سراب اور سیراب

سراب اور سیراب
تحریر : محمد ناصر اقبال خان
جو بلند بخت حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی طرح سرور کونین حضرت سیّدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و اصحبہٰ و بارک وسلم کی مقدس ومنفعت بخش صحبت و سیرت سے فیضیاب اور مدینتہ العلم کی علمیت سے’’ سیراب‘‘ ہوتے ہیں وہ زندگی بھر کسی’’ سراب‘‘ کے فریب میں نہیں آتے۔ فاروق اعظم حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں انقلاب آفریں اصلاحات کے آب حیات سے اسلامیت اور انسانیت کو سیراب کیا، لہٰذاء یہود وہنود کاکوئی سراب مسلمانوں کو گمراہ نہیں کر سکتا۔ حضرت عمرؓ کے ہاتھوں آبیاری کے بعد اسلامیت اورانسانیت کا شجرسایہ دار مرجھا نہیں سکتا، ان کے انسانیت پران گنت احسانات ہیں۔جس وجود پرجمودطاری ہوجائے موت اس کامقدربن جاتی ہے۔یاد رکھیں ظہوراسلام سے جاہلیت کاجمود ٹوٹ گیا تھا، مظاہر فطرت میں تبدیلیاں نمایاں ہے ۔انسانیت اور معاشرت کی فلاح اوراصلاح کی نیت سے دوررس اصلاحات اورتعمیری اقدامات کرنیوالے ارباب اقتدار واختیار اپنے سچے ربّ العزت کے مقرب بن جاتے ہیں ،میں بھی انہیں بیحد پسندکرتااور ان کی مثبت سوچ کوسراہتا ہوں۔
آئی جی نیشنل ہائی وے اینڈ موٹروے پولیس بی اے ناصر کاشمار بھی ان نیک نام اورنیک نیت ارباب اختیارمیںہوتا ہے جو بڑے پیمانہ پر فائدہ مندتبدیلی کیلئے انتھک محنت اوردوررس اصلاحات کرتے ہیں،انہوں نے اندرون وبیرون ملک کئی اہم عہدوں پراپنے منفردکام سے یہ مقام پایا ہے ۔انہوں نے آج تک عہدوں کاپیچھا اوران تک رسائی کیلئے اثرورسوخ استعمال نہیں کیا بلکہ اہم ترین منصب ان کے پیچھے دوڑتے اورانہیں تلاش کرتے ہیں۔وفاق اورصوبوں میں جہاں بھی بی اے ناصر کی لیاقت ،پیشہ ورانہ صلاحیت اور قیادت کوآزمایا گیا وہ وہاں اپنی مہارت ، بصیرت اورفہم وفراست کے انمٹ نقش چھوڑآئے ۔ زیرک اورانتھک بی اے ناصر آج تک کسی منصب یا محاذ پر ناکام نہیں ہوئے کیونکہ ان کی نیت اور سمت دونوں میں کسی قسم کا ابہام نہیں ۔ جب پنجاب عثمان بزدار کے ہاتھوں یرغمال اور تختہ مشق بناہوا تھا ان دنوں سی سی پی او لاہور کی مسند پر سمارٹ سنجیدہ اور بردبار بی اے ناصر براجمان تھے۔
