تحمل کی پالیسی ہمیں نہ لے بیٹھے

تحمل کی پالیسی ہمیں نہ لے بیٹھے
تحریر : سیدہ عنبرین
عقل بازار میں سجی دکانوں پر دستیاب ہوتی تو بہتوں کا بھلا ہوتا، ہر شخص اپنی ضرورت کے مطابق خرید لیتا، امیر غریب کچھ اسے استعمال کرتے، کچھ فریج میں سنبھال رکھتے، تاکہ اس وقت استعمال کریں جب اس کے بغیر گزارا ممکن نہ ہو، ایک فائدہ یہ ہوتا کہ ہماری کتابوں، نصابوں اور روز مرہ زندگی سے یہ طعنہ نکل جاتا کہ فلاں کے پاس تو عقل نام کی کوئی چیز نہیں ہے، جس پر جب الزام لگتا تو وہ جیب سے ایک پڑیا یا نسوار کی ڈیبہ سے ملتی جلتی ڈیبہ کھول کر دکھا دیتا کہ نہیں ایسا بھی مفلوک الحال نہیں ہوں۔ یہ دیکھ عقل موجود ہے، تمہیں چاہیے تو تم بھی ایک چٹکی لے سکتے ہو، پھر دوسرے کی مرضی ہوتی ہے، اس چٹکی بھر عقل کو پڑیا بنا کر جیب میں رکھتا، نسوار کی طرح کلے میں دبا لیتا یا ناک میں چڑھا لیتا اور اتراتا پھرتا۔ عقل بازار میں دستیاب ہوتی تو نقد کے ساتھ ساتھ ادھار کا رواج بھی ہوتا، عقل کی ترقی کے بعد ’’ بائے ون گیٹ ون فری‘‘ رجھان بھی دیکھنے میں آتا۔ یہ سب کچھ دستیاب نہیں، آئندہ صدی میں بھی ممکن نہیں، پس ضروری ہے عقل کی بات یا عقل کا کام دشمن بھی کر رہا ہو تو اسے اپنانے میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے۔
معرکہ حق ہماری طرف سے اختتام کو پہنچا، ہمارے دشمن بھارت کی طرف سے جاری ہے، وہ تواتر سے حملے کی دھمکی دیتا ہے، دشمن میڈیا نے طوفان اٹھائے رکھا، لیکن بریکنگ اور بازی لے جانے کے شوق اور دوڑ میں ان خبروں، ان اطلاعات پر بات نہیں کی، بلکہ اس طرف سی مکمل آنکھیں بند رکھیں، جن میں ان کی سبکی اور شکست کا پہلو نمایاں تھا، ہمارے یہاں اس معاملے میں درکار احتیاط نہیں برتی گئی جس کا قلق ہے۔
ایک بڑی خبر جیسے بھارتی میڈیا اور سوشل میڈیا نے دبائے رکھا وہ سات رکنی فرانسیسی ٹیم کا دورہ بھارت ہے، جس میں رافیل جہاز بنانے والی کمپنی کے ڈیزائنر، انجینئرز کے علاوہ اسلحہ سازی کے ماہر شامل تھے، کہا جا سکتا ہے وہ رافیل جہازوں کے جنازے اٹھانے آئے تھے، یہ ایسے جنازے تھے جنہیں ہندو مذہب کے مطابق چتا تیار کر کے اوپر منوں کے حساب سے تیل یا خالص گھی ڈال کر آگ لگانے کی نوبت نہیں آئی، انہیں پاکستان ایئر فورس کے شاہینوں نے فضا میں ہی انجام تک پہنچا دیا۔ ان کے جلے اور ادھ جلے ٹکڑے دور دور تک بکھر گئے، جنہیں کرین کی مدد سے اکٹھا کیا گیا، بھارتی حکومت اور فوج کی تمام تر کوشش کے باجود ٹکڑوں میں بٹے جہاز دنیا کی نظروں سے چھپائے نہ جا سکے، حالانکہ ان پر فوراً ہی چمکیلے کور ڈال دئیے گئے تھے۔
فرانسیسی ماہرین کے دورہ بھارت کی خبر اس وقت باہر آئی جب حکومت فرانس نے اسے جاری کیا، ورنہ بھارت کبھی اس حوالے سے کسی فورم پر کوئی بات نہ کرتا، فرانسیسی ماہرین نے چڑیوں کی طرح مرنے اور گرنے والے رافیل جہازوں کو سنبھالنے والی بھارتی ٹیم کے اعلیٰ افسروں سے طویل ملاقاتیں کیں اور مختلف پہلوئوں کا جائزہ لیا، بھارت اس پر بھی کبھی بات نہیں کرے گا، لیکن فرانس کی حکومت اور رافیل طیارہ ساز کمپنی کے ذمہ دار اس پر ضرور بات کریں گے۔ لڑاکا جہاز کھلونے نہیں ہوتے، نہ ہی کھلونوں کی طرح تیار کئے جاتے ہیں۔ بری، بحری یا فضائی فوج میں استعمال ہونے والا اسلحہ کسی بھی ملک کا تیار کردہ کیوں نہ ہو سب سے پہلے اس کا میکنیکل خاکہ تیار کیا جاتا ہے، پھر اس کی مختلف ڈرائینگز تیار کی جاتی ہیں، اس حوالے سے یہ بات پیش نظر رکھی جاتی ہے کہ لڑکا طیارے، ٹینک، توپیں، میزائل یا دیگر اسلحہ کتنی اقسام کا مارکیٹ میں موجود ہے، اس کی اہمیت اور خاصیت کیا ہے، وہ پہلے سے موجود اسلحے سے ممتاز کیوں ہو گا، اس کی قیمت کیا اور کیوں ہو گی اور سب سے اہم بات کہ اس کے ممکنہ خریدار کون ہونگے۔ یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ دنیا اس وقت مختلف بلاکوں میں بٹی ہوئی ہے۔ امریکی بلاک اور یورپی بلاک کے علاوہ چینی اور روسی بلاک قابل ذکر ہیں۔ امریکی اور یورپی ممالک ایک دوسرے کے قریب ہیں، اسی طرح چینی اور روسی بلاک میں شامل ممالک شاید بظاہر ایک دوسرے کے اتنے قریب نہ ہوں لیکن وہ کسی بھی قسم کا بھاری اور مہنگا ترین اسلحہ خریدنے سے پہلے بعض پہلوئوں پر بہت غور کرتے ہیں، اسی طرح اسلحہ فروخت کرنے والے ممالک بھی اپنا اسلحہ بیچنے سے قبل یہ دیکھتے ہیں کہ ان کا خریدار اپنا اسلحہ کہاں اور کس ملک کے خلاف استعمال کر سکتا ہے، اسلحہ فروخت کرنے والا ملک بعض اوقات اپنے خریدار پر پابندی لگا دیتا ہے کہ ا س کا اسلحہ اس کے حلیف ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو گا۔ پاکستان نے اگر امریکہ سے کچھ اسلحہ خریدا تو اس نے ساتھ ہی یہ پابندی لگائی کہ اسے بھارت کے خلاف استعمال نہیں کیا جائیگا، کیونکہ بھارت اس کا حلیف اور اس کے لئے ایک بڑی مارکیٹ ہے، دیگر ممالک بھی اس سے ملتی جلتی سوچ رکھتے ہیں۔
پاکستان کے ہاتھوں رافیل کی تباہی سے فرانسیسی طیارہ ساز کمپنی کو جان کے لالے پڑ چکے ہیں، بھارت نے ابھی مزید رافیل طیارے خریدنے کا آرڈر دے رکھا ہے جبکہ دنیا کے بعض دیگر ممالک بھی اس طیارے کی خریداری میں دلچسپی رکھتے تھے، انہوں نے اس کے آرڈر بھی بک کرا دیئے تھے، کچھ ایسے تھے جو ابھی سوچ رہے تھے، یہ تمام ممالک پاک بھارت جنگ سے بہت خوش ہیں، لیکن اپنی سفارتی مجبوریوں کے ساتھ مجبور ہو کر اپنی خوشی کا برملا اظہار نہیں کر سکتے، انہیں بیٹھے بٹھائے رافیل کی آزمائش کا موقع ملا ہے، اس کی کارکردگی جہاز خریدنے کے بعد سامنے آتی تو اور بات تھی لیکن کئی سودے ایسے ہیں جو ابھی کاغذوں میں بھی مکمل نہ ہوئے تھے کہ دنیا نے رافیل تماشہ دیکھ لیا، رافیل سے زیادہ یہ بھارتی پائلٹوں کی کارکردگی کا بھی تماشہ ہے جسے بھارت چھپانے کیلئے سرتوڑ کوششیں کر رہا ہے تا کہ اپنی ناک بچا سکے، لیکن ناک تو ایک ہی رات میں کٹ گئی، اب اسے دوبارہ آنے میں وقت لگے گا، پھر ضروری نہیں وہ سیدھی بھی ہو، وہ ٹیڑھی بھی ہو سکتی ہے اور کاسمیٹک سرجری کے ماہر بھی شاید اسے ٹھیک نہ کر سکیں۔
رافیل طیارہ ساز کمپنی اپنے طیارے کی ساکھ بحال کرنے کیلئے اور بھارت اپنی فضائیہ کی ساکھ بحال کرنے کیلئے سر جوڑے بیٹھے ہیں، دونوں اگلی جنگ میں زیادہ تیاری کے ساتھ کودیں گے، ہماری طرح بعض معاملات میں تحمل کی پالیسی اختیار نہیں کریں گے، ہم حتمی فتح تک پہنچ کر تحمل کا دامن تھام لیتے ہیں، جانے کیوں۔ سائبر اٹیک میں کامیابی کے بعد تحمل سے کام لینے کی تفصیلات سامنے آئی ہیں، تحمل کی پالیسی کہیں ہمیں نہ لے بیٹھے۔