Column

عزم و قربانی سے لبریز یوم تکبیر

عزم و قربانی سے لبریز یوم تکبیر
تحریر : ڈاکٹر ضرار یوسف
برصغیر کی تقسیم کے فورا بعد ہی بھارت نے اپنا ایٹمی پروگرام 1948ء میں شروع کیا ، بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے 1948ء میں Atomic Energy Commission(AEC) قائم کیا۔ اپنے اس پروگرام میں توسیع کرتے ہوئے ،1954ء میں Department of Atomic Energy (DAE)کا قیام عمل میں لایا ۔ اور اپنے اس پروگرام میں کینیڈا اور امریکہ سے دوہرے استعمال کی ٹیکنالوجی حاصل کی ( Dual-Use Technology )جو سویلین اور فوجی مقاصد میں استعمال ہو سکتی تھی ۔ اس مقصد کے لئے کینیڈا اور امریکہ نے بھارت کو CIRUS ری ایکٹر 1954ء میں دیا ۔ اور امریکہ نے اس ری ایکٹر کے لیے ہیوی واٹر جس کو کیمسٹری میں D،Oکہا جاتا ہے فراہم کیا۔
بھارت نے اپنے پروگرام کو پایا تکمیل تک پہنچانے کے لئے فرانس ، مغربی جرمنی ، سویت یونین سے بھی مدد حاصل کی اور اس شعبہ میں استعمال ہونے والے آلات حاصل کئے ۔ بھارت نے ان ذرائع اور الات کو استعمال کر کے پلوتونیم پروسیسنگ، یورینیم افزودگی، اور ڈیٹونیٹر ڈیزائن میں مہارت حاصل کی۔
منیر احمد خان ، 1958ٗ میں انٹرنیشنل ایٹامک ایجینسی میں بطور سینئر ٹیکنیکل آفیسر P۔5میں تعینات ہوئے اور یہ پہلے پاکستانی اور ایشیائی سائنسدان تھے ۔ جو عالمی اٹامک ایجنسی میں سائنسدان تھے ۔ منیر خان ایک محب وطن پاکستانی تھے ۔ جن کو بھارتی سرگرمیوں کا بخوبی علم تھا ۔ اور وہ ذوالفقار علی بھٹو سے اس کا تذکرہ بھی کرتے ۔ ذوالفقار علی بھٹو 1963ء میں وزیر خارجہ بنے ۔ ذوالفقار علی بھٹو دور اندیش صاحب بصیرت شخصیت تھے اور وہ پاکستان کے اردگرد ہونے والے تغیر و تبدلات پہ گہری نظر رکھتے تھے۔ اسی لئے وہ بھارت کے ایٹمی پروگرام کی بابت خبر رکھتے اور جب بھی موقع ملتا ڈاکٹر منیر احمد خان سے ملاقات کرتے اور اس بابت معلومات حاصل کرتے ۔
ذوالفقار علی بھٹو نے 1965ء کی جنگ کے بعد ڈاکٹر منیر احمد خان اور صدر جنرل ایوب خان کی اہم ملاقات ستمبر 1965ء میں ویانا، آسٹریا کے ایک ہوٹل ایمبیسڈر میں ملاقات کا بندوبست کروایا ۔ صدر ایوب خان اس وقت بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA)کی سالانہ کانفرنس میں شریک تھے۔ یہ ملاقات 1965ء کی پاک، بھارت جنگ کے فوراً بعد ہوئی، جب بھارت نے ایٹمی طاقت بننے کی کوششیں تیز کر دی تھیں۔ ڈاکٹر منیر احمد خان اُس وقت IAEA میں کام کر رہے تھے اور ان کے بین الاقوامی ایٹمی ماہرین و سائنسدانوں سے قریبی رابطے میں تھے۔ ڈاکٹر منیر احمد خان نے جنرل ایوب خان سے ون ٹو ون ملاقات میں تجویز دی کہ پاکستان کو بھی بھارت کا مقابلہ کرنے کے لیے ایٹمی ٹیکنالوجی پہ کام کرنا چاہئے اور ایٹمی ہتھیار بنانے کی تیاری کرنی چاہیے۔ جنرل ایوب خان نے یہ کہہ کر تجویز مسترد کر دی اور کہا کہ(Pakistan cannot afford the luxury of nuclear weapons) ’’ پاکستان ایک غریب ملک ہے۔ ہم ایٹم بم بنانے کا خرچ نہیں اٹھا سکتے‘‘۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’’ ہمارا دوست ملک امریکہ ہم سے ناراض ہو جائے گا ۔ اگر ضرورت پڑی تو چین سے خرید لیں گے‘‘۔
