کرپٹو کی دوڑ : پاکستان کا آزمائشی سفر

کرپٹو کی دوڑ : پاکستان کا آزمائشی سفر
پیامبر
قادر خان یوسف زئی
لاس ویگاس میں ’’ بٹ کوائن 2025‘‘ کانفرنس میں پاکستانی وفد کے اعلان کو ملک میں جہاں پذیرائی ملی، وہیں تحفظات کی بھی ایک لہر اٹھی۔ بلال بن ثاقب، جو حکومت کے خصوصی معاون برائے کرپٹو اور بلاک چین ہیں، نے اس اعلان میں جس تبدیلی کی طرف اشارہ دیا، وہ صرف ایک معاشی منصوبہ نہیں بلکہ ریاستی بیانیے کی تشکیلِ نو بھی ہے۔ پاکستان میں کرپٹو کرنسی کا جادو، بہرحال، کسی سرکاری اجازت نامے کا محتاج نہیں رہا۔ عوام کی سطح پر اس کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دو کروڑ سے زائد پاکستانی کسی نہ کسی شکل میں اس مارکیٹ سے جڑے ہیں۔ پاکستان عالمی سطح پر کرپٹو اپنانے والے ممالک میں سرِفہرست ہے، اور اگر 2024ء کے عالمی انڈیکس کی بات کی جائے تو ملک نویں نمبر پر رہا۔
’’ پاکستان کرپٹو کونسل‘‘ کے قیام اور’’ پاکستان ڈیجیٹل ایسٹس اتھارٹی‘‘ کا قیام اس سمت میں حکومتی اقدامات کا مظہر ہے۔ ان اداروں کا قیام، کم از کم، یہ اعتراف ضرور ہے کہ کرپٹو کرنسی اب ایک حقیقت ہے اور اس کا انتظام اور ضابطہ بندی وقت کی اہم ترین ضرورت بن چکی ہے۔ حکومت نے جہاں کرپٹو پلیٹ فارمز کو ریگولیٹ کرنے، صارفین کو تحفظ دینے اور جدت کی حوصلہ افزائی کے وعدے کیے ہیں، وہیں 2000 میگاواٹ اضافی بجلی کو بٹ کوائن مائننگ کے لیے مختص کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ اگرچہ اس میں نیت بجا ہو سکتی ہے مگر عملی چیلنجز اپنی جگہ موجود ہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں لوڈ شیڈنگ اور بجلی کے بحران آئے دن کی بات ہیں، وہاں اضافی بجلی کا سوال بھی حقیقت پسندانہ ہے۔
اسی پس منظر میں امریکہ کی مثال بار بار پیش کی جاتی ہے۔ امریکہ نے بٹ کوائن ریزرو کے قیام کا اعلان کر کے ایک بار پھر عالمی مالیاتی پالیسیوں میں نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ پاکستان کا فیصلہ بھی اسی بین الاقوامی رجحان کے تحت لیا گیا ہے، جس کے مطابق کرپٹو کو سونے یا تیل کی طرح اسٹریٹجک اثاثہ قرار دیا جا رہا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ معاشی دبا کی صورت میں ریاست کے پاس ایسے اثاثے ہوں جو عالمی مالیاتی مارکیٹ میں فوری طور پر استعمال ہو سکیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ امریکہ کی مالیاتی، انتظامی اور تکنیکی صلاحیتیں پاکستان سے کئی گنا زیادہ ہیں۔یہاں اگر حکومتی فوائد پر بات کی جائے تو کرپٹو کرنسی بلاشبہ معاشی استحکام، تنوع اور لچک پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ معاشی بحران یا روپے کی گرتی ہوئی قدر کے دوران اگر ریاست کے پاس بٹ کوائن جیسا اثاثہ ہو تو اسے عالمی مارکیٹ میں فوراً کیش کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح اضافی بجلی کو بٹ کوائن مائننگ کے لیے استعمال کر کے آمدنی میں اضافہ کیا جا سکتا ہے، جو معیشت کے دیگر شعبوں کے مقابلے میں تیز اور با آسانی حاصل ہونے والی آمدنی ہے۔ دوسری طرف کرپٹو کرنسی مالی شمولیت کا بھی ایک مثر ذریعہ ہے۔ پاکستان میں 10کروڑ سے زائد افراد بینکنگ سہولتوں سے محروم ہیں۔ کرپٹو والیٹس، پیئر ٹو پیئر پلیٹ فارمز اور ڈیجیٹل فنانشل سروسز کے ذریعے یہ طبقہ مالی نظام میں شمولیت اختیار کر سکتا ہے، جس سے نہ صرف انفرادی بلکہ ملکی معیشت کو بھی تقویت ملے گی۔
