Column

حج، اللہ تعالیٰ سے محبت کا اظہار

حج، اللہ تعالیٰ سے محبت کا اظہار
تحریر : ایم فاروق قمر
حج اسلام کا ایک اہم رکن ہے اور اللہ تعالیٰ سے محبت کی نشانی اور اس کا اظہار ہے۔ حضرت ابراہیم ٌاور حضرت اسماعیل ٌ کے ہاتھوں تعمیر کعبہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ٌ کو حکم دیا: ’’ اور لوگوں میں حج کا اعلان کر دو، وہ تمہارے پاس پیدل اور دبلے اونٹوں پر ہر دور کی گھاٹی سے آئیں گے‘‘۔ ( الحج: 27)۔ اس حکم الٰہی کے بعد حج کا باقاعدہ آغاز ہوا ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمٌ، ان کی بیوی حضرت بی بی ہاجرہٌ اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیلٌ کے بعض مخلصانہ اعمال کو قیامت تک کیلئے مناسک حج میں شامل کر دیا۔ ایمان باللہ کے بعد حج سب سے افضل عمل ہے ۔ حج کا ثواب جہاد کے برابر ہے اور حج و عمرہ کرنے والوں کی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ حج کے لغوی معنی’’ قصد‘‘ یا ’’ ارادہ‘‘ کے ہیں لیکن عام اصطلاح میں حج سے مقصود مکہ معظمہ میں حضرت ابراہیمٌکی بنائی ہوئی مسجد یعنی خانہ کعبہ کی زیارت کرنا اور اس کے متبرک جوار میں چند مقررہ اعمال بجالانا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں۔ ترجمہ: ’’ اور اللہ کے لیے لوگوں پر اس گھر کا حج فرض ہے جو بھی اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو۔‘‘ (سورۃآلِ عمران:97)۔
بیت اللہ تک پہنچنے کی طاقت و قدرت سے مراد یہ ہے کہ اس کے پاس ضروریات اصلیہ سے زائد اتنا مال ہو جس سے وہ بیت اللہ تک آنے جانے اور وہاں کے قیام و طعام کا خرچہ برداشت کر سکے اور اپنی واپسی تک اپنے ان اہل و عیال کا بھی انتظام کر سکے جن کا نان و نفقہ اس کے ذمہ واجب ہے۔
حج کرنے کے بے شمار فضائل و برکات احادیث مبارکہ میں وارد ہوئی ہیں۔ ایک حدیث پاک میں آتا ہے رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص حج کا ارادہ رکھتا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ جلد کرے۔ ( ابودائود:901)۔
ایک حدیث میں آتا ہے سرکارِ دوعالمؐ نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے خاص اللہ کیلئے حج کیا اور اس میں فحش گوئی نہ کی تو وہ شخص اس دن کی مانند لوٹتا ہے جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔ ( بخاری:440، مسلم:149)
ذی الحجہ کے مہینے کی فضیلت یہ بھی ہے کہ اس کے پہلے دس روز ایسے ہیں کہ قرآن مقدس میں ٔ تعالیٰ نے اس کی دس راتوں کی قسم کھائی ہے، جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے :وَ الْفَجْرِ،وَ لَیَالٍ عَشْرٍ ’ فجر کے وقت کی اور دس راتوں کی قسم‘۔ مفسرین کرام کے مطابق یہ دس راتیں ذی الحج کے پہلے عشرے کی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اسی مہینے کی آٹھ تاریخ سے تیرہ تاریخ کی دوپہر تک پانچ دن ایسے مخصوص فرمائے ہیں، جس میں مال و دولت رکھنے والے مسلمان ( مرد و عورت) لوگوں کو زندگی میں ایک مرتبہ اللہ تعالیٰ کے گھر یعنی بیت اللہ بلایا جاتا ہے اور وہاں اِن مخصوص دنوں میں، مخصوص ہیئت کے ساتھ، مخصوص مقامات پر، مخصوص اوقات میں، مخصوص اعمال کرنے کو کہا جاتا ہے، اس کا اصطلاحی نام حج ہے۔ اِن پانچ دنوں میں صاحب استطاعت فرزندانِ اسلام دنیا کے چاروں طرف سے لاکھوں کی تعداد میں وہاں جمع ہوتے ہیں، بلاوا تو زندگی میں ایک مرتبہ ہے لیکن بعض خوش قسمت ایسے بھی ہیں جو ایک سے زائد مرتبہ یا ہر سال اہتمام سے عاشقانہ حاضری دیا کرتے ہیں۔ ذی الحجہ کی نو تاریخ کی فجر کی نماز کے بعد سے تیرہ تاریخ کی عصر کی نماز کے بعد تک ان پانچ دنوں میں ہر فرض نماز کے بعد پوری دنیا کے مسلمانوں ( مرد و عورت) کو ایک ذکر کرنے کو بتایا گیا ہے جس کا اصطلاحی نام تکبیر تشریق ہے، جس کے الفاظ یہ ہیں: اللہ اکبر اللہ اکبر لاالہ الااللہ واللہ اکبراللہ اکبر وللہ الحمد۔
مردوں کو یہ تکبیر قدرے بلند آواز سے پڑھنی ہوتی ہے اور عورتوں کو آہستہ آواز سے، اس تکبیر کا پڑھا جانا مرد و عورت دونوں پر واجب ہے۔ حضرت امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ حج کی وضع بالکل سفر آخرت کی سی ہے۔ مقصود یہ ہے کہ حجاج کو اعمال حج ادا کرنے سے مرنے کے بعد پیش آنے والے واقعات یاد آجائیں۔ مثلاً شروع سفر میں بال بچوں سے رخصت ہوتے وقت سکرات موت کے وقت اہل وعیال سے رخصت ہونے کو یاد کرو، اپنے وطن یا ملک سے باہر نکلتے وقت یہ سمجھو کہ تم فانی دنیا سے باہر نکل رہے ہو، سواری کے جانور یا آج کل جدید سواری کو جنازے کی چارپائی تصور کرو، احرام کی چادر کو کفن کی چادر شمار کرو، میقات حج تک پہنچنے میں جنگ بیاباں قطع کرتے وقت عالم برزخ یعنی قبر کی گہرائیوں کا تصور رکھو، لبیک اللھم لبیک کو قبروں سے اٹھنے اور میدان محشر میں حاضری کی صدا سمجھو۔ غرضے کہ اسی طرح ہر ایک عمل میں عبرت اور ہر معاملے میں آخرت کی یاد دہانی ہے۔ حج کا ایک اور مقصد یہ ہے کہ اس عبادت کے اندر اجتماعیت ہے۔ ہمارا دین ایک عالم گیر دین ہے۔ اگر کوئی شخص اپنے شہر کی مرکزی مسجد میں نماز ادا کرے تو نمازوں کا ثواب ملے گا۔ اسی طرح اگر اور اہم جگہ چلا گیا تو ثواب بڑھ جائے گا۔

جواب دیں

Back to top button