جنرل ایوب خان نے اس وقت ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری میں دلچسپی نہیں دکھائی۔ منیر احمد خان ملاقات کر کے ہوٹل کی لابی میں تشریف لائے جہاں ذوالفقار علی بھٹو ان کے منتظر تھے۔ منیر خان نے بھٹو صاحب کو سارے گفتگو بتائی تو ذوالفقار علی بھٹو نے منیر احمد خان کو کہا ’’ ہماری باری آئے گی اور ہم کریں گے‘‘۔
کینیڈا اور پاکستان نے پاکستان کے پہلے ایٹمی بجلی گھر کراچی نیوکلیئر پاور پلانٹ (KANUPP-1)، کی تعمیر کے لئے 1965ء میں معاہدہ کیا یہ منصوبہ کینیڈا کی جنرل الیکٹرک کمپنی اور پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن (PAEC)کے درمیان معاہدے کے تحت شروع ہوا ۔ یہ پلانٹ CANDUٹیکنالوجی پر مبنی تھا ۔ جو قدرتی یورینیم اور بھاری پانی استعمال کرتا ہے۔ معاہدے میں یہ بھی شامل تھا کہ کینیڈا پاکستان کو مسلسل بھاری پانی (D2)، فاضل ہرزہ جات اور تکنیکی مدد دے گا ۔ اس پلانٹ کی تنصیب 1971ء میں مکمل ہوئی ۔ اس پلانٹ پہ کل لاگت تقریباً 63ملین امریکی ڈالر ائی جس کا بڑا حصہ کینیڈا نے قرض کی صورت میں فراہم کیا۔ یہ پہلا پاکستان اور کینیڈا کے درمیان غیر فوجی ایٹمی معاہدہ تھا۔
دسمبر 1971ء میں پاکستان کے مشرقی حصے ( موجودہ بنگلہ دیش) کے سقوط کے بعد، ذوالفقار علی بھٹو نے 20دسمبر 1971 ء کو پاکستان کی بھاگ ڈور سنبھالی اور کئی انقلابی ترقیاتی تبدیلیاں کیں ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد 20جنوری 1972ء کو رکھی، جب انہوں نے مری، راولپنڈی میں سائنسدانوں اور انجینئرز کا ایک اہم اجلاس بلایا۔ اس اجلاس کو ’’ مری کانفرنس‘‘ کہا جاتا ہے، جہاں انہوں نے پاکستان کے لیے ایٹم بم بنانے کے عزم کا اظہار کیا۔ اس پروگرام کا مقصد بھارت کے خفیہ ایٹمی پروگرام کے برابر جواب دینا تھا ۔ اس پراجیکٹ کو Project-706کا کوڈ نام دیا گیا تھا ۔ اور اسی وقت منیر احمد خان کو PAECکا چیئرمین مقرر کیا ۔ پاکستان نے ایٹم بم منصوبہ پر باقاعدہ طور پر کام شروع کیا۔
بھارت نے اپنا پہلا ایٹمی دھماکہ 18مئی 1974ء کو کیا۔ یہ دھماکہ راجستھان کے علاقے پوکھران میں واقع پوکھران ٹیسٹ رینج میں کیا گیا۔ اس دھماکے کو ’’ مسکراتا بدھا‘‘ (Smiling Buddha)کا کوڈ نام دیا گیا تھا۔ ایٹمی دھماکے کی تخمینی طاقت تقریباً 8سے 12کلو ٹن TNTکے برابر تھی۔ ہیروشیما پہ 6اگست 1945ء کو گرائے جانے والے لٹل بوائے نامی بم جس کی طاقت 15کلو ٹی این ٹی اور ناگاساکی پہ 9اگست 1945ء کو گرائے جانے والے فیٹ مین نامی بم کی طاقت 21کلو ٹی این ٹی کے برابر تھی۔ جبکہ بھارت کے 1974ء کے دھماکے کی طاقت ہیروشیما پہ گرائے گئے بم سے کم تھی ۔ بھارت کے 1974ء میں جوہری تجربے کے بعد، جس میں کینیڈا کی فراہم کردہ ٹیکنالوجی استعمال ہوئی تھی۔ کینیڈا نے proliferationکے خدشات کا بہانا بنا کر امریکی دبائو کے پیش نظر 1976ء میں پاکستان کے ساتھ ایٹمی تعاون ختم کر دیا۔ اس تعاون کو جاری رکھنے اور جرمنی اور سویڈن کی اس شعبہ میں تعاون کی درخواست کرنے کے لئے ذوالفقار علی بھٹو نے کینیڈا ، سویڈن اور جرمنی کا فروری 1976ء میں دورہ کیا جس میں کینیڈا کے وزیراعظم پیئر ٹروڈو سے ملاقات کی ۔ لیکن کینیڈا ، امریکی دبائو میں تھا ۔ اس کے بعد، پاکستان نے KANUPP-1کے لیے ضروری ایندھن اور پرزہ جات کی مقامی تیاری شروع کی، اور پلانٹ کو کامیابی سے چلایا۔ پاکستان نے چین کے تعاون سے مزید ایٹمی بجلی گھر تعمیر کیے، جیسے کہ KANUPP-2اور KANUPP-3، جو جدید Hualong Oneٹیکنالوجی پر مبنی ہیں۔