ایک اور اہم پہلو غیر ملکی سرمایہ کاری اور ٹیکنالوجی کی ترقی ہے۔ اگر پاکستان بروقت واضح ضابطہ بندی متعارف کرا لے تو غیر ملکی سرمایہ کاری اور فِن ٹیک شعبے میں ترقی کے دروازے کھل سکتے ہیں۔ قومی اثاثہ جات یا حکومتی قرض کو ڈیجیٹل فارمیٹ میں ٹوکنائز کرنا ممکن ہو جائے گا، جس سے شفافیت اور لیکویڈیٹی میں اضافہ ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ ترسیلات زر کی لاگت میں کمی، تیز رفتار لین دین اور حکومت کو لین دین پر ٹیکس عائد کرنے کا موقع بھی ملے گا۔ یوں حکومتی آمدنی کے نئے ذرائع وجود میں آئیں گی اور بیرونی قرضوں پر انحصار کم ہوگا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان کا نوجوان طبقہ، جو ڈیجیٹل دنیا اور فری لانسنگ میں دنیا بھر میں اپنی منفرد پہچان رکھتا ہے، اس نئے مالی نظام کے ذریعے دنیا کے ساتھ براہ راست منسلک ہو سکتا ہے۔لیکن اس خواب کے پورا ہونے سے پہلے کئی تلخ حقیقتیں بھی ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ سب سے بڑا مسئلہ قانونی اور ریگولیٹری غیر یقینی صورتحال ہے۔ کسی بھی قسم کے واضح قوانین اور تحفظات کے بغیر یہ شعبہ منی لانڈرنگ، ٹیکس چوری اور مالی عدم استحکام کا شکار ہو سکتا ہے۔
انفراسٹرکچر کے مسائل بھی کچھ کم نہیں۔ بٹ کوائن مائننگ کے لیے کم نرخ والی اور مستحکم بجلی ضروری ہے، جبکہ پاکستان میں بجلی کے نرخ نہ صرف زیادہ بلکہ فراہمی بھی غیر مستحکم ہے۔ 0.20سے 0.22ڈالر فی کلو واٹ گھنٹہ بجلی کی قیمت پر بٹ کوائن مائننگ منافع بخش رہنا مشکل ہے، خصوصاً جب ایران یا کویت جیسے ممالک بجلی سستی فراہم کر رہے ہوں۔ سبسڈی کی صورت میں حکومتی آمدنی پر دبا اور اقتصادی توازن پر اثرات بھی سامنے آ سکتے ہیں۔ بین الاقوامی مالیاتی ادارے خاص طور پر آئی ایم ایف نے پاکستان کے کرپٹو منصوبے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ان کے نزدیک، کرپٹو لین دین کو باقاعدہ ٹیکس نیٹ میں لانے اور بجلی کے وسیع منصوبوں پر احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح، عوامی آگاہی، AML/KYCفریم ورک اور صارفین کے تحفظ کے بغیر اس شعبے میں فراڈ اور دھوکہ دہی کے خطرات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ دنیا بھر کے مالیاتی نظاموں میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جہاں آگاہی کم ہو، وہاں بدعنوانی اور مالیاتی نقصانات زیادہ ہوتے ہیں۔
فی الحال اسٹیٹ بینک نے ابھی تک کرپٹو کو قانونی حیثیت نہیں دی اور بینکوں کو اس سے دور رکھا ہے۔ سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن بھی پالیسی سازی میں شامل ضرور ہے مگر عملدرآمد پر مکمل خاموشی ہے۔ پاکستان ڈیجیٹل ایسٹس اتھارٹی کے قیام کو مثبت قدم ضرور کہا جا سکتا ہے، مگر اصل امتحان قانون سازی، نفاذ اور شفافیت میں ہے۔ جب تک واضح قانون سازی، مضبوط انفراسٹرکچر اور صارفین کا تحفظ یقینی نہیں بنایا جاتا، اس شعبے میں غیر یقینی اور خطرات موجود رہیں گے۔ پاکستان میں کرپٹو کرنسی کا منصوبہ اس وقت اہم ترین مرحلے میں ہے۔ ایک طرف عوامی اپنانے کی رفتار بے مثال ہے، دوسری طرف حکومت کی طرف سے باضابطہ جڑنے کا عندیہ بھی آ رہا ہے۔
اگر پاکستان اس موقع سے فائدہ اٹھا کر ریگولیٹری وضاحت، جدید انفراسٹرکچر اور مضبوط حفاظتی اقدامات متعارف کرا لے تو یہ منصوبہ معاشی استحکام، مالی شمولیت اور جدت کے حوالے سے نہایت مثبت نتائج دے سکتا ہے۔ لیکن یہ سب کچھ اسی وقت ممکن ہے جب قانونی ابہام دور کیا جائے۔ پاکستان کے لیے یہ فیصلہ صرف معاشی نہیں بلکہ حکومتی حکمتِ عملی، ریاستی عزم اور عوامی مفاد سے جڑا ہوا ہے۔