داخلی انتشار

داخلی انتشار
تحریر : محمد مبشر انوار (ریاض)
امریکی کو بالعموم مواقع کی سرزمین کہا جاتا ہے اور دنیا بھر سے ہر قسم کے اذہان اپنے بہتر مستقبل کے لئے،امریکی سرزمین پر قسمت آزمائی کے لئے رخت سفر باندھتے ہیں،اپنی سرزمین ،گھر بار چھوڑچھاڑ کر ریاست ہائے متحدہ امریکہ پہنچتے ہیں کہ یہاں ہنرمندوں کو اپنے ہنر کے مطابق نہ صرف مواقع میسر ہیں بلکہ یہاں اجرت بھی ہنر کے مطابق ملتی ہے۔ جبکہ نابغہ روزگار قسم کے اعلی دماغوں کے لئے یہاں نہ صرف تحقیق و تجربات کے اعلی ترین مواقع میسر ہیں بلکہ امریکہ ایسے عالی دماغوں کو سر آنکھوں پر بٹھاتا ہے اور ان کے لئے ہر طرح کی آسائش فراہم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا بس شرط اتنی سی ہے کہ وہ عالی دماغ نہ صرف واقعی عالی ہو بلکہ وہ واقعتا ریاست امریکہ کے لئے کوئی انوکھی و منفرد شے ایجاد و تخلیق کرنے کی اہلیت و صلاحیت رکھتا ہو، اس کے لئے یہ سر زمین دنیا کی سب سے بہترین سرزمین کا درجہ رکھتی ہے۔ ان خصوصیات کے باعث یہ کہنا بجا ہو گا کہ امریکی معاشرے کو اس حد تک جدید بنانے میں، اسے دنیاوی ہر لحاظ سے دیگر دنیا سے ممتاز کرنے میں ،انہی ہجرت کنندگان کی محنت شاقہ شامل ہے،کہ امریکہ میں ’’ شبانہ روز‘‘ محنت کا ڈھنڈورا نہیں پیٹا جاتا بلکہ محنت شاقہ کے نتائج دے کر اپنی سرزمین کو دیگر اقوام سے ممتاز کیا جاتا ہے۔ الگ بات کہ بابائے قوم کے فرمودات میں یہ بات شامل رہی ہے کہ ’’ کام،کام اورکام‘‘ جو بچپن سے ہم نصابی کتب میں پڑھتے آئے ہیں،لیکن اس کے باوجود ہمارے زعماء کو اس کا ڈھنڈورا پیٹنے کی ہمیشہ ضرورت محسوس ہوتی ہے جبکہ دیگر ممالک میں،یہ سبق بچپن میں ہی سکھا دیا جاتا ہے اور بڑے ہونے تک ہر شخص کی گھٹی میں یہ بات شامل ہوتی ہے کہ اسے مسلسل محنت کرتے رہنا ہے نہ صرف اپنے لئے بلکہ ملک و قوم کے لئے۔ بہرکیف یہ ذکر برسبیل تذکرہ ہی سمجھا جاءے کہ ہمارے زعماء کی ’’ شبانہ روز‘‘ محنت کے ثمرات صرف اور صرف ان کی ذاتی تجوریوں میں ہی نظر آتے ہیں جبکہ اس شبانہ روز محنت سے ملک و قوم جس تنزلی کا شکار ہیں،جس معاشی تنگدستی سے دوچار ہیں،اللہ کریم کسی بھی قوم کو ایسی شبانہ روز محنت کے ثمرات سے محفوظ و مامون رکھے۔ اس میں شک نہیں کہ پچھلی ڈیڑھ/دو صدی سے امریکہ نے دنیا بھر میں اپنا ایک مقام بنایا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ عالمی امور پر اپنی گرفت کو بھی انتہائی مضبوط رکھا ہے، معیشت و دفاعی معاملات کے حوالے سے امریکی گرفت اس وقت بظاہر کمزور پڑتی دکھائی دیتی ہے لیکن اس کے باوجود حتمی طور پر امریکی زوال پر بات کرنا انتہائی مشکل ہے۔ گو کہ بیشتر دانشور اس امر پر متفق ہیں کہ امریکہ زوال کی جانب تیزی سے گامزن ہے تو کئی ایک دانشور اس کے برعکس رائے رکھتے ہیں اور اس کے حق میں انتہائی مضبوط دلائل بھی رکھتے ہیں لہذا فریقین کی رائے ،انسان کو مخمصہ میں ڈال دیتی ہے اور بسا اوقات یوں محسوس ہوتا ہے کہ واقعی امریکہ اپنے زوال کی جانب گامزن ہے تو پھر یہ احساس ہوتا ہے کہ نہیں ابھی امریکی زوال میں کچھ وقت باقی ہے۔ بہرکیف بطور مسلمان اس امر سے قطعا اختلاف نہیں کہ اس فانی دنیا میں ہر عروج کو زوال ہے اور بہرطور امریکہ اسی فانی دنیا کا حصہ ہی ہے لیکن اس کے زوال کا متعین وقت کوئی بھی قبل ازوقت نہیں جان سکتا ماسوائے اپنی رائے کے مطابق ،اپنے اعدادوشمار یا حساب کتاب کے مطابق ،کہ کب امریکی زوال ممکن ہے۔