جناب ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے 1976ء میں پاکستان اور فرانس کے درمیان ایٹمی ری پروسیسنگ پلانٹ کے حصول کا معاہدہ کیا ۔ یہ ایک فنی و تجارتی معاہدہ تھا ۔ جس کے تحت فرانس نے پاکستان کو نیوکلئیر فیول ری پروسیسنگ پلانٹ فراہم کرنا تھا ۔ اس پلانٹ کی تنصیب چشمہ ہونا تھی ۔ اس معاہدے پر دستخط 18مارچ 1976ء کو اسلام آباد میں ہوئے تھے۔ جس پہ پاکستان کی طرف سے ڈاکٹر منیر احمد خان ( اس وقت پاکستان اٹامک انرجی کمیشن (PAEC) کے چیئرمین) جبکہ فرانس کی طرف سے فرانسیسی ایٹمی توانائی کمیشن (CEA)کے نمائندے ، عام طور پر معاہدوں پر فرانس کے توانائی یا خارجہ امور کے اعلیٰ عہدیدار، یا فرانس کی ایٹمی ایجنسی Cogemaکے نمائندے دستخط کرتے تھے، لیکن اس مخصوص معاہدے میں Cogemaشامل تھا ۔
( نوٹ: Cogema(Compagnie Générale des Matières Nucléaires) اس وقت فرانس کی سرکاری ایٹمی ری پروسیسنگ کمپنی تھی، جو بعد میں Arevaبنی)۔
پاکستان اور فرانس کے اس معاہدے کی تکمیل اور حوالگی کا منصوبہ تقریباً 5سالہ مدت پر مبنی تھا۔ پلان کے مطابق، اگر سب کچھ معمول کے مطابق چلتا تو پلانٹ کی تعمیر اور تنصیب کا عمل 1977۔1981 ء کے درمیان مکمل ہونا تھا۔ اور 1981ء کے آس پاس یہ پلانٹ پاکستان کے حوالے کر دیا جانا تھا۔ اس پلانٹ کی گنجائش تقریباً 100ٹن ایندھن سالانہ ری پروسیس کرنے کی تھی۔ پلانٹ کی تنصیب میں فرانسیسی انجینئرز اور تکنیکی ماہرین کی شمولیت بھی شامل تھی۔
ہنری کسنجر (Henry Kissinger)جو 1976ء میں امریکہ کے وزیر خارجہ (Secretary of State)کے عہدے پر فائز تھے۔ انہوں نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو محدود کرنے کی کوشش کے دوران پاکستان اور فرانس کے درمیان ایٹمی ری پراسیسنگ پلانٹ کے معاہدے کو روکنے کے لیے متعدد دبا کے حربے استعمال کیے۔ خاص طور پر 8،9اگست 1976ء میں پاکستان کا دورہ کیا ۔ جب پاکستان اور فرانس کے درمیان یہ معاہدہ طے پا چکا تھا، تو امریکہ نے سخت مخالفت کی۔ لاہور شاہی قلعہ میں 9اگست 1976ء کو ہنری کسنجر نے اپنے اعزاز میں دی جانے والی ضیافت میں وزیراعظم پاکستان کو کئی سیاسی فوجی اور مالی رشوت دینے کی پیشکش کی ۔ امریکی حکومت نے پاکستان پر ایٹمی ری پروسیسنگ پلانٹ کے فرانس کے ساتھ معاہدے کو ختم کرنے کے لیے دبائو کے ساتھ ساتھ ترغیب (incentives) بھی دی تھیں۔ ان میں ایک اہم پیشکش B-52بمبار طیاروں کی ایک محدود تعداد دینے کی تھی۔ اصل میں B-52 Stratofortressامریکہ کا ایک اسٹریٹجک بمبار طیارہ تھا جو ایٹمی اور روایتی ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ اس کے علاوہ پاکستان کو B-52طیاروں کے متبادل یا اس کے ساتھ کچھ معاون طیارے، جیسے F-104 Starfighter یا A-7 Corsair II جیسے ہتھیاروں کی ترسیل کی بات چیت کی پیشکش کی گئی ۔