کالم :صورتحال

کالم :صورتحال
تحریر :سیدہ عنبرین
ذرا غزہ پر اک نظر
میرے قارئین میرے مخاطب اہل علم ہیں، ٹیسٹ اور امتحان کے فرق کو بخوبی سمجھتے ہیں، ٹیسٹ میں آنے والے امتحان کی پرچھائیں نظر آجاتی ہے، ابھینندن، بلوچستان میں ٹرین پر دہشتگردی، پہلگام اور گزشتہ روز خضدار میں بس میں دھماکہ اور اس سے ملتے جلتے دہشتگردی کے تمام واقعات جو صوبہ خیبر اور ملک کے بعض دوسرے حصوں میں پیش آئے یہ سب ٹیسٹ تھے، امتحان ابھی باقی ہے اور یوں لگتا ہے جیسے سر پر آپہنچا ہے۔ امتحان سے مراد ہے جنگ، بھارت میں اب جنگی تیاریاں کمزور بصارت رکھنے والے بھی دیکھ سکتے ہیں، جنگی تیاریوں کے ساتھ ساتھ سفارتی تیاریاں بھی شروع کی جا چکی ہیں، بھارت نے پہلگام ڈرامہ رچایا، اس کا دوسرا ایپی سوڈ، پاکستان کے مختلف شہروں میں ڈرون اٹیک، میزائل اٹیک اور فضائی جارحیت تھی، جس کا جتنا اور جو جواب دیا گیا وہ اب تاریخ ہے، بھارتی جنگی تیاریاں اب اس سے اگلے مرحلے میں داخل ہو چکی ہیں۔ بھارت اب اپنے منصوبے کی تکمیل کیلئے دنیا کو ہمنوا بنانے نکلا ہے، طریقہ بہت پرانا ہے، بھارت دنیا کو رو کر دکھائے گا اور بتائے گا کہ ہم نے امن کی ہر کوشش کر کے دیکھ لی، لیکن پاکستان نے ہماری ہر کوشش کو ناکام بنا دیا، بھارت مظلوم اور ستم رسیدہ ہے، پاکستان ظالم اور جارح ہے، ہم کب تک صبر کریں گے، پیمانہ صبر لبریز ہوا چاہتا ہے، اس موقف کے پرچار کیلئے بھارت نے ایک اعلیٰ سطح کا وفد بنایا ہے، جو دنیا بھر میں گشت کریگا اور اپنی دکھ بھری داستان ہر جگہ سنائے گا، بھارتی وفد کے سربراہ ششی تھرور ہیں، جو اعلیٰ انتظامی اور سیاسی عہدوں پر کام کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں، وہ اقوام متحدہ میں بھی بھارت کی نمائندگی کر چکے ہیں، وہ بین الاقوامی امور پر بھارت کے نکتہ نظر کے مطابق خاصا عبور رکھتے ہیں، انہیں مافی الضمیر بیان کرنے میں ملکہ حاصل ہے، ان کی شخصیت جاذب نظر ہے، جو سامعین کو ان کی بات غور سے سننے پر مجبور کرتی ہے، اس اعتبار سے دیکھیں تو بھارتی حکومت نے ایک ایسے شخص کا انتخاب کیا ہے جس کے لیے یہ کام نیا نہیں ہے، اس نے اس کٹھن کام کے ابجد نہیں سیکھے بلکہ وہ اس کام میں حد درجہ مہارت رکھتا ہے، ششی تھرور کے ساتھ وفد میں جو دیگر شخصیات شامل کی گئی ہیں، ان میں بھارتی وزارت خارجہ سے تعلق رکھنے والے منجھے ہوئے سفارتکار اور بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی کے تجربہ کار افسر بھی شامل ہیں۔
بھارتی وفد کی تشکیل اور اس کا ٹاسک منظر عام پر آنے کے بعد پاکستان نے بھی ایسے ہی ایک وفد تشکیل دیا ہے، جس کے حوالے سے بلاول بھٹو اور ایک ریٹائرڈ اعلیٰ افسر کا نام سننے میں آرہا ہے، ان کے ہمراہ بعض سفارتی شخصیات بھی ہونگی، حکومتی ذرائع کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ہم بھارت کی دیکھا دیکھی یہ وفد دنیا میں مختلف دوست ممالک کے دورے پر نہیں بھیج رہے، لیکن حقیقت یہی ہے کہ ہم سفارتی محاذ پر بھی دفاعی جنگ لڑنے پر یقین رکھتے ہیں۔ ہمارے یہاں شاید دور رس نگاہ رکھنے والوں کی کمی ہے اور ایسے افراد کی تو بہتات نظر آتی ہے جو سفارتی سطح پر حاصل کی جاسکتی کامیابیوں کو نہایت کامیابی سے ناکامی میں بدل دیتے ہیں، ہمیں جو موقع بھی ملا اسے کھونے کا موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا۔
بلوچستان میں ٹرین اغواء اور دہشتگردی کا واقعہ اپنی طرز کا دنیا میں پہلا واقعہ تھا، ہم دنیا کو اس جارحیت کی تصویر موثر انداز میں نہ دکھا سکے۔ پہلے چند روز تک کسی طرف سے کوئی مذمتی بیان، تخریب کاروں کے سہولت کاروں، انہیں اسلحہ اور روپیہ پہنچانے والوں اور انہیں بھارت میں تربیت دینے والوں کے بارے میں کچھ نہ کہا گیا، زبان کھل بھی گئی تو اس انداز سے کہ بھارت کی دل آزاری نہ ہو، بعض زبانیں تو ایسی تھیں کہ ان پر تالے پڑے رہے اور اس موقع پر بھی وہ تالے نہ کھلے جب بھارت نے پاکستان میں سیکڑوں ڈرون، درجنوں میزائل داغ دیئے۔ مزید برآں ان کے لڑاکا طیاروں کے نصف درجن سکوارڈن پاکستان پر حملہ آور ہونے کیلئے فضا میں پہنچ گئے۔
ہم نے ابھینندن کا جہاز گرا لیا، اسے گرفتار کر لیا، اس کے ساتھی کا جہاز بھی گرا لیا، لیکن جانے کون لوگ تھے جن کے دل میں بھارت کی محبت جاگ اٹھی، انہوں نے حملہ آور ابھینندن کو واپس بھجوا دیا اور بھارت کی پاکستان کے خلاف جارحیت کے بہترین ثبوت کو ضائع کر دیا۔ ذرا تصور کیجئے بھارت نے ہمارے دو جہاز گرائے ہوتے، ہمارا پائلٹ گرفتار کیا ہوتا تو وہ ہمارے ساتھ کیا سلوک کرتا، وہ یقیناً ہمیں ناکوں چنے چبوا دیتا۔ ہمیں دنیا بھر میں رسوا کرتا اور اس واقعے کا زیادہ سے زیادہ سیاسی فائدہ اٹھاتا۔ ہم نے یہی کچھ کلبھوشن کے معاملے میں کیا، آج اس واقعے پر یوں مٹی ڈال دی گئی ہے جیسے یہ واقعہ ہوا ہی نہیں۔ ہم پر واجب نہ تھا کہ ہم کلبھوشن کے معاملے میں عالمی عدالت میں جاتے، دشمن عالمی عدالت میں گیا، ہم اس کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے کشاں کشاں وہاں جا پہنچے۔
ابھینندن کی گرفتاری کے وقت قوم کو گمراہ کیا گیا کہ اگر اسے رہا نہ کرتے تو بھارت 24گھنٹے میں پاکستان پر حملہ کرنے والا تھا۔ جنگ چوبیس گھنٹے میں پلان نہیں ہوتی، اس کی تیاری کیلئے ایک سال، چھ ماہ کا وقت درکار ہوتا ہے۔
پاکستان دشمنوں پر مشتمل ایک بڑا گروہ آج اہل وطن کو مزید گمراہ کرنے کیلئے ایک بیانیہ پھیلا رہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کسی بڑی جنگ کا امکان نہیں، اگر ہوئی بھی تو بہت محدود پیمانے پر ہو گی، گویا ، پاکستان دشمن ہمیں پیغام دے رہے ہیں حال مست رہو، آنکھیں کھلی رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں، ہماری آنکھیں بند رہیں گی تو انہیں مال بنانے کا موقع ملے گا، ہم نے تیس برس آنکھیں بند رکھی ہیں تو پرائیویٹ پاور پروڈیوسرز ہمیں کنگال ہی نہیں کر گئے بلکہ ہمارے سرپر کئی ہزار ارب ڈالر کے مزید قرضے بھی چڑھ گئے۔ جنگوں اور جھڑپوں میں کامیابی اور ناکامی جانچنے کے مختلف پیمانے ہیں، ہماری نظر صرف ایک نقصان کی طرف ہے، بہت کچھ ہماری آنکھوں سے اوجھل ہے، ایک بڑی قیامت برپا تھی، دنیا کی توجہ ادھر سے ہٹ گئی۔ غزہ میں موت کا رقص جاری ہے، ہر طرف اس جنگ کا ذکر ہے جو ابھی کاغذوں میں ہے، جو جنگ ایک برس سے روئے زمین پر جاری ہے ادھر دھیا ن نہیں، جس میں ایک لاکھ مسلمان مرد، عورتیں، بچے، بزرگ جام شہادت نوش کر گئے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اگر غزہ میں امداد مزید چند گھنٹے میں نہ پہنچی تو14ہزار بچے مارے بھوک و پیاس سے موت کی وادی میں اتر جائینگے۔ معرکہ حق اور ٹرمپ کے کامیاب غیر ملکی دوروں کی روداد سے فرصت ملے تو ذرا غزہ کے پیاسوں کے بارے میں سوچئے اور جانیے کون کتنا بڑا اور کتنا اچھا مسلمان ہے جو مظلوموں کے ساتھ نہیں ظالم کے ساتھ کھڑا ہے۔