آن لائن شاپنگ کے کاروبار پر فراڈیوں کا قبضہ

آن لائن شاپنگ کے کاروبار پر فراڈیوں کا قبضہ
تحریر: رفیع صحرائی
ایک بات یاد رکھنی چاہیے کہ اکثر اوقات بندہ فراڈ یا دھوکہ دہی کا شکار لالچ کی وجہ سے ہوتا ہے۔ کم محنت یا بغیر محنت کیے بہت سی دولت حاصل کرنے کا خواب جب اس کی آنکھوں میں سجا دیا جاتا ہے تو آسانی سے ٹریپ ہو جاتا ہے۔ مارکیٹ سے بہتر اور سستی چیز اسے اپنی دسترس میں نظر آئے تو وہ اس کے حصول کے لیے دیوانہ ہو جاتا ہے۔
پاکستان دنیا کا شاید واحد ملک ہے جہاں جرائم کی روک تھام کی طرف بہت کم توجہ دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جرائم پیشہ افراد اپنا کام دھڑلے سے جاری رکھتے ہیں۔ جرائم کی روک تھام میں قانون کی حکمرانی کا موثر اور کلیدی کردار ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں بدقسمتی سے جتنا بڑا قانون شکن ہوتا ہے اسی قدر وہ معزز کہلاتا ہے۔ جرائم کی سزائیں نہ ملنے کے سبب قانون کے بعض رکھوالے بھی قانون شکن عناصر کے دست و بازو بن جاتے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سیاست دانوں اور حکمرانوں کی غلامی سے ہی فرصت نہیں ملتی وہ عوام کا کیا سوچیں گے۔ یہ ادارے حکمرانوں کی کٹھ پتلیاں بن کر رہ گئے ہیں۔ دوسری طرف مجرم قانونی موشگافیوں کا فائدہ اٹھا کر سزا سے بچ جاتے ہیں۔ یونہی تو ہم عدل و انصاف کے معاملے میں دنیا بھر میں پست ترین درجے تک نہیں پہنچے۔
ہمارے یہاں لوگ سرِعام فراڈ کا دھندہ کرتے ہیں۔ لٹنے والے دہائیاں دیتے رہ جاتے ہیں مگر ان کی کوئی نہیں سنتا۔ کبھی ڈبل شاہ کے روپ میں فراڈیے منظرِ عام پر آتے ہیں تو کبھی ہاسنگ سوسائٹی کا جھانسہ دے کر ایک سو پلاٹ کے بدلے بیس ہزار فائلیں بیچ کر عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں۔ یہ لوگ ڈیجیٹل سوشل میڈیا کے ذریعے کبھی بے نظیر انکم سپورٹ کے جعلی میسجز بھیج کر لوگوں کو ان کی کمائی سے محروم کرتے ہیں تو کبھی قرضہ دینے والی ایپس کے ذریعے عوام کو قرضے کے جال میں پھانس کر ان کی زندگی بھر کی کمائی سے محروم کر دیتے ہیں۔
لوٹنے کے نئے نئے ڈھنگ، نئے نئے طریقے ایجاد کر لیے جاتے ہیں۔ یہ فراڈیے خوب صورت خواتین کا سہارا لے کر ان کی مردوں سے آن لائن دوستیاں کرواتے ہیں اور کمزور لمحات کی تصاویر اور ویڈیوز بنا کر شکار کو بلیک میل کرتے ہیں۔ کچے کے ڈاکو بے شمار لوگوں کو ہنی ٹریپ کے ذریعے اغوا کر کے ان کے ورثا سے بھاری تاوان وصول کر چکے ہیں۔
یہ فراڈیے اور وارداتیے وقت کے ساتھ ساتھ اپنے طریقہ ہائے واردات میں بھی جدت لاتے رہتے ہیں۔ آج کل یہ آن لان فراڈ پر زیادہ زور دے رہے ہیں۔ کیونکہ خود سامنے آئے بغیر یہ لوگوں کی جیب سے رقم نکلوا لیتے ہیں۔
لوگ فطری تساہل یا وقت کی بچت کی خاطر آن لائن شاپنگ کی طرف تیزی سے آ رہے ہیں۔ بڑے بڑے ریستوران اور فاسٹ فوڈز کی شاپس آن لائن ڈلیوری کی سہولت دے رہی ہیں۔ کپڑوں، جوتوں، کاسمیٹکس اور الیکٹرانکس کی مستند کمپنیاں اور برینڈ بھی کیش آن لائن ڈلیوری کا سلسلہ شروع کر چکی ہیں۔ فراڈیوں نے اب اس میدان میں بھی قدم رکھ دیا ہے۔ وہ مشہور برینڈز کے ملتے جلتے ناموں سے سوشل میڈیا پر ایپس بنا لیتے ہیں اور اصلی مال کی تصاویر یا ویڈیوز اپ لوڈ کر دیتے ہیں۔ یہاں وہ چالاکی یہ کرتے ہیں کہ دکھائے گئے برانڈ کی قیمت اصل برانڈ سے قریباً آدھی یا اس سے بھی کم بتاتے ہیں۔ مثلاً مشہور برانڈ کا موبائل فون جس کی اصل قیمت ڈیڑھ لاکھ روپے ہو گی وہ آپ کو ساٹھ ہزار روپے میں دینے کی آفر کریں گے۔ ایک لاکھ روپے والا لیپ ٹاپ پچیس ہزار روپی میں دینے کی پیشکش کریں گے۔ کسی مستند برانڈ کے لیڈیز ڈریسز پر سیل لگا کر پچیس ہزار والا سوٹ دس ہزار میں آفر کریں گے۔ اب تو الیکٹرک بائیک پندرہ ہزار اور الیکٹرک کار پچاسی ہزار روپے میں آن لائن خریدنے کے لیے آپ کو پیش کی جا رہی ہیں۔ کسٹمرز کو اور کیا چاہیے۔ لالچ بری بلا ہے۔ ویسے بھی کیش آن ڈلیوری کی وجہ سے گاہک کو کسی فراڈ کا احساس تک نہیں ہوتا۔
فرض کیا گاہک نے ڈیڑھ لاکھ روپے قیمت والے موبائل فون کا آرڈر دے دیا ہے جو اسے ساٹھ ہزار میں مل رہا ہے۔ جوابی رابطہ کر کے گاہک کو بتایا جاتا ہے کہ سٹاک ختم ہو چکا ہے۔ اس برانڈ کی ڈیمانڈ کے سیکڑوں آرڈر آ چکے ہیں جبکہ ہماری اگلی کھیپ میں صرف پچاس موبائل فون آ رہے ہیں اگر آپ اپنا آرڈر کنفرم کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو آدھی رقم ایڈوانس دینی ہو گی۔ لالچ میں آیا ہوا گاہک بڑے منافع کے لالچ میں تیس ہزار آن لائن بھیج دیتا ہے۔ اب اس کا نتیجہ دو صورتوں میں نکل سکتا ہے۔ چند دن بعد گاہک کو کوریئر کے ذریعے خوب صورت پیکنگ میں پارسل مل جائے گا۔ گاہک باقی نصف قیمت ادا کر کے وہ پیکٹ وصول کر لے گا مگر جب اسے کھولے گا تو انتہائی گھٹیا برینڈ کا پرانا سا موبائل اس میں سے نکلے گا۔ ضروری نہیں کہ اس میں سے موبائل فون ہی نکلے، ڈنے میں سے پتھر کے ٹکڑے بھی برآمد ہو سکتے ہیں۔ دوسری صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ پیسے وصول کرنے کے بعد گاہک کو بلاک کر دیا جائے۔ اسے سوشل میڈیا پر وہ ایپ ہی نہ ملے۔ آن لائن کپڑے اور جوتے تو اکثر انتہائی گھٹیا کوالٹی کے ملتے ہیں۔ جو کچھ دکھایا جاتا ہے اس کا عشرِ عشیر بھی نہیں بھیجا جاتا۔
یاد رکھیے! پاکستان میں آن لائن شاپنگ کے نام پر ایسے بہت سے گروہ سرگرم ہیں جو اس مکروہ دھندے میں ملوث ہیں۔ ان سے خود بھی ہوشیار رہیں اور اپنے جاننے والوں کو بھی خبردار کریں۔