افغان حکومت کی عام معافی کی پالیسی ؟

افغان حکومت کی عام معافی کی پالیسی ؟
پیامبر
قادر خان یوسف زئی
طالبان کے افغانستان پر دوبارہ کنٹرول کو تقریباً چار سال ہو چلے ہیں مگر حالات کی تلخی اور حقیقت کی سنگینی اب بھی تازہ ہے۔ اگست 2021ء کے دن تھے جب کابل ایک بار پھر افغان طالبان کے ہاتھوں میں چلا گیا اور ہزاروں افغان شہری خوف اور بے یقینی کی کیفیت میں ملک سے نکلنے کے لیے بے تاب ہو گئے۔ امریکہ اور نیٹو کی افواج افغانستان سے نکل رہی تھیں اور کابل ایئر پورٹ کے مناظر دنیا بھر میں خوف، اضطراب اور بے بسی کی علامت بن گئے تھے۔ وہ منظر اب بھی آنکھوں کے سامنے تازہ ہے کہ ہزاروں افغان شہری امریکی فوجی جہازوں کی جانب بھاگ رہے تھے۔ ان کی آنکھوں میں خوف تھا، مستقبل کی بے یقینی تھی اور اپنے ملک سے بے دخلی کا درد۔ اب تقریباً چار برس بعد طالبان کی جانب سے ایک اعلان سامنے آیا ہے۔ افغان عبوری حکومت کے وزیر اعظم محمد حسن اخوند نے عیدالاضحٰی کے موقع پر افغان عوام کو ایک خاص پیغام دیا جس میں کہا گیا کہ ملک چھوڑ کر جانے والے تمام افغان باشندوں کے لیے عام معافی ہے اور وہ کسی بھی خوف کے بغیر واپس آ سکتے ہیں۔ ان کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان سمیت 12 ممالک کے شہریوں کے امریکہ داخلے پر پابندی عائد کی ہے۔ امریکہ کی جانب سے اس اعلان کے بعد ہزاروں افغان شہری جو امریکہ جانے کی امید میں پاکستان میں انتظار کر رہے تھے، اب مکمل طور پر بے یقینی کا شکار ہو چکے ہیں۔
افغان عبوری حکومت کا یہ اعلان کے پیچھے درحقیقت گہری سیاسی حکمت عملی موجود ہے۔ افغان طالبان نے جب اگست 2021ء میں اقتدار حاصل کیا تو انہوں نے اُس وقت بھی عام معافی کا اعلان کیا تھا، تاہم زمینی حقائق اس کے برعکس تھے۔ اس اعلان کے باوجود درجنوں ایسے واقعات سامنے آئے جن میں مبینہ طور پر سابق افغان سرکاری افسران، انسانی حقوق کے کارکنان اور صحافیوں کو گرفتار یا تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ان حالات میں عام معافی کا حالیہ اعلان کتنی سنجیدگی کا حامل ہوگا، یہ ایک اہم سوال ہے۔ اس اعلان کے پیچھے افغان طالبان کی کئی ممکنہ سیاسی حکمت عملیاں کارفرما ہو سکتی ہیں۔ افغان طالبان بین الاقوامی برادری کو یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ وہ اب ماضی کے سخت گیر طالبان نہیں رہے، بلکہ اب عالمی سفارتی منظر نامے میں اپنی جگہ بنانے کے خواہاں ہیں۔ وہ یہ چاہتے ہیں کہ انہیں عالمی سطح پر تسلیم کیا جائے۔ اس حوالے سے گزشتہ چند برسوں میں افغان عبوری حکومت نے اپنی خارجہ پالیسی اور بیانات میں کافی لچک دکھائی ہے۔ خاص طور پر انہوں نے خطے کے ممالک بشمول روس، چین، ایران اور پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششیں تیز کی ہیں۔
افغان حکومت کی جانب سے عام معافی کے اعلان کے باوجود، حقیقت میں واپس آنے والوں کے تحفظ کی ضمانتیں واضح نہیں۔ افغان طالبان حکومت اب تک اندرونی طور پر مختلف گروہوں اور دھڑوں کے درمیان تقسیم نظر آتی ہے۔ ایک جانب ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ کی سخت گیر نظریاتی پوزیشن ہے اور دوسری جانب ملا برادر اور سراج الدین حقانی جیسے رہنماں کا نسبتاً معتدل رویہ۔ ایسے میں افغان شہری یہ جاننے سے قاصر ہیں کہ طالبان کی اس نئی دعوت پر اعتماد کریں یا نہیں۔ افغان طالبان کی جانب سے یہ اعلان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سفری پابندیوں کے بعد زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے افغانستان سمیت 12ممالک کے شہریوں پر امریکہ میں داخلے کی پابندی لگا دی ہے۔ اس اعلان نے اُن ہزاروں افغان شہریوں کے مستقبل کو تاریک کر دیا ہے جو امریکی امدادی پروگراموں کے تحت افغانستان چھوڑ کر امریکہ یا دیگر مغربی ممالک میں آباد ہونے کے لیے درخواست گزار تھے۔ پاکستان میں مقیم افغان پناہ گزینوں کے لیے یہ خبر انتہائی مایوس کن ہے کیونکہ پاکستان کی جانب سے بھی افغان شہریوں کو ملک سے نکالنے کی مہم جاری ہے۔