تبدیلی سرکار کے ناتجربہ کار عثمان بزدارنے اپنی انتظامی جہالت اورانتقامی سیاست کو چھپانے کیلئے رائوسردار علی خاں، محمدطاہراور عامرذوالفقارخان سمیت پنجاب پولیس کے چھ سات جہاندیدہ اورپروفیشنل آئی جی حضرات کو تبدیل کر دیاتھا ،اس دوران بحیثیت سی سی پی او لاہوربی اے ناصر پولیس میں سنجیدہ اصلاحات پرکام کررہے تھے ،مجھے بھی ان سے ملاقات کے دوران وہ مسودہ دیکھنے کااتفاق ہوا تومیں نے ان کی خدمت میں عرض کیا ’’ آپ کی ہر تجویز میں وزن اور تحریر میں تاثیرہے لیکن آپ سے بردبار سی سی پی اولاہور تخت لاہور پربراجمان بزدارکی نیت اورتربیت کاکچھ نہیں بگاڑسکتے‘‘۔بی اے ناصر کی اصلاحات کے میدان میں پیشہ ورانہ مہارت اوران کے ثمرات سے انکارنہیںکیاجاسکتا۔ انہیں میڈیامیں اِن رہنا ہرگز پسند نہیں ، انہیںمیڈیا کی بجائے میدان میںمتحرک رہنااچھا لگتا ہے ۔وہ میڈیا میں بیانات کی بجائے اپنے اقدامات سے اپنا سرکاری فرض اداکرتے ہیں،وہ بحیثیت کپتان اپنے ماتحت ٹیم ممبرز کے کام میں بیجا مداخلت نہیں کرتے تاہم انہیں ڈی ٹریک بھی نہیں ہونے دیتے،ان دنوں پروفیشنل ڈی آئی جی آپریشنزلاہوراشفاق احمدخان نے تھانہ کلچر کی تبدیلی کیلئے جو قابل قدرخدمات انجام دی تھیں ان سے لاہورپولیس کاچہرہ نکھرآیاتھا۔ ارباب اقتدار نے اصلاحات کے ماہربی اے ناصر کاانتخاب نیشنل ہائی وے اور موٹروے پرہونیوالے اندوہناک حادثات کے سدباب جبکہ اس اہم محکمے کو مزیدمستعد اور منظم کرنے کیلئے کیا ہے ،یقینا وہ کامیابی وکامرانی اورنیک نامی کے باب رقم کریں گے ۔ آئی جی نیشنل ہائی وے اینڈموٹروے بی اے ناصر نے چندماہ میں اپنے محکمے کامجموعی ماحول تبدیل کردیا ہے۔انہوںنے اصلاحات کاآغاز کردیا ہے لہٰذاء ابھی مزید مثبت تبدیلی آئے گی۔بی اے ناصر کے مستعد ٹیم ممبرڈی آئی جی افضال احمدکوثر بھی ان دنوں موٹروے میں احسن انداز سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔
بی اے ناصر نے پچھلے دونوں موٹروے پراحتیاطی تدابیر کے سلسلہ میںکچھ ویڈیوزمجھے واٹس ایپ کی تھیں ،جوموٹر وے پرگاڑی ڈرائیوکرنیوالے شہریوں میں شعوراجاگر کرنے کیلئے تیارکی گئی ہیں ۔میں سمجھتا ہوں’’ جوڈرگیا وہ مرگیا ‘‘ کا محاورہ ہرطرح کی صورتحال پرصادق نہیں آتا،یادرکھیں ڈر ہمارے مخلص اورمدبردوست کی حیثیت سے ہمیں کئی قسم کے خطرات سے بچاتاہے ورنہ ہمیں سترمائوں سے زیادہ محبت کرنیوالے اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے ڈرنے کاحکم نہیں ملتا۔ حادثات سے بچائو کیلئے محتاط ڈرائیونگ کے سوادوسراکوئی آپشن نہیں۔اناڑی یاناتجربہ کار ڈرائیورزکے مقابلے میں ماہراور تجربہ کار ڈرائیورزکے ساتھ زیادہ حادثات ہوتے ہیں۔وہ اپنے اندر ضرورت سے زیادہ خوداعتمادی کے سبب نڈراورنتیجتاً مہلک حادثات کاشکار ہوجاتے ہیں۔ پنجابی کامحاورہ ہے’’ کاہلیاں اگے ٹوئے ‘‘ ،شاہراہوں پرشہریوں کے ساتھ پیش آنیوالے زیادہ تر حادثات عجلت جبکہ باقی مجرمانہ غفلت کاشاخسانہ ہوتے ہیں۔ عجلت پسندی شیطانی رویہ ہے اوراس کاانجام ہرگز اچھا نہیں ہوتا ۔ جولوگ اپنے ہاتھوں سے اختیاطی تدابیر کادامن نہیں چھوڑتے زندگی بھی کئی برسوں تک ان سے اپنا ہاتھ نہیں چھڑاتی ۔ لوگ بسااوقات عجلت میں جو مجرمانہ غفلت کربیٹھتے ہیں اس کے نتیجہ میں حادثہ ان کیلئے زندگی بھر کاروگ بن جاتا ہے۔
