شہر خواب ۔۔۔

موڈ
شہر خواب ۔۔۔
صفدر علی حیدری
ڈپریشن عہد جدید کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ کہتے ہیں ہر چار میں سے کوئی ایک فرد اس کا شکار ہے۔ کچھ میں یہ اثر نمایاں ہوتا ہے کچھ اس کو اپنے اندر چھپائے پھرتے ہیں۔ ہمارا سماج اب تک نفساتی امراض کو پاگل پن ہی سمجھتا ہے۔ وہ اسے مرض نہیں سمجھتا ۔ شاید کچھ لوگ اس لیے بھی اپنے ڈپریشن کو کھلے تسلیم نہیں کرتے۔ اور اسی لیے کسی نفسیاتی معالج کے پاس جانے سے اکثر کتراتے ہیں۔ اگر سچ کہوں تو ان کے پاس اس کا کوئی حل ہے بھی نہیں ۔
یاد پڑتا ہے کہ میں نے اپنے معالج ڈاکٹر عبد الشکور صاحب سے پوچھا تھا کہ میرا علاج کتنا عرصہ چلے گا تو ان کا جواب تھا آٹھ سے دس سال۔ وہ میری ان سے آخری ملاقات تھی۔ اگلے چار ماہ میں میں مکمل طور پر صحت یاب ہو چکا تھا۔ اس بات کو آٹھ سال ہو چکے ۔ یہ ایک لمبی داستان ہے کہ دوا کے بنا میں ٹھیک کیسے ہوا ؟ کچھ تو خیر میں اپنے کالم ’’ ڈپریشن اور اس کا علاج‘‘ میں لکھ ہی چکا ۔ کوئی سال بھر پہلے یہ کالم تین قسطوں میں شائع ہوا تھا۔ وہ کالم بعد میں ایک ہفت روزہ میں بھی شائع ہوا تھا۔ مجھے لگتا ہے تحریر میں نے قلم سے نہیں دل سے لکھی تھی۔ میں نے ڈپریشن کی واحد وجہ ایمان کی کمی ہے۔ اللہ سے انسان کے تعلق کا کمزور پڑ جانا۔
انسان کی خدا فراموشی اسے خد فراموشی کی دلدل میں ڈال دیتی ہے پھر وہ جتنا ہاتھ پائوں مارتا ہے اتنا تیزی سے اس میں دھنستا جاتا ہے ۔
میں نے اس میں جو روحانی عمل تحریر کیا تھا، مجھے یقین ہے کہ اس پر عمل کرنے سے انسان بنا دوائی کے ٹھیک ہو سکتا ہے۔ میں نے درجن بھر لوگوں کو وہ ورد بتا کر ٹھیک کیا ہے جو میں پڑھتا رہا ہوں جس کا اثر کسی معجزے سے کم نہیں ۔ کالم کے آخر اس میں اس کا ذکر کر دیا جائے گا
ڈپریشن کا ایک اہم علامت ہے موڈ کا آف رہنا ۔ انسان خوش نہیں ہو پاتا ۔ اس کا کسی کام میں دل نہیں لگتا ۔ نہ بولنے کا دل کرتا ہے ، نہ کسی کو سننے کا جی چاہتا ہے ۔ وہ خاموش اداس اور مایوس رہنے لگتا ہے ۔ روشن دن میں بھی اسے اندھیرا دکھتا ہے ۔ ہر کسی پر شک کرنا ، ہر بات کا منفی پہلو دیکھنا اس کی عادت بن جاتی ہے ۔ وہ تنہائی پسند ہو جاتا ہے ۔ ہا پھر دوستوں کے ساتھ وقت گزارنے کی کوشش کرتا ہے ۔ ہر دو صورتوں میں اس کا ڈپریشن مزید بڑھتا ہے ۔ بھوک اڑ جاتی ہے ، نیند روٹھ جاتی ہے ۔ خود کشی کے خیالات اس کے ذہن پر سوار رہتے ہیں ۔ ان سب کیفیات کا زیادہ بات کرنے سے بہتر ہے کہ اس کی وجوہات پر بات ہو ، تا کہ اس کا حل ڈھونڈنے میں آسانی ہو بزرگ فرماتے ہیں کہ جس میں یہ تین باتیں ہوں گی وہ خوشی کو ترسے گا پہلی چیز بغض و عناد ہے ، کینہ ہے ۔ اسے خیالات کی کمینگی کہنا بے جا نہ ہو گا ۔ انسان کی سوچ اس کا اصل ہوتی ہے ۔ انسان کی اپنی مرضی ہوتی ہے کہ وہ کیا سوچ سوچے لیکن ۔۔۔ بغض کا مریض سوچوں کا غلام بن کر رہ جاتا ہے ۔ وہ دوسروں کے بارے کبھی مثبت انداز سے نہیں سوچتا ۔ اس کے اندر موجود منفی سوچیں اس کے وجود کو جھلسانے لگتی ہیں ۔ وہ گیلی لکڑی کی طرح سلگتا ہے ۔ یہ آگ اس کے کینسر جیسی مہلک بیماری پیدا کر دیتی ہیں ۔ ہر شخص اپنی سوچوں کا جائزہ لے کر اندازہ لگا سکتا ہے کہ وہ کس مقام پر ہےدوسری چیز حسد ہے جس کی مذمت سے اخلاقی کتب کا دامن چھلکتا ہے ۔ یہ ہماری نیکوں کو ایسے کھا جاتی ہے جیسے خشک لکڑی کو آگ۔