مگر یہ بھی رپورٹ کیا جاتا ہے کہ B-52طیاروں کی پیشکش ایک علامتی دبائو کا حربہ تھا یعنی امریکہ نے پاکستان کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ اگر وہ تعاون کرے گا، تو اسے اعلیٰ درجے کی فوجی ٹیکنالوجی تک رسائی دی جا سکتی ہے، چاہے عملی طور پر وہ مکمل نہ ہو۔ لیکن ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کے دفاع کو مضبوط اور ناقابل تسخیر کرنے کے مصمم ارادے سے اس کے جواب میں کہا تھا’’ ہم گھاس کھا لیں گے لیکن ایٹم بم بنائیں گے‘‘۔ اور ساتھ ہی جناب بھٹو کو دھمکی دی گئی اور کہا کہ اگر آپ نے فرانس سے ایٹمی ری پراسیسنگ کا معاہدہ ختم نہ کیا تو ’’ آپ کو خوفناک مثال بنا دیا جائے گا ‘‘۔
پاکستان کی پانچویں قومی اسمبلی کے ممبران جنہوں نے 14اگست 1972ء کو حلف لیا تھا قانون کے مطابق 14اگست 1977ء کو تحلیل ہونا تھی ۔ مگر بھٹو صاحب کو معلوم تھا کہ عالمی طاقت ان کے محب وطن ہونے کے جرم میں خون کی پیاسی ہے ۔ لہذا قبل از وقت الیکشن کرائے ۔سی آئی اے نے الیکشن اور بعد از الیکشن نام نہاد تحریک نظام مصطفی پہ بھاری فنڈنگ کی جس کا اعتراف کئی پی این اے کے لیڈر کر چکے ہیں ۔ اور پھر ضیائی ٹولے نے سازشیں کر کے عدالتی سہارا لے کر اپنی طرف سے جناب ذوالفقار علی بھٹو کو خوفناک مثال بنا دیا ۔ لیکن بھٹو آج بھی راج کرتا ہے دوستوں کے دلوں پہ اور دشمنوں کے اعصاب پہ ۔ جنرل محمد ضیاء الحق نے 1977ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد امریکہ کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر اٹھنے والے خدشات کو کم کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے امریکی حکام کو مختلف مواقع پر زبانی اور تحریری طور پر یہ یقین دہانیاں کرائیں کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے، اور پاکستان ایٹم بم بنانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ یہ یقین دہانیاں صرف زبانی نہیں تھیں بلکہ تحریری یقین دہانیاں کرائی گئیں ۔ صدر جمی کارٹر (President Jimmy Carter)کو ضیاء الحق نے کئی بار یقین دہانی کرائی کہ پاکستان ایٹم بم بنانے کی کوشش نہیں کر رہا۔ اس دوران امریکی نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر زبیگنیو بریعنسکی اور سیکرٹری آف سٹیٹ سائرس وینس کے ساتھ بھی ان کے رابطے رہے ۔ اس دوران ریگن انتظامیہ (President Ronald Reagan) کو بھی ضیاء نے یہی یقین دہانیاں دیں۔ بلکہ امریکی حکام کو تحریری یقین دہانی کہ پاکستان ایٹم بم بنانے کے لیے یورینیم کی افزودگی کو مخصوص حد سے آگے نہیں بڑھائے گا۔ منیر احمد خان جو پاکستان اٹامک انرجی کمیشن (PAEC)کے چیئرمین تھے اور 1972ء سے ایٹمی تحقیق اور ری ایکٹرز کے معاملات سنبھال رہے تھے۔ اورڈاکٹر عبدالقدیر خان جنہوں نے 1976ء میں کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز (KRL)کی بنیاد رکھی، جس کا مقصد یورینیم کی افزودگی (enrichment)تھا۔