ڈرائیونگ کے دوران ایک پل یالمحے کی غلطی ہم اورہمارے ہم سفروں پربہت بھاری پڑسکتی ہے۔بیشتر حادثات شاہراہوں پر پیدل چل رہے شہریوں کوبچاتے ہوئے ہوتے ہیں اوران میں کئی قیمتی جانوںکاضیاع ہوجاتا ہے لہٰذاء ڈرائیورز کے ساتھ ساتھ شاہراہوں سے گزرتے عام شہریوں خواہ وہ پیدل یاکسی سائیکل اورگدھاگاڑی پرسوار ہوں ان کیلئے بھی ٹریفک قوانین کی پاسداری ناگزیر ہے۔راقم کامشاہدہ ہے کوئی پیدل اور سائیکل سوار کسی ٹریفک سگنل پرنہیں رکتا، ان کوبچاتی بچاتے کئی مہلک حادثات ہوجاتے ہیں لیکن ان جاہلوں کو اپنی مجرمانہ غلطی کاعلم اورکوئی پچھتاواتک نہیںہوتا۔مخصوص افراد بلکہ ابوجہل کی باقیات کو دوران نماز اوردوران ڈرائیونگ موبائل استعمال کرنا کارِثواب لگتا ہے ۔موٹرسائیکل سوار تودوران ڈرائیونگ کال سنتے اور چیٹ بھی کرتے ہیں۔عام شاہراہوں کے مقابلے میں موٹروے کامزاج قدرے مختلف ہے لیکن وہاں بھی اوورسپیڈنگ اوراوورلوڈنگ کی شکایات عام ہیں۔بدقسمتی سے ہم قانون شکنی پر شرمندہ ہونے کی بجائے فخر کرتے ہیں۔
ہم نے کبھی سوچادوران سفر ہماری ایک لمحے کی شوخی ،شرارت یا غفلت ہماری ساتھ ساتھ کسی دوسرے کی زندگی کاسفرہمیشہ کیلئے ختم کرسکتی ہے ۔پاکستان میں ہرسال تقریبا ً تیس ہزارافراد ٹریفک حادثات میں جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ اعدادوشمار کی روسے ان میں سے ستر فیصد حادثات کے محرکات کابنیادی سبب غفلت اورلاپرواہی سے ڈرائیونگ کرنا ہے۔ ہیلمٹ کے بغیر موٹرسائیکل چلانا ،تھکن یانیند کی حالت میں گاڑی ڈرائیوکرنا ،دوران ڈرائیونگ اوورسپیڈنگ، رانگ اوورٹیکنگ،اوورلوڈنگ اوراپنے تجربہ کار ہونے پر گھمنڈکرنا لاپرواہی ہے ۔2023ء میں رپورٹ ہونیوالے نوہزارسات سوسے زائد مہلک حادثات میں اکثریت نوجوان ڈرائیورزکی تھی۔یہ حادثات صرف قیمتی جانوںکے ضیاع کاسبب نہیں بنتے بلکہ ان کے سبب ماں باپ سے ان کاواحدسہارا،کسی سہاگن سے اس کاسہاگ جبکہ بچوں سے ان کاہیروباپ چھن جاتا ہے ، یہ حادثات خوشحال خاندانوں کاشیرازہ بکھیردیتے ہیں۔یادرکھیں شاہراہ پرصرف ہم نہیں ہوتے بلکہ کئی دوسرے خاندان اورکئی خاندانوں کے واحد کفیل بھی محوسفر ہوتے ہیں لیکن ہماری ایک لمحے کی غفلت یاعجلت کسی کی پوری زندگی برباد کرسکتی ہے۔ذمہ دار ی سے ڈرائیونگ کریں کیونکہ ہماری جنت میں ہمارے بچے ہمارا نتظارکررہے ہوتے ہیں۔
