Column

پاک افغان تعلقات

پاک افغان تعلقات
تحریر : محمد مبشر انوار (ریاض)
پاکستان اور افغانستان کے مابین تعلقات کی نوعیت بھی عجیب ہے کہ دونوں پڑوسی ملک ہیں، دینی حوالے سے بھی اسلام کے ماننے والے ہیں لیکن اس کے باوجود باہمی تعلقات میں بالعموم سرد مہری ہی دکھائی دیتی ہے، کبھی کبھار کوئی خوشگوار جھونکا بھی دکھائی دیتا ہے لیکن پس پردہ معاملات کے حوالے سے ہمیشہ سرد مہری جھلکتی ہے۔ انگریز دور میں کھینچی گئی ڈیورنڈ لائن کے حوالے سے افغانستان کبھی بھی مطمئن دکھائی نہیں دیا اور ہمیشہ اس کا یہ دعوی رہا ہے کہ پاکستان کے بیشتر علاقے، افغانستان کا حصہ ہیں تاہم عالمی سطح پر سرحد بندی کے باوجود، افغانستان کا یہ دعویٰ، محض دعویٰ ہی کہلا سکتا ہے کہ زمینی حقائق بہت حد تک بدل چکے ہیں اور بہتری اسی میں ہے کہ ان حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے، عالمی سرحدوں کو تسلیم کر لیا جائے اور اچھے پڑوسیوں کی طرح زندگی پر امن طریقے سے گزاری جائے۔ ایک طرف یہ حقیقت ہے تو دوسری طرف ،یہ پاکستان ہی تھا کہ جس نے سوویت یونین کی جارحیت میں ، اپنے دروازے افغان مہاجرین پر کھول دئیے، یہاں اس امر کی تصحیح بھی ضروری ہے کہ افغان مہاجرین کے لئے صرف پاکستان نے ہی اپنے دروازے نہیں کھولے تھے، بلکہ کئی دیگر پڑوسیوں کی طرف سے بھی افغان مہاجرین کے لئے دروازے کھولے گئے تھے، تاہم دیگر ممالک کے برعکس پاکستان نے افغانوں کے لئے ہر طرح کی سہولت فراہم کی تھی۔ پاکستان نے انصار مدینہ کی یاد تازہ کرتے ہوئے، اخوت کی پیروی کرتے ہوئے، افغانیوں کے لئے پاکستان میں کاروبار کے کھلے مواقع فراہم کئے تھے، ابتداء میں ان کے ساتھ خصوصی نرمی کا برتائو کیا گیا تھا تا کہ ان کی دل آزاری نہ ہو، انہیں ہجرت کا کم سے کم درد محسوس ہو،ان کے لئے تجارت کے دروازے کسی بھی دوسرے عام پاکستانی شہری کی طرح کھلے تھے، پاکستان کے طول و عرض میں ان کے جانے پر کوئی پابندی نہیں تھی، پاکستان کے کسی بھی صوبے، شہر میں کاروبار کرنے کی کھلی آزادی اور یکساں مواقع تھے۔ اس آزادی کی وجہ سے ایک وقت ایسا بھی آیا تھا کہ کئی ایک شعبہ ہائے زندگی میں، افغانیوں کی اجارہ داری زبان زد عام تھی، اور افغانیوں نے ان مواقع سے بھرپور فائدہ بھی اٹھایا تھا لیکن وقت بھی کیا ظالم شے ہے، کہ جب یہی افغان، پاکستان کی مدد و حمایت سے فتح یاب ہوئے، ان کی نظروں میں اجنبیت بخوبی دیکھی گئی۔ سوویت یونین کی پسپائی کے بعد، قائم ہونے والی سخت گیر طالبان حکومت، کو سب سے پہلے تسلیم کرنے میں بھی پاکستان سب سے آگے تھا اور پاکستان ہی کی کاوشوں سے بمشکل چند خلیجی ریاستوں نے طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا لیکن طالبان حکومت کی سخت گیری، ان کی عالمی سطح پر تسلیم کرنے میں رکاوٹ بنی۔ بعد ازاں، امریکی خواہشات اور اس کے مقاصد کے حوالے سے، مجاہدین کی تعریف، امریکی لغت میں تبدیل ہوئی اور کل کے مجاہدین دہشت گرد ٹھہرائے گئے، نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کے مشوروں کے برعکس طالبان حکومت نے اپنی سخت گیری قائم رکھی، گو کہ اس میں فقط اسامہ بن لادن کا حوالہ کافی نہیں بلکہ کئی ایک دیگر معاملات میں طالبان کی سخت گیری ان کے لئے عالمی مسائل کا باعث بنی۔
