پنجاب کنٹرول آف غنڈہ ایکٹ

پنجاب کنٹرول آف غنڈہ ایکٹ
تحریر: تجمّل حسین ہاشمی
آج حامد میر صاحب کا کالم ’’ ہم سب امید سے ہیں‘‘ نظر سے گزرا، جس میں انہوں نے ڈاکٹر محمد یونس بٹ کی نئی کتاب ’’ شناخت پریڈ 2‘‘ کا ذکر کیا۔ کتاب میں شامل خاکے خاصے دلچسپ ہیں، حتیٰ کہ ایکٹر میرا کا خاکہ بھی شامل ہے۔ کالم بھی خاصا دلکش اور دلچسپ ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب سمیت کئی متحرک سیاستدانوں کے خاکے اس کتاب میں بیان کیے گئے ہیں۔ قومی اخبارات میں ایک خبر شائع ہوئی، جس میں بتایا گیا کہ پنجاب حکومت نے ’’ پنجاب کنٹرول آف غنڈہ ایکٹ 2025‘‘ کا مسودہ تیار کیا ہے، جس کا مقصد سماج دشمن عناصر کو نکیل ڈالنا ہے۔ اس مسودے کی نوعیت بھی دلچسپ ہے۔ محکمہ داخلہ پنجاب نے اس ایکٹ کے تحت امن و امان اور معاشرتی فلاح کے لیے خطرہ بننے والے عناصر کو قانون کی گرفت میں لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایکٹ 2025غنڈوں کی شناخت، نگرانی اور روک تھام کے لیے ایک جامع قانونی فریم ورک فراہم کرے گا۔ مجوزہ ایکٹ کے مطابق غنڈہ یا بدمعاش ایسے شخص کو قرار دیا گیا ہے جو عادتاً بدنظمی، مجرمانہ سرگرمی یا سماج مخالف رویے میں ملوث ہو، اور جو امن و امان کے لیے خطرہ اور عوامی پریشانی کا سبب بنے، اس کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ لفظ ’ غنڈہ‘ عام طور پر جرائم پیشہ عناصر، بدمعاشوں یا ان افراد کے لیے استعمال ہوتا ہے، جو محلے، ادارے یا علاقے میں دوسروں کو اپنے خوف سے زیر اثر رکھتے ہیں۔ ویسے اس وقت صورتحال واقعی خراب ہے۔ معاشرتی فلاح کے لیے قانون سازی بظاہر خوش آئند ہے لیکن حیرانی تب ہوتی ہے جب ان سیاسی کرداروں کا ذکر نہیں ہوتا جنہوں نے ملک کو لوٹا اور کھا گیا۔ حکومت پنجاب کو اچانک معاشرے کی بہتری یاد آ گئی، مگر حقیقی غنڈوں کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ ہمارے ہاں جس کا زور چلتا ہے، وہ قانون سازی سے رجسٹر بھر دیتا ہے اور جیسے چاہے قوانین میں ترمیم کرا لیتا ہے۔ جو بھی حکمران آیا، اس نے عوام کو ہی الزام دیا۔ ووٹ لینے کے لیے جھوٹے دعوے اور وعدے کرنے والوں سے کبھی کوئی باز پرس نہیں ہوئی۔ پکڑ دھکڑ ہمیشہ مزدوروں کی ہوتی ہے، وہی جو گندم کی قیمت، بجلی، پانی، بچوں کی تعلیم اور دوائی سے محروم ہیں۔ حکومت کی بے حسی اور ناانصافی پر احتجاج کرنے والے ہی خطرناک کہلاتے ہیں۔ ویسے پنجاب پر طویل عرصے حکمرانی کرنے والی جماعت کو اب ایسی قانون سازی کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ آوازیں دبانے کے لیے پیکا ایکٹ ہی کافی تھا۔ عوام کی محرومی، اربوں روپے کی کرپشن پر حکمرانوں کے پاس کوئی جواب نہیں۔ نظام کمزور نہیں ہوتا، حاکم اسے کمزور کرتے ہیں۔ کوئی فرد مجرم پیدا نہیں ہوتا، حالات اسے مجرم بنا دیتے ہیں۔ معاشی و سماجی حالات کو بہتر بنانا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ مرغی چوری پر سالوں جیل اور خزانہ لوٹنے والوں کو پروٹوکول ملتا ہے، تو ایسے میں قانون کی عزت کیسے رہے گی؟ ہمارے ہاں آج تک کسی سیاسی یا سرکاری عہدیدار میں یہ ہمت نہیں ہوئی کہ وہ عوام کے سامنے اپنی غلط پالیسی یا فیصلے کا اعتراف کرے۔ نعروں کی سزا ہمیشہ عوام نے بھگتی، حکمران معاہدے کر کے نکل جاتے ہیں اور جلا وطنی کو اپنے مفاد میں استعمال کرتے ہیں۔ جب بھی اعتراف کا وقت آیا، صرف دو الفاظ ’’ میرے ریزگنیشن سے اگر مسئلہ حل ہو جاتا ہے تو میں تیار ہوں‘‘، کے بعد ہر طرف خاموشی چھا گئی۔ پنجاب کنٹرول آف غنڈہ ایکٹ 2025اگر واقعی امن لا سکتا ہے تو ضرور نافذ کیا جائے، مگر قومی خزانہ لوٹنے والوں کو بھی قانون کے شکنجے میں لایا جائے۔ اگر اپنا نام بنانا ہے تو کڑوا گھونٹ بھی پینا ہوگا۔ ڈاکٹر یونس بٹ ڈونلڈ ٹرمپ پر طنز کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’ مانا پیسے سے محبت نہیں ملتی لیکن محبوبہ تو ملتی ہے ناں‘‘ ۔ ٹرمپ مکمل بزنس مین ہے، وہ یہ نہیں سوچتا کہ اس کے صدر بننے سے امریکہ کو کیا فائدہ ہوگا، وہ صرف یہ سوچتا ہے کہ اسے کیا فائدہ ہوگا۔ اگر حکمرانوں کی سوچ یہی ہو تو پھر کسی معاشرے میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ فراڈ کرنے والے آزاد گھومیں گے اور معصوم شہری ان کا شکار بنتے رہیں گے۔ ہمارے ہاں کیا کچھ نہیں ہوا، عوام اور اداروں نے کیا کچھ برداشت نہیں کیا، جان سے بڑھ کر کیا ہوتا ہے؟ ہزاروں افراد لا قانونیت اور دہشت گردی کا شکار ہو چکے ہیں، مگر پنجاب ہو یا وفاق، کہیں بھی فلاحی ریاست کا تصور نظر نہیں آتا۔ قانون سازی آسان ہے لیکن انسانی رویوں میں مثبت تبدیلی لانے کی کوئی کوشش دکھائی نہیں دیتی۔ اپنی مرضی سے جو چاہا کیا، جو چاہا کروا لیا، لیکن اب یہ دن نہیں چلیں گے، تبدیلی کا آغاز ہو چکا ہے