دوران ڈرائیونگ اپنی توجہ ڈرائیونگ ،شاہراہ پرمرکوزجبکہ گاڑی کاماحول سنجیدہ رکھیں۔دوران سفر بیجا ہنسی مذاق سے اجتناب کریں ۔دوران ڈرائیونگ موبائل فون کا استعمال یاطعام کرنا ،اونچی آوازمیں میوزک سننا اور مختلف سرگرمیاں جاری رکھنا خطرے سے خالی نہیں ۔طویل سفر کے دوران باقاعدگی سے وقفہ کریں تاکہ تازہ دم رہیں۔مسلسل ڈرائیو نگ سے دماغ اورجسم کاتھک جانافطری ہے۔شاہراہ پرموجود دوسری گاڑیوں کی موومنٹ پرنظررکھیں۔دوران ڈرائیونگ مختلف قسم کے خیالات کوخودپرحاوی نہ ہونے دیں ،بیک ویومرر اورسائیڈویومررکااستعمال کرتے رہیں۔ بارش کی صورت میں گاڑیوں کی رفتار دھیمی جبکہ اسٹیرنگ پرگرفت مضبوط رکھیں ،معیاری وائپرز کااستعمال کریں ،اپنی اور آگے والی گاڑی کے درمیان فاصلہ برقرار رکھیں،پارکنگ لائٹس ،اشاروںکااستعمال جبکہ ضرورت پڑنے پرہیڈلائٹس کا استعمال کریں۔بارش کے دوران سفر کی شروعات سے قبل نیشنل ہائی ویزاینڈموٹروے پولیس کی ٹال فری ہیلپ لائن 130سے رجوع کریں ۔نیشنل ہائی ویزاینڈموٹروے پولیس کے آفیشل سوشل میڈیا سے رہنمائی حاصل کرتے رہیں۔میں سمجھتا ہوں ٹریفک قوانین اور دوران ڈرائیونگ اختیاطی تدابیر کوتعلیمی نصاب کاحصہ بنایاجائے۔
دوران ڈرائیونگ کوئی بھی اہم فون کال آپ کی اپنی اوراپنوں کی زندگی سے زیادہ اہم نہیںہوسکتی ۔دوران سفرڈرائیو زکے موبائل فون پر بات کرناخطر ناک ہے تاہم پیغام سینڈ کرتے ہوئے یہ خطرہ مزید کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ دوران سفرکوئی اہم کال سننے یاپیغام پڑھنے کیلئے گاڑی کسی محفوظ مقام پرکھڑی کی جاسکتی ہے۔ یادرکھیںلین ڈسپلن کی خلاف ورزی سب کیلئے پریشانی کاسبب بنتی ہے،انتہائی دائیں لین مسلسل ڈرائیونگ کیلئے نہیں صرف اوورٹیک کیلئے استعمال ہوتی ہے ۔ انڈیکیٹرز دیکھتے ہوئے دائیں لین سے اگلی گاڑی کواوورٹیک کریں جبکہ اپنی لین میں واپس آنے کیلئے انڈیکیٹرز ضرور استعمال کریں ۔بڑی اورآہستہ چلنے والی گاڑیاں انتہائی بائیں طرف میں چلیں ،اس طرح سب کو راستہ ملے اورسب کاسفرآسان رہے گا ۔اب ہم فیصلہ آپ پرچھوڑتے ہیںکیونکہ کسی قسم کی معذوری یامحرومی سے پاک تندرستی ہزار نعمت جبکہ زندگی بیش قیمت یعنی انمول ہے سواس نعمت کی قدرکریں کیونکہ ہماری زندگی سے کئی قیمتی زندگیاں اوران کی امیدیں بھی وابستہ ہوتی ہیں۔جان ہے توجہان کامحاورہ یادرکھیں لہٰذاء اختیاط میں انبساط ہے۔
ناصر اقبال خان