علاوہ ازیں! افغانوں کو ہمیشہ پاکستان کے عسکری ذرائع سے تحفظات رہے اور وہ پاکستانی عسکری ذرائع سے شاکی رہے۔ ان کے نزدیک پاکستانی عسکری ذرائع کی جانب سے ،افغانوں کو عالمی سطح پراستعمال کیا گیا،پاکستانی عسکری ذرائع نے ذاتی مفادات کی جنگ ،افغانوں کے کندھے استعمال کرتے ہوئے لڑی ،لہذا پاکستانی عسکری ذرائع کا یہ جرم ناقابل معافی ٹھہرا۔ حتی کہ پاکستانی عسکری ذرائع کے خلاف زہر نسلوں تک منتقل کیا جا چکا ہے اور اس کا چھوٹا سا ثبوت ،کرکٹ کے میدانوں میں افغان تماشائیوں کا ،پاکستان کے خلاف رویہ ہے،حالانکہ پاکستان نے میسر تمام تر وسائل سے افغان کرکٹ کی آبیاری کی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ راشد خان جیسا عالمی معیار کا سپنر، جس کا بچپن پاکستان میں گزرا، پاکستان کے خلاف وہ زہر اگلتا ہے،کہ خدا کی پناہ!!! جبکہ یہی افغان کھلاڑی اور ان کا بورڈ،بھارت کے ساتھ،پیار محبت کی پینگیں بڑھانے میں ذرا سا بھی تامل سے کام نہیں لیتا بلکہ بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی میں ہمیشہ پیش پیش رہا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے ساتھ براہ راست سرحد ہونے کے باوجود،بھارت کے ساتھ ایسے پینگیں بڑھائی جاتی ہیں کہ جیسے یک جان دوقالب ہوں،امریکی آشیرباد سے افغانستان میں قائم حکومتوں کے سربراہ،واضح طور پر پاکستان کے خلاف صرف ہرزہ سرائی تک محدود نہیں رہے بلکہ انہوں نے اپنے ادوار میں ،بھارت کو ہر طرح کی سہولت کاری فراہم کرتے ہوئے،پاک افغان سرحد کے ساتھ ساتھ،بھارت کو کئی ایک قونصلیٹ کھولنے کی اجازت دی،جہاں سے بھارت بلا روک ٹوک پاکستان میں مداخلت کرتے ہوئے،پاکستان کی خودمختاری و سالمیت کے خلاف تقریبا دو دہائیوں تک بروئے کار آتا رہا۔پاکستان کے باربار توجہ دلانے کے باوجود،افغان حکومت کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی کہ اس کی پشت پناہی ایک طرف امریکہ بہادر کر رہا تھا تو دوسری طرف بھارت کی جانب سے،ترقیاتی کاموں کے نام پر، تجوریوں کے منہ کھلے ہوئے تھے،حامد کرزئی اور اشرف غنی کے فرار ہونے پر یہ حقائق بھی کھل چکے ہیں کہ دونوں سربراہان نے کس طرح امریکی امداد اور بھارتی ڈالر ڈکارے۔ تنگ آمد بجنگ آمد پاکستان نے افغان سرحد پر باڑ لگا کر اس معاملے کو نپٹانے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود اتنی طویل سرحد پر موثر نگرانی انتہائی مشقت طلب کام ہے،سو کہیں نہ کہیں سے افغانوں کی جانب سے اس باڑ کی خلاف ورزی دیکھنے کو ملتی رہتی ہے تاہم پاکستانی سکیورٹی فورسز پوری جانفشانی سے اس کٹھن نگرانی سے عہدہ براء ہونے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اس کے باوجود، صورتحال یہ ہے کہ سرحدوں پر ایک وقت میں افغانستان کی فورسز بلاجواز اشتعال انگیزی میں مصروف بھی دکھائی دیں اور پاکستانی فورسز پر فائرنگ کرتی دکھائی دیں، پاکستان کی جانب سے انتہائی تحمل و بردباری کا مظاہر ہ کیا گیا اور انہیں سمجھانے کی کوششیں جاری رہی تاہم جب معاملات حد سے بڑھنے لگے تو افغانستان کے شرارتی عناصر کو خاموش کرانے کے لئے، پاکستانی فورسز کی جانب سے کیا جانے والا ایک فائر ہی کافی رہا جو تیر بہدف ثابت ہوا اور افغانی فورسز کی بلا اشتعال فائرنگ رک گئی، لیکن اس میں نقصان کس کا ہوا؟۔