ویسے سوال تو یہ بھی ہے کہ آخر ہم امریکی زوال کے متمنی کیوں ہیں؟اس کے جواب میں اکثریت یہی کہتی ہے کہ امریکہ بطور ایک عالمی طاقت ،کرہ ارض کے معاملات کو ٹھیک طریقے سے ادا نہیں کررہا یا اس کی غیر جانبداری بری طرح سے مشکوک و متاثر ہو چکی ہے،جس کے باعث اس کی عالمی حیثیت پر کئی ایک سوالیہ نشانات اٹھ چکے ہیں لیکن اس کے باوجود ،تاحال امریکہ عالمی منظر نامے پربدستور ایک عالمی طاقت ہے۔تاہم اس کا اثرورسوخ ہر گزرتے دن کے ساتھ گہناتا جارہا ہے ،جس کے باعث دوسری طاقتیں ابھر کر سامنے آرہی ہیں اور اس امریکی خامی کو بھرپور طریقے سے پورا کرنے میں مگن ہیں تا کہ دور حاضر کی زمام کار،ان کے ہاتھ میں آ جائے،درحقیقت مالی وسائل ،معاشی استحکام اور حالیہ پاک بھارت کشیدگی میں دفاعی ہتھیاروں کے کامیاب تجربات نے چین کی عالمی حیثیت کو انتہائی مستحکم کر دیا ہے اور چین بھرپور اعتماد کے ساتھ امریکی عالمی حیثیت سے اپنا حصہ لینے کے لئے آگے بڑھ رہا ہے،جسے روکنے کے لئے امریکہ اپنا زور تو لگا رہا ہے لیکن محسوس یہی ہوتا ہے کہ اگر امریکہ حصہ داری نہیں کرتا ،مل بانٹ کر نہیں کھاتا تو پھر معاملات کسی اور رخ پر جائیں گے اور کسی ایک فریق کی واضح برتری تک ختم نہیں ہونگے، جیسا دوسری عالمی جنگ کے بعد،امریکہ واضح طور پر عالمی طاقت بن گیا تھا۔ فی الوقت تو عالمی معاملات پر نظر دوڑائیں تو امریکہ ماسوائے پاک بھارت کشیدگی ختم کروانے کے علاوہ کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں کرپایا وہ خواہ ،ٹیرف کی مد میں ہو یا دیگر خطوں میں جاری جنگوں کو رکوانے کا معاملہ ہو،امریکہ کو خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی کہ غزہ کے مسلمان ہنوز اسرائیلی ظلم و ستم کاشکار ہیں تو دوسری طرف یوکرین پر روسی جارحیت اپنے آخری مراحل میں ہے اور روس کی یہ حتی الامکان کوشش ہے کہ جلداز جلد یوکرین میں طے کردہ اہداف کو حاصل کرلے،جس کے لئے روسی حملوں میں ،روس کے اندر جنگی جہازوں کی تباہی کے بعد ،خاصی شدت آ چکی ہے۔
علاوہ ازیں ! اس وقت امریکہ کا سب سے بڑا مسئلہ ،بذات خود اس کے صدر بن چکے ہیں کہ ان کی غیر یقینی شخصیت سے کسی بھی وقت کچھ بھی متوقع دکھائی دیتا ہے گو کہ تاحال ان کے بیشتر اقدامات پر انہیں پسپائی اختیار کرنا پڑی ہے لیکن اس کے باوجود،ان سے کوئی بھی اقدام کسی بھی وقت متوقع رہتا ہے۔ ایسی ہی صورتحال اس وقت بھی لاس اینجلس میں دکھائی دے رہی ہے کہ وہ امریکہ ،جس کی ترقی و خوشحالی بہرکیف مہاجرین کی مرہون منت ہے کہ دنیا بھر سے عالی دماغ،اس خطہ میں نہ صرف اپنی قسمت آزمائی کے لئے آتے ہیں بلکہ اپنے ہنر سے اس ملک کو سنوارتے ہیں، صدر ٹرمپ ،اپنے انتخابی نعرے کے مطابق کہ وہ امریکہ کو ایک بار پھر عظیم بنائیں گے ،کی تعبیر حاصل کرنے کے لئے ،غیر قانونی تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کاارادہ رکھتے ہیں۔ اس سے قبل تک امریکی پالیسی سازوں نے بالعموم کوشش کی ہے کہ ایسے غیر قانونی تارکین وطن کے لئے ،ایمنسٹی سکیم کا اعلان کیا جاتا رہا ہے تا کہ وہ لوگ جو غیر قانونی طور پر امریکہ میں رہائش پذیر ہیں،خود کو قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے،امریکی شہریت حاصل کر لیں اور امریکی معیشت میں اپنا مثبت کردار ادا کریں۔ صدر ٹرمپ ،تاریخ کے ممکنہ طور پر پہلے صدر ہیں ،جو امریکی روایات کے برعکس جاتے ہوئے،امریکہ میں مقیم غیر قانونی تارکین کو ہر صورت ملک بدر کرنے پر تلے ہیں اور اپنی اس کوشش میں انہیں کس قدر مزاحمت کا سامنا ہے،اس کا اندازہ ایک طرف لاس اینجلس و کیلی فورنیا کی مقامی حکومت کی جانب سے ہے تو دوسری طرف عوام کی بڑی تعداد سڑکوں پر اس اقدا م کے خلاف مظاہرے کر رہی ہے،تادم تحریر ان مظاہروں میں تشدد کی جھلک بھی امڈ آئی ہے کہ شہریوں کی جانب سے قانون نافذ کرنے والوں پر گھونسے برسانے کی ویڈیو وائرل ہو چکی ہے کہ ایک شہری،تین پولیس والوں کی ٹھکائی کرکے فرار ہو گیا۔معاملات کو طاقت کے زور پر حل کرنے کی کوشش انہیں مزید بگاڑ سکتی ہے اور صدر ٹرمپ کو مزید مشکلات و ہزیمت سے دوچار کرسکتی ہے کہ اس حوالے سے جو کاری طنز جرمن چانسلر نے صدر ٹرمپ کو کیا ہے،اس کے بعد صدرٹرمپ کو اپنے روئیے پر نظر ثانی کر کے، اس ہزیمت سے بچنا چاہئے۔ جرمن چانسلر نے اپنی ملاقات کے دوران ،صدرٹرمپ کے دادا کا جرمن برتھ سرٹیفکیٹ ، صدر ٹرمپ کو پیش کرکے،صدر ٹرمپ کو یہ باور کروانے کی کوشش کی ہے کہ ان کے دادا بھی امریکی سرزمین پر غیر قانونی طور پر آئے تھے اور صدرٹرمپ کی اپنی حیثیت اس حوالے سے وہی ہے،جس کے خلاف وہ آپریشن کرنے پر تلے ہیں۔ تاہم صدرٹرمپ اس طنز کا کیا جواب دیتے ہیں اور کیا وہ اپنی اس مہم سے پیچھے ہٹتے ہیں یا نہیں،اس کے متعلق کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ ٹرمپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ غیر قانونی کام ان کے دادا نے کیا تھا،جبکہ وہ قانونی طور پر امریکی شہری ہیں،جس سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا کہ ہر وہ شخص جو امریکہ میں پیدا ہوا ہے،امریکی قانون کے مطابق امریکی شہری ہے،خواہ اس کے اجداد غیر قانونی طورپر وہاں پہنچے ہوں،ممکنہ طور پر یہی وجہ ہو گی کہ صدر ٹرمپ نے اس قانون کو بدلنے کی کوشش کی لیکن عدالت نے اس پر حکم امتناعی جاری کررکھا ہے۔ یوں ٹرمپ کو اس محاذ پر بھی فی الوقت پیچھے ہٹنا پڑا ہے کہ یہ امریکہ کی روایات رہی ہیں اور امریکی دستور و قانون کی خلاف ورزی ہی تصور ہوگی تاوقتیکہ مجاز اتھارٹی اس کے متعلق قانون سازی نہ کرے۔ تاحال صدر ٹرمپ کے اقدامات ایک طرف عالمی تعلقات میں ہلچل بپا کئے ہوئے ہیں تو دوسری طرف امریکہ کو دوبارہ عظیم بنانے کے لئے اٹھائے گئے اقدامات نے داخلی طور پر بھی امریکہ میں انتشار پیدا کردیا ہے،کیا امریکہ اس داخلی انتشار پر قابو پانے میں کامیاب ہو جائے گا؟؟؟