اکتوبر 2023ء سے اب تک تقریباً دس لاکھ افغان پناہ گزین پاکستان چھوڑ چکے ہیں۔ اسلام آباد حکومت کی جانب سے افغانوں کے خلاف گرفتاریوں اور ملک بدری کے خوف نے افغان شہریوں کی بے بسی میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ پاکستانی حکومت کے اس رویے کے پیچھے سکیورٹی کے خدشات ہیں جن کا اظہار بارہا کیا گیا ہے۔ پاکستانی حکومت افغان باشندوں کی بڑی تعداد کو ملکی معیشت اور امن و امان کے لیے خطرہ سمجھتی ہے۔ ایسے میں افغانستان واپس جانا یا امریکہ و یورپ جانے کے امکانات کم ہونے کے بعد افغان باشندوں کے پاس بہت محدود آپشن باقی رہ گئے ہیں۔ افغان طالبان کے اس اعلان میں ایک اہم پہلو اُن افغانوں کا ذکر بھی ہے جنہوں نے امریکہ کی جنگ میں امریکی افواج کا ساتھ دیا تھا۔ ان میں مترجمین، سرکاری افسران اور انسانی حقوق کے کارکن شامل ہیں۔ ان افراد کو پہلے ہی افغان طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد شدید خطرات لاحق ہیں۔ ایسی صورتحال میں طالبان کے عام معافی کے بیان کو عملی طور پر تسلیم کرنا انتہائی مشکل ہے۔ یہ ممکن ہے کہ افغان طالبان بین الاقوامی امداد اور تسلیم کیے جانے کے لیے ایسے بیانات جاری کر رہے ہوں تاکہ عالمی رائے عامہ ہموار ہو سکے۔
افغان طالبان کی یہ پیشکش عالمی برادری کو بھی ایک سفارتی چیلنج دیتی ہے۔ مغربی ممالک خاص طور پر امریکہ کے لیے طالبان کی موجودہ حکومت کے ساتھ براہ راست مذاکرات ایک پیچیدہ معاملہ ہیں۔ انسانی حقوق کی صورتحال اور خواتین کی تعلیم و آزادی جیسے بنیادی مسائل پر افغان عبوری حکومت کا رویہ عالمی سطح پر شدید تنقید کا شکار ہے۔ امریکہ سمیت مغربی ممالک افغان حکومت کو رسمی طور پر تسلیم کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ افغان طالبان کے اس اقدام کو محض سیاسی بیانات تک محدود نہیں رکھا جا سکتا۔ افغانستان کی موجودہ صورتِ حال اب بھی معاشی ابتری، انسانی بحران اور سماجی انتشار کی کیفیت میں مبتلا ہے۔ افغان عوام کے لیے روزگار کے مواقع محدود ہیں، اور غربت و بھوک کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ طالبان حکومت عالمی امداد اور انسانی حقوق کے حوالے سے لچک دار رویہ اپنائے بغیر افغان عوام کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔
یہ پیشکش اگر حقیقی ہے تو افغان طالبان کو عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ انہیں واپس آنے والوں کے تحفظ کو یقینی بنانا ہوگا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے سابقہ اقدامات کے برعکس حقیقی طور پر مفاہمتی رویہ اپنائیں اور عالمی سطح پر یقین دہانی کرائیں۔ تاریخ بار بار خود کو دہرا رہی ہے۔ طالبان کی موجودہ پیشکش کو افغان عوام اور عالمی برادری ابھی محتاط نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔ ماضی کی تلخ حقیقتیں اور حال کی بے یقینی افغانوں کے لیے مشکل فیصلوں کی گھڑی کو مزید پیچیدہ بنا رہی ہیں۔ افغانستان کا مستقبل اب بھی گہری دھند میں ڈوبا ہوا ہے۔