگوں کے برسہا برس کے جمے جمائے کاروبار تباہ ہوچکے تھے۔ بہت سے بڑے اداروں کو اپنے آپریشنز محدود کرنے پڑے تھے، جس کی وجہ سے لاکھوں لوگوں کو بے روزگاری کا دُکھ جھیلنا پڑا۔ اشیاء ضروریہ کی قیمتیں مائونٹ ایورسٹ سر کر رہی تھیں۔ موجودہ اتحادی حکومت ان سنگین چیلنجز سے احسن انداز میں عہدہ برآ ہوئی۔ وزیراعظم شہباز شریف اور اُن کی ٹیم نے ملک و قوم کو ترقی اور خوش حالی سے ہم کنار کرنے کا عزم کیا، معیشت کی بحالی کے مشن کا آغاز کیا، اُن کی شبانہ روز کاوشوں کے مثبت نتائج آتے رہے اور اب حالات کافی سنور چکے ہیں۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب بھی معاشی استحکام کی جانب پیش رفت سے متعلق گزشتہ دنوں تفصیل سے آگاہ کر چکے ہیں۔ موجودہ مرکزی حکومت نے گزشتہ روز اپنا دوسرا بجٹ پیش کیا، پچھلے مالی سال کا بجٹ بھی خاصا متوازن تھا اور نئے بجٹ کو بھی عوام دوست قرار دیا جارہا ہے۔ قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال 2025-26کا 17ہزار 573ارب روپے حجم کا وفاقی بجٹ پیش کر دیا گیا، جس میں 6501ارب روپے خسارہ ہے، 8207ارب سود کی ادائیگی پر خرچ ہوں گے۔ اقتصادی ترقی کی شرح 4.2فیصد، افراط زر کی شرح 7.5فیصد متوقع ہے، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10فیصد جب کہ پنشن میں 7فیصد اضافے کی تجویز ہے، ایف بی آر ٹیکس محصولات کا حجم 14ہزار 131ارب روپے جب کہ نان ٹیکس ریونیو کا ہدف 5ہزار 147ارب روپے مقرر کیے جانے کی تجویز ہے، تنخواہوں میں موجود تفاوت کو ختم کرتے ہوئے اہل ملازمین کو 30فیصد ڈسپیریٹی ریڈکشن الائونس دینے کی تجویز ہے۔ وفاقی ترقیاتی بجٹ (پی ایس ڈی پی) کا حجم ایک ہزار ارب روپے رکھا گیا ہے جب کہ صوبوں کے سالانہ ترقیاتی پروگرام کے لیے 2869ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔ بجٹ میں پٹرول اور ڈیزل پر 2.50روپے کاربن لیوی عائد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ فرنس آئل پر بھی 2.50 روپے کے حساب سے 2665روپے فی ملین ٹن کاربن لیوی عائد کی گئی ہے۔ فنانس بل کے مطابق اسمگلنگ کی روک تھام کیلئے کارگو ٹریکنگ سسٹم کے نفاذ کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے جب کہ آئندہ مالی سال میں ایل ای ڈی بلب کے خام مال کی امپورٹ پر ڈیوٹی صفر کردی گئی ہے۔ حکومت نے بجٹ میں اسٹیل کے خام مال پر ڈیوٹی 15فیصد سے کم کرکے 10فیصد رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری میں استعمال کی جانے والی سلائی مشین پر بھی ڈیوٹی صفر کردی گئی ہے۔ بجٹ میں 850سی سی تک کی چھوٹی گاڑیوں پر 18فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ غیر رجسٹرڈ کاروبار کے خلاف سخت اقدامات کا اعلان کیا گیا ہے۔ بینک اکائونٹ منجمد کیے جائیں گے اور ان کی جائیداد کی منتقلی پر پابندی عائد ہوگی جب کہ سنگین جرائم کی صورت میں کاروباری جگہ سیل اور سامان ضبط کیا جاسکے گا، تاہم متعلقہ فریق کو 30دن کے اندر اپیل کا حق حاصل ہوگا۔ اس کے علاوہ آن لائن پلیٹ فارمز سے خریداری پر بھی 18فیصد ٹیکس وصول کیا جائے گا۔ قومی اسمبلی میں وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے اسپیکر کی جانب سے اجازت ملنے کی بعد اپنی بجٹ تقریر کے آغاز پر کہا کہ وزیراعظم سمیت دیگر سیاسی قائدین کا شکریہ ادا کرتا ہوں، یہ بجٹ غیرمعمولی حالات میں پیش کیا جارہا ہے جب قوم نے زبردست یکجہتی کا مظاہرہ کیا، بھارت کے خلاف قوم کے اتحاد کو تاریخ کے سنہری باب میںیاد رکھا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اب ہماری توجہ معاشی استحکام ، ترقی کی جانب مرکوز ہے، ہم اسی خلوص اور حوصلے کے ساتھ معیشت کو مستحکم اور عوام کی فلاح کو یقینی بنائیں گے، گزشتہ ڈیڑھ سال میں ترقی کا سفر اور معاشی اصلاحات کا سفر کامیابی سے کیا اور معیشت کو استحکام بخشتے ہوئے مستقبل کو مضبوط بنایا۔ محمد اورنگزیب نے کہا کہ ملک میں معاشی بہتری کے لیے سخت فیصلے لینے پڑے۔ معیشت کی بہتری کے لیے ایسے اقدامات کیے گئے جن کی وجہ سے مالی نظم و ضبط کو برقرار رکھا گیا۔ انہوں نے کہا مہنگائی کی شرح میں نمایاں کمی ہوئی جب کہ کرنٹ اکائونٹ سرپلس ہونے کی توقع ہے۔ ایسی معیشت کی تشکیل چاہتے ہیں جس کا فائدہ براہ راست ہر طبقے کو ہو اور ہر شخص کی دہلیز تک ترقی پہنچے۔ غریب طبقے کی مشکلات میں کمی کے لیے نئے بجٹ میں خاصی آسانیاں فراہم کی گئی ہیں۔ اس سے اُن کو مناسب ریلیف میسر آسکے گا۔ پنشن اور تنخواہوں میں اضافہ خوش آئند ہے۔ سپر ٹیکس میں کمی، 6لاکھ تک سالانہ کمانے والوں کو ٹیکس سے استثنیٰ بجٹ کے اہم مندرجات میں شمار ہوتے ہیں۔ رئیل اسٹیٹ سیکٹر کے لیے بھی اس میں بڑا ریلیف پنہاں ہے۔ دفاعی بجٹ میں 20فیصد اضافہ بھی احسن اقدام ہے۔ موجودہ حالات کے تناظر میں اس کی ضرورت بھی تھی۔ اس تناظر میں موجودہ بجٹ کو متوازن اور عوام دوست قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ اس بجٹ کے ملک و قوم پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
آئی ٹی برآمدات بڑھانے کا عزم
وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت کو 16ماہ ہوئے ہیں۔ اُنہوں نے تمام ہی شعبوں میں اصلاحات کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے، جس کے مثبت نتائج برآمد ہورہے ہیں۔ معیشت کی صورت حال بہتر رُخ اختیار کر رہی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف آئی ٹی کے شعبے میں پاکستان کو ترقی کی معراج پر پہنچانے کا عزم رکھتے ہیں۔ اس حوالے سے اسلام آباد میں سب سے بڑے آئی ٹی پارک کی تعمیر ہورہی ہے۔ اس شعبے میں انقلابی اقدامات موجودہ دور حکومت میں کیے گئے ہیں، جن کے ذریعے آئی ٹی کی ترقی کی نئی راہیں کُھلی ہیں۔ آئی ٹی برآمدات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور موجودہ حکومت آگے مزید آئی ٹی برآمدات میں اضافے کا ارادہ رکھتی ہے۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی ( آئی ٹی) کا شعبہ اپنی برآمدات کی صلاحیت کی وجہ سے ملکی معیشت کا ایک انتہائی اہم حصہ بن چکا ہے۔ اگلے پانچ سال میں آئی ٹی برآمدات کو 25ارب ڈالر تک بڑھانے کی منصوبہ بندی کرلی گئی ہے۔ بجٹ تقریر کے دوران وزیر خزانہ نے کہا کہ ڈیجیٹل گورننس اور سائبر سیکیورٹی کے حوالے سے پاکستان کی خدمات کا بین الاقوامی سطح پر اعتراف کیا گیا ہے، گلوبل سائبر سیکیورٹی انڈیکس 2024اور آئی سی ٹی ڈیولپمنٹ انڈیکس میں پاکستان کی بڑھتی ہوئی رینکنگ ملک کے آئی ٹی کے شعبے کی ترقی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ آئی ٹی برآمدات بڑھانے کا حکومتی عزم ہر لحاظ سے قابل تحسین ہے۔ جب لگن سچی ہو تو کامیابی ضرور ملتی ہے۔ حکومت نیک نیتی کے ساتھ ملک و قوم کی بہتری کے لیے کوشاں ہے۔ ان شاء اللہ آئی ٹی برآمدات میں مزید بڑا اضافہ ہوگا اور یہ شعبہ معیشت کے لیے اہم ستون کی حیثیت اختیار کر جائے گا۔