انسان کسی کی خوشی کسی کی کامیابی دیکھ نہیں سکتا۔ جل بھن جاتا ہے۔ مجھے نہیں ملا اسے کیوں ملا ۔ مجھے ملے نہ ملے اس کو بالکل بھی نہ ملے۔ اس سے چھن جائے ۔ حاسد کبھںی بھی راضی برضا نہیں ہوتا ۔ وہ یہ ایمانی جملہ نہیں کہہ پاتا’’ تیری مرضی میرے مولا تو جس حال میں رکھے ‘‘۔
دوسروں کی چیزوں پر نظر نہ رکھنے سے اس سے بچائو ممکن ہے ۔ مومن رشک تو کر سکتا ہے مگر حاسد کبھی نہیں کو سکتا مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ہم میں سے بہت سے اس دامن بچا نہیں پاتے۔ ہم یہ تک نہیں سوچتے کہ حسد سب بیماریوں کی ماں ہے ۔
تیسری بات جو انسان کو خوش ہونے نہیں دیتی ہے وہ ہے بد اخلاقی ۔ انسان بات نہیں کرتا کاٹ لیتا ہے ۔ یوں لگتا ہے وہ جواب نہیں دیتا لٹھ مارتا ہے ۔ غصہ تو گویا اس کی ناک پہ دھرا ہوتا ہے ۔ اپنی ناک کے لیے وہ کسی کے بھی کان کاٹ سکتا ہے ۔ کسی کا غصہ کسی دوسرے پر نکالنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا ہے ۔ نہ خوش رہ سکتا ہے نہ خوش رہنے دیتا ہے ۔ غصہ کسی تند و تیز سیلاب کی طرح ہوتا ہے جس کے آگے بند باندھنا ممکن نہیں ہوتا ۔ اس کا راستہ روکتے نہیں ، اسے راستہ دیتے ہیں ۔ یہی اس سے بچنے کا واحد اور محفوظ راستہ ہے ۔
مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ
اب آخر میں وہ عمل تحریر کر رہا ہوں جو ہر کسی کو ٹھیک کر سکتا ہے ۔ ہر کسی کا موڈ بحال رکھ سکتا ہے ۔ چالیس دن نماز کی پابندی کے ساتھ اس کا ورد کافی و وافی شافی ہے ۔ لیکن اگر کوئی ہمت کر کے اپنا روز کا معمول بنا لے تو ساری عمر فیض یاب ہو سکتا ہے۔
ڈپریشن کے مریض ایک دو ماہ دوائیں استعمال کر لیں تو بہتر ہے ۔ کیوں کہ ان کی بھوک مر چکی ہوتی ہے نیند اڑ چکی ہوتی ہے۔ دوائی کے استعمال سے ان کے یہ دونوں مسئلے حل ہو جاتے ہیں اور طبیعت میں کچھ بہتری آنے لگتی ہے۔ اب وقت ہے مادی دوائوں کو چھوڑ دیا جائے کہ یہ روحانی عوارض کا کبھی علاج ہو نہیں سکتیں۔
اب ورد نوٹ کر لیجیے ۔
فجر اور مغرب کے فرض کے بعد اپنی جگہ سی ہلے بنا
ایک تسبیح پڑھنا
’’ لا حول ولا قوت الا بللہ علی العظیم ۔ بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم ‘‘۔
آخر میں موڈ نامی افسانچہ پیش کیا جاتا ہے
موڈ
صفدر علی حیدری
افسانچہ ۔۔۔
’’ جانتی تھی ڈاکٹر صاحب کے آگے آپ کے منہ سے ایک لفظ بھی نہیں نکلے گا۔ جبھی تو ساتھ گئی تھی ۔ آپ کو آپ سے زیادہ جانتی ہوں میں۔ آپ کی ایک ایک عادت ، آپ کے مزاج کا ایک ایک پہلو حتی کہ کس وقت آپ کیا سوچتے ہیں ، سب کچھ پوری تفصیل سے انہیں بتایا۔ انھوں نے بھی تو متاثر ہو کر کہا کہ ماہر نفسیات تو آپ کو ہونا چاہیے تھا ۔ موڈ بہتر کرنے والی دوائی آپ کو بالکل پہلے جیسا بنا دے گی ‘‘ ’’ تمہیں کب احساس ہو گا کہ موڈ دوائیوں سے نہیں بہتر رویوں سے بہتر ہوتا ہیں ‘‘۔ الفاظ اس کے ہونٹوں تک آتے آتے حرف حرف بکھر گئے ۔