یہ تو اس وقت کی بات ہے جب پاکستان کا مشرقی بارڈر خاموش تھا،حیرت تو اس وقت ہوئی جب رواں ماہ بھارت کی جانب سے پاکستان پر چڑھائی ہوئی،تو ایسے وقت جب تمام مسلم ممالک پاکستان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے تھے، افغانستان کے نائب وزیر داخلہ نے بھارت کا خفیہ دورہ کیا،جس کی تمام تر تفصیلات اب ذرائع ابلاغ پر آ چکی ہیں۔اس خفیہ دورہ کا کیا مقصد تھا،اس کے متعلق کچھ کہنے،سننے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی کہ جب دیگر اسلامی ممالک ،پاکستان کے ساتھ کھڑے تھے،ایسے وقت میں افغانستان کے نائب وزیر داخلہ کا دورہ بھارت،حقائق کو خود طشت ازبام کرتا ہے کہ بھارتی خواہشات کے مطابق اگر بھارت کو فوری بھاری نقصان نہ ہوتا تو عین ممکن تھا کہ پاکستان کی مغربی سرحد سے بھی جارحیت ہوتی اور پاکستان کو سینڈوچ بنایا جاتا،نعوذ باللہ خاکم بدہن،تاہم پاکستانی افواج نے اس کی نوبت نہیں آنے دی اور بھارت کو کاری زخم پہنچائے،جن کو وہ ابھی تک چاٹ رہا ہے اور تلملا رہا ہے۔ بھارت کے امریکی پاؤں پڑنے اور جنگ بندی کروانے کے باوجود بھارت عالمی دوروں کے لئے اپنا وفد بھیج رہا ہے تا کہ اس شرمندگی و خفت کو مٹانے کے ساتھ ساتھ انتقامی کارروائی کے لئے راہ ہموار کر سکے تو دوسری طرف پاکستان بھی سفارتی محاذ پر سرگرم دکھائی دے رہا ہے۔ ایک طرف پاکستانی وزیر اعظم اہم دوروں پر ہیں تو دوسری طرف نائب وزیر اعظم چین کا دورہ کر کے واپس پہنچ چکے ہیں اور اب صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کی مغربی سرحدوں سے یہ خبر آرہی ہے کہ افغانستان،اپنی زمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے کے لئے سخت کارروائی کے لئے تیار ہے تا کہ پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو ازسر نو استوار کرے۔ یہاں یہ حقیقت ضرور مد نظر رہے کہ چین نے اس جنگ میں ہر طرح سے پاکستان کی مدد کی ہے تو دوسری طرف چین سعودی عرب و ایران کے درمیان بھی معاملات کو سلجھانے میں اہم ترین کردار ادا کرچکا ہے جبکہ افغانستان میں انفراسٹرکچر کے لئے چین نے انتہائی بڑے بڑے منصوبوں پر سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ چین کا پاکستان کے ساتھ رشتہ انتہائی الگ نوعیت کا ہے اور چین کسی بھی صورت یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ پاکستان کی سالمیت پر کوئی آنچ آئے،لہذا افغانستان کی جانب سے حالیہ بیان کا نہ صرف خیرمقدم کیا جانا چاہئے بلکہ اس میں چین کے کردار،اثرورسوخ کو کسی بھی صورت فراموش نہیں کیا جانا چاہئے کہ اس وقت چین پوری دنیا میں انتہائی خاموشی کے ساتھ پس پردہ رہ کر معاملات کو سلجھانے میں اپنا کردار ادا کررہا ہے۔ امید ہے کہ چین کی اس خاموش سفارت کاری کے نتیجہ میں پاک افغان تعلقات،سلجھ جائیں گے،ان شاء اللہ

جواب دیں

Back to top button