Column

غزہ جل رہا اور ہم سو رہے ہیں

غزہ جل رہا اور ہم سو رہے ہیں
از قلم: نتاشا بنت محمد امیر خان
شام کا وقت تھا۔ میں اپنے گھر کے لان میں بیٹھی تھی، قدرت کے حسین نظاروں میں کھوئی ہوئی۔ فضا میں ہلکی خنکی تھی اور ہوا میں پھولوں کی مہک گھلی ہوئی تھی۔ پر امن لمحے تھے، مگر ایک لمحے میں سب بدل گیا۔ موبائل کی سکرین پر ایک خبر ابھری: ’’ غزہ میں فضائی حملہ، ایک ہی خاندان کے آٹھ افراد شہید‘‘۔ میرے دل میں کچھ ٹوٹا۔ یہ صرف ایک خبر نہ تھی، یہ ایک چیخ تھی۔ ایک بے بسی کی صدا، جو صدیوں سے سنی جا رہی ہے، مگر سنی نہیں جا رہی۔
یہ صرف غزہ کے لوگوں کی کہانی نہیں، یہ انسانیت کی ناکامی کی داستان ہے۔ وہاں ایک ماں اپنے تین بچوں کو کھانا کھلا کر جیسے ہی سونے کے لیے لٹاتی ہے، چھت اُس پر ملبے سمیت آن گرتی ہے۔ وہ ماں اپنی سانسوں کے آخری لمحوں میں بچوں کو بازوئوں میں سمیٹے رکھتی ہے، جیسے کہہ رہی ہو، ’’ اگر بچ نہ سکے تو میرے ساتھ دفن ہو جانا، تنہا نہ رہ جانا‘‘۔
ایک اور گھر میں نو عمر لڑکی سائرن کی آواز پر چھت سے نیچے دوڑتی ہے۔ اس کے قدموں میں جمی مٹی اُڑتی ہے، آنکھوں میں خوف ہے، اور دل میں بس ایک سوال: ’’ کیا آج کی رات ہماری آخری ہے؟‘‘۔ غزہ کی گلیاں خاموش ہیں، مگر ہر اینٹ، ہر در و دیوار، ہر اجڑا گھر ایک کہانی سناتا ہے۔ وہاں کا ہر بچہ وقت سے پہلے بڑا ہو چکا ہے۔ اُن کے کھلونوں کی جگہ اب گولیوں کے خول اور ٹینکوں کی آوازیں ہیں۔ ان کے ہنسی کے دن چھن چکے، اور نیند میں صرف دھماکوں کی بازگشت باقی ہے۔
زیادہ دور مت جائیے، ذرا اپنی گلی میں جھانک کر دیکھیے۔ ہم اپنے بچوں کو سکون، تعلیم، محبت، اور تحفظ دینا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ مگر غزہ کی مائیں، روز اپنے بچوں کو سُلا کر آنکھوں میں آنسو لیے بس ایک دعا کرتی ہیں: ’’ اےرب، کل کی صبح دیکھنے کو مل جائے‘‘۔
غزہ وہ سر زمین ہے جہاں لاشیں گنیں نہیں جاتی، بلکہ دعائوں میں لپیٹی جاتی ہیں۔ جہاں کفن سفید نہیں، مٹیالا ہوتا ہے اور قبر خود بخود تیار ہو جاتی ہے، کیونکہ وہاں وقت نہیں کہ تدفین کا بندوبست کیا جا سکے۔
یہاں ایک ماں جب اپنے بیٹے کی لاش کو گلے لگاتی ہے، تو کہتی ہے: ’’ شہید ہو کر تم نے میرے ماتھے کا جھومر روشن کر دیا ہے‘‘۔
یہ وہ خطہ ہے جہاں چھوٹے چھوٹے بچے اپنے ہاتھوں میں پتھر لیے ٹینکوں کا مقابلہ کرتے ہیں، جہاں آنکھوں میں خوف نہیں ، شہادت کی چمک ہوتی ہے۔
کیا کبھی کسی مہذب دنیا میں ایسا ہوا کہ اسپتالوں پر بم برسائے گئے ہوں؟ کہ ایمبولینس کو نشانہ بنایا گیا ہو؟ کہ لوگوں کو زندہ درگور کیا گیا ہو؟ نہیں، یہ صرف غزہ میں ہوتا ہے اور دنیا اسے ’’ حقِ دفاع‘‘ کہہ کر خاموش ہو جاتی ہے۔ سوال یہ نہیں کہ غزہ کیوں جل رہا ہے، سوال یہ ہے کہ باقی دنیا کیوں ٹھنڈی ہے؟ یہ انسانیت کے نام پر ایک بدنما داغ ہے، کہ لاکھوں لوگ بے گھر، بے لباس، بے دوا، اور ہم سوشل میڈیا پر ’’ پروفائل فریم‘‘ لگا کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے حق ادا کر دیا؟
غزہ کے بچے کوئی فگر نہیں، کوئی گنتی نہیں، وہ ہر ایک شہید، ایک چیخ ہے، جو ہماری بے حسی کو جھنجھوڑ رہی ہے۔ یاد رکھو، اگر آج ہم خاموش رہے، تو کل ہمارے گھروں کے دروازے بھی محفوظ نہیں ہوں گے۔ غزہ جل رہا ہے اور ہم سو رہے ہیں۔ اگر دل میں درد ہو، تو آواز اٹھائو! اپنے الفاظ کو تلوار بنائو، اپنی تحریر کو فریاد بنائو، اپنے ضمیر کو جگائو! کیونکہ جب تاریخ لکھی جائے گی، تو یہ ضرور لکھا جائے گا: ’’ غزہ کے بچوں نے ظلم کے سامنے ڈٹ کر جان دے دی اور دنیا نے صرف آنکھیں موند لیں‘‘۔
یہ ظلم کی انتہا ہے، مگر اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ دنیا چپ ہے۔ وہ طاقتیں جو انصاف اور آزادی کے نعرے لگاتی ہیں، وہ اب بہری ہو چکی ہیں۔ ان کے ضمیر پر سیاست کی دبیز چادر ہے، جس میں انسانیت گھٹ کر دم توڑ رہی ہے۔
اور ہم؟ ہم سوشل میڈیا پر ایک تصویر شیئر کر کے سمجھتے ہیں کہ ہم نے حق ادا کر دیا؟ نہیں، یہ کافی نہیں۔ آواز اٹھانا، مظلوم کے ساتھ کھڑا ہونا، اپنے دائرے میں ظلم کے خلاف بولنا، یہ سب ہمارے ذمے ہے۔
غزہ میں بہنے والا خون، ہمیں جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ایک قوم اس وقت تک مر نہیں سکتی، جب تک وہ مزاحمت کرنا نہ چھوڑے۔ غزہ کے لوگ ہارے نہیں، ٹوٹے نہیں، بکھرے نہیں۔ ان کی آنکھوں میں اب بھی امید ہے، اور ہمیں اس امید کو طاقت دینی ہے۔
ہمیں غزہ کی چیخ کو سننا ہوگا، اسے الفاظ دینا ہوں گے، اور دنیا کے ضمیر کو جگانا ہوگا۔ کیونکہ جب تاریخ لکھی جائے گی، تو صرف ظالموں کے ظلم کا نہیں، خاموشوں کی خاموشی کا بھی حساب ہوگا۔
ایک بار ایک فلسطینی لڑکے سے کسی صحافی نے پوچھا: ’’ تم ہر روز جنگ کے سائے میں جیتے ہو، تمہیں ڈر نہیں لگتا؟‘‘ لڑکے نے نظریں اٹھا کر کہا، ’’ ڈر لگتا ہے۔۔۔ مگر زندہ رہنے سے زیادہ، ہمیں عزت سے مرنے کا شوق ہے‘‘۔
یہ جملہ کسی قوم کا منشور بن جائے تو اسے کوئی شکست نہیں دے سکتا۔
غزہ کے ان بچوں، مائوں، بوڑھوں، جوانوں نے ہمیں ایک سبق سکھایا ہے کہ، اصل طاقت بندوق نہیں، سچ ہوتا ہے۔ اور سچ کو دبایا جا سکتا ہے، ختم نہیں کیا جا سکتا۔
آئیے، اپنے قلم، آواز، اور جذبے کو اس سچ کے ساتھ جوڑیں۔ آئیے! ہم بھی غزہ کے لوگوں کی طرح کھڑے ہوں، بے سرو سامان، مگر غیرت مند۔
کیونکہ اگر آج ہم خاموش رہے، تو کل ہماری چیخیں بھی کوئی نہ سنے گا۔

جواب دیں

Back to top button