جناب ذوالفقار علی بھٹو دور میں ہی ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ایٹمی پروگرام میں شامل کر کے کہوٹہ لیبارٹریز کو قائم کیا گیا ۔ مگر پاکستان اٹامک انرجی کمیشن اور چیئرمین منیر احمد خان مرکزی کردار ادا کر رہے تھے ۔ ڈاکٹر عبد القدیر کا ایٹم بم یا اس کے دھماکے سے کوئی تعلق نہیں تھا ۔ یہ سب منیر احمد خان کے زیر نگرانی کام چل رہا تھا ۔ منیر احمد خان نے 1980ء میں چاغی کے مقام پہ گرینائٹ کے مضبوط پہاڑوں میں بم دھماکے کے لئے سرنگیں کھدوائی جس کی بابت مختلف ذرائع سے جو اندازے لگائے گئے ہیں، ان کے مطابق تخمینی طول ( لمبائی) تقریباً 600سے 800میٹر تک ( بعض ذرائع کے مطابق ایک کلومیٹر سے زائد) گہرائی زمین کی سطح سے تقریباً 400سے 500میٹر گہرائی میں کھودا گیا جس کا قطر ( Diameter )2.5سے 3میٹر، تاکہ تکنیکی آلات اور بم آسانی سے اندر لے جائے جا سکے اور اس سرنگ کی شکل Lیا Sشکل کی مڑی ہوئی بنوائی، تاکہ دھماکے کی براہ راست لہر واپس نہ آئے (shockwave deflection)) سخت چٹان ( گرینائٹ) میں کھودی گئی ۔ تاکہ تابکاری روکی جا سکے ۔ اس کے بعد جنرل ضیاء نے رفتہ رفتہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور KRLکو زیادہ خودمختاری دی ۔ اُنہیں براہِ راست فوج اور اعلیٰ سول قیادت تک رسائی دی گئی ۔ جب کہ منیر احمد خان اور PAECکے اثر و رسوخ کو محدود کر دیا گیا۔1981-82ء کے بعد ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے میڈیا میں انٹرویوز اور کامیابیوں کا تذکرہ بڑھنے لگا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جنرل ضیاء کی پشت پناہی اُنہیں حاصل تھی، اور اُنہیں ’’ ہیرو‘‘ کے طور پر پیش کیا جانے لگا ۔ کے آر ایل اور پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے درمیان ایک واضح مقابلہ اور اختیارات کی تقسیم پیدا ہو گئی ۔ جس میں ضیاء الحق نے KRLکو واضح ترجیح دی۔ جنرل ضیاء نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ادارے کے اختیارات کو بڑھایا اور منیر احمد خان کے PAECکے اثر کو کم کیا۔ یہ عمل مکمل طور پر چند سالوں میں ہوا ۔ خاص طور پر 1980ء کے عشرے کے آغاز میں یہ فرق نمایاں ہو گیا۔ بعض حلقے زیر لب اعتراف کرتے ہیں کہ جنرل ضیاء کو منیر احمد خان کا ایٹم بم اور اس کے تجرباتی دھماکے میں تیز رفتاری قطعی ناپسند تھی۔ کیوں کہ امریکہ کی ناراضی کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا ۔
محترمہ بینظیر بھٹو دو بار وزیراعظم بنیں ( پہلی بار 1988-1990اور دوسری بار 1993-1996)، تو ان کے دورِ حکومت میں ایٹمی پروگرام کو جاری رکھنے اور محفوظ بنانے کے لیے اور پاکستان کے ایٹمی سائنسدانوں کو وسیع وسائل فراہم کئے گئے تا کہ ایٹمی پروگرام تیز رفتاری سے منزل مقصود تک جا پہنچے اور میزائل پروگرام ( خاص طور پر Ghauri میزائل) کو بھی فروغ ملا جس سے پاکستان کے دفاع کو استحکام ملا۔ غوری میزائل پاکستان کا ایک بیلسٹک میزائل (Ballistic Missile)جو ایک درمیانے فاصلے تک مار کرنے والا تقریباً 1300کلومیٹر تک مار سکنے والا بھارت کے اہم علاقوں تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ پاکستان کے لیے ایک ڈیٹرنس ( روک تھام) کا موثر ذریعہ ہے۔ یہ میزائل جوہری اور روایتی دونوں طرح کے وارہیڈز لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ جس سے یہ پاکستان کی سٹریٹیجک ڈیٹرنس فورس کا حصہ بنا۔ یہ میزائل پاکستان کے اپنے سائنسی اور دفاعی اداروں کی مدد سے تیار کیا گیا ۔ جو ٹیکنالوجیکل خود مختاری کی علامت ہے۔ غوری میزائل کی نمائش اور تجربات دشمن پر ایک نفسیاتی دبا ڈالنے کا ذریعہ بنے ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو 27دسمبر 2007ء کو لیاقت باغ دہشتگردی کے سفاکانہ حملے میں شہید کر دیا گیا ۔ اس قتل پہ امریکی صحافی سیمور ہرش (Seymour Hersh)نے انکشاف کیا کہ سابق امریکی نائب صدر ڈک چینی (Dick Cheney) کے زیرِ نگرانی ایک ’’ ڈیتھ اسکواڈ‘‘ نے ان کا قتل کیا۔ یہ خبر امریکی میگزین فارن پالیسی (Foreign Policy)، دی امریکن اسپیکٹرم امریکی اخبار اور پاکستان کے ڈان ، دی نیشن کے علاوہ کئی عالمی اخبارات نے شائع کی ۔ اس میں یہ بھی بتایا گیا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کا جرم پاکستان کو میزائل ٹیکنالوجی سے آراستہ کرنا تھا ۔ سیمور ہرش ایک ایسے صحافی ہیں جن کو پولیٹزر پرائز ،جارج پولک ایوارڈ ، نیشنل میگزین ایوارڈ ،رابرٹ ایف کینیڈی جرنلزم ایوارڈ اور رامن میگسیسے ایوارڈ دیئے گئے ہیں ۔ سیمور ہرش نے بعد میں محترمہ کے قتل پہ دیئے بیان سے منحرف ہو گئے اور بیان کو غلط فہمی قرار دیا۔ بعض سنیئر تجزیہ کاروں کا اندازہ ہے کہ سیمور ہرش سی آئی اے کے دبا کی بنیاد پہ اپنے بیان سے منحرف ہوئے ہیں ۔
بھارت نے 11اور 13مئی 1998ء کو پوکھران میں پانچ ایٹمی دھماکے کیے، جس کے بعد پاکستان پر شدید عوامی، عسکری اور سیاسی دبا آیا کہ وہ بھی اپنی ایٹمی صلاحیت کا مظاہرہ کرے۔ نواز شریف کو ایٹمی دھماکے کرنے کے فیصلے کی وجوہات میں سے چند ایک بھارت کے دھماکوں کے بعد علاقائی طاقت کا توازن بگڑ گیا تھا۔ پاکستان کو اپنے دفاع اور ڈیٹرنس ( روک تھام) کے لیے جواب دینا ضروری سمجھا گیا۔
پاکستانی فوج اور عوام کی اکثریت نے مطالبہ کیا کہ پاکستان کو بھی ایٹمی طاقت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ پاکستان کی اپوزیشن، میڈیا، اور عوام نے ایٹمی دھماکوں کا مطالبہ کیا۔ جس کی وجہ سے نواز شریف کے لیے یہ سیاسی طور پر ناگزیر ہوگیا تھا۔
امریکہ نے ایٹمی دھماکے روکنے کے لیے پاکستان کو مختلف قسم کی پیشکشیں کیں۔ ان میں تقریباً 4سے 5ارب ڈالر کی امداد یا قرض دینے کی پیشکش کی گئی۔ دھماکہ نہ کرنے کی صورت میں اقتصادی پابندیاں نہ لگانے کا وعدہ کیا۔ پاکستان کی سیکیورٹی کو عالمی سطح پر تسلیم کرنے کی بات کی گئی، یعنی بھارت کے حملے کی صورت میں امریکہ پاکستان کا ساتھ دے گا۔ جس پہ کبھی اعتبار نہیں کیا جا سکتا تھا ۔ اقوام متحدہ اور عالمی برادری میں پاکستان کو اہم معاملات پر حمایت کی پیشکش کی۔ جبکہ کشمیر کا معاملہ آج تک لٹکا ہوا ۔
نواز شریف نے تمام دبائو اور پیشکشوں کے باوجود 28مئی 1998ء کو بلوچستان کے ضلع چاغی میں چھ ایٹمی دھماکے کیے۔ اس اقدام کے بعد پاکستان دنیا کی ساتویں اور مسلم دنیا کی پہلی ایٹمی طاقت بن گیا۔ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے اور میزائل ٹیکنالوجی سے آراستہ کرنے والے اور اپنے ملک کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کے مقصد کی خاطر اپنی جان کی قربانی دینے والی عظیم لیڈروں کا کوئی مقابل نہیں ہے اور قوم کو یہ یاد رکھنا ہو گا ۔

ضرار یوسف

جواب دیں

Back to top button