
فرانس کے وزیر خارجہ جین نوئیل بیرووٹ نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے لیے فرانس کے پرعزم ہونے کا عندیہ دیتے ہوئے منگل کے روز اسرائیلی اقدامات کی مذمت کی اور کہا کہ اس نے غزہ میں جو صورتحال پیدا کر رکھی ہے وہ ناقابل دفاع ہے کیونکہ اسرائیل نے جنگی فوجی مہم کے ذریعے انسانی بنیادوں پر بھیجی جانے والی امداد کی بھی ناکہ بندی کر رکھی ہے۔
فرانس کے وزیر خارجہ نے ان خیالات کا اظہار ہالینڈ کی طرف سے اس ‘انیشی ایٹیو’ کے موقع پر کیا جس کا مقصد یورپی یونین اور اسرائیل کے درمیان تعاون کے معاہدات پر نظر ثانی کرنا ہے۔ اس نظر ثانی کی صورت میں سیاسی و معاشی معاہدات بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔
واضح رہے غزہ میں اسرائیلی فوج کی مسلسل خونریزی اور نسل کشی کے متواتر اقدامات پر یورپی ملکوں میں بھی تشویش کا اظہار عوامی سطح کے بعد حکومتی سطح پر بھی ہونے لگا ہے۔ ہالینڈ کا یہ ‘انیشی ایٹیو’ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
فرانس کے صدر ایمانوئیل میکروں نے اس امکان کو کھلا رکھا ہے کہ فرانس بھی یورپ کی ان اقوام میں شامل ہو سکتا ہے جو فلسطینی ریاست کو اقوام متحدہ کی کانفرنس کے موقع پر جون میں تسلیم کرنے والے ہیں۔
فرانسیسی وزیر خارجہ نے کہا ‘ہم غزہ کے بچوں کو اس طرح نہیں چھوڑ سکتے کہ وہ نفرت اور خونریزی کے ایک تسلسل کا شکار رہیں۔ اس لیے یہ سب روکا جانا چاہیے اور ہم اس لیے پرعزم ہیں کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لیا جائے۔
وزیر خارجہ نے یہ بھی کہا ‘میں اس سلسلے میں سرگرمی سے کام کر رہا ہوں۔ کیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ مسئلے کے سیاسی حل کے لیے حصہ ڈالا جائے اور جو فلسطینیوں کے مفادات کا تحفظ بھی کرتا ہوں اور اسرائیل کی سلامتی کی بھی ضمانت دیتا ہو۔’
فرانس کے وزیر خارجہ کا یہ بیان اس مشترکہ بیان کے بعد سامنے آیا ہے جو ایک روز قبل برطانوی وزیر اعظم کیئر سٹارمر، فرانس کے صدر میکروں اور کینیڈا کے وزیراعظم مارک کارنے نے اسرائیل کے خلاف غم و غصے کے اظہار کے لیے جاری کیا ہے۔
اس بیان میں کہا گیا تھا کہ ہم اسرائیل کے ساتھ مزید کھڑے نہیں رہ سکتے۔ اگر اسرائیل خوراک اور بنیادی انسانی امداد کی ناکہ بندی ختم نہیں کرتا تو ہم اس کا ساتھ جاری نہیں رکھیں گے اور ہم فلسطینی ریاست کو جلد تسلیم کریں گے۔
تینوں ملکوں کے اس بیان پر اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے سخت تنقید کی ہے اور اسے تین ملکوں کی طرف سے حماس کو انعام قرار دیا ہے۔
فرانسیسی وزیراعظم نے یورپی یونین پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ ہالینڈ کی اس درخواست سے اتفاق کریں اور اسرائیل کے ساتھ معاہدوں کا از سر نو جائزہ لیں۔ خصوصاً ایسے حالات میں جب اسرائیل انسانی حقوق سے متعلق معاہدوں کی بھی خلاف ورزی کر رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ کوشش اس معاہدے کی معطلی تک جا سکتی ہے جو سیاسی اور ساتھ ہی ساتھ معاشی جہتوں کا حامل ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس معاہدے کا خاتمہ یورپی یونین کے حق میں ہے نہ اسرائیل کے۔ لیکن اسرائیل کو غزہ کی ناکہ بندی سے روکنے کے لیے ضروری ہے۔