Column

غائب

غائب
علیشبا بگٹی
پلس پوائنٹ
سوچا ہے، کوئی شخص اپنی زندگی سے غائب ہو جائے۔ اور کبھی واپس نہ آئے۔ لیکن یہ لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں ؟ اور کہاں جاتے ہیں ؟
جاپان میں لوگوں کے خود کو اچانک غائب کر لینے کے عمل کو ’’ جوہاتسو‘‘ کہا جاتا ہے، جس کا مطلب ہے۔ ’’ بخارات بن جانا ‘‘ یا ’’ اُڑ جانا ‘‘۔
صرف جاپان نہیں جرمنی انگلینڈ امریکہ اور دُنیا کے مختلف ممالک میں بھی لوگ اسی طرح غائب ہو جاتے ہیں۔ لیکن جاپان میں یہ ٹرینڈ خاصا عام ہے۔
یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو جان بوجھ کر اپنی مرضی سے اپنی سابقہ زندگی ، علاقہ ، خاندان ، نوکری ، شہر کو چھوڑ کر غائب ہو جاتے ہیں۔ اپنے سارے پرانے سوشل تعلقات سے ہمیشہ کے لئے دور چلے جاتے ہیں۔ کہیں چھپ جاتے ہیں۔ اور اکثر کوئی نیا نام یا نئی شناخت اپنا کر نئی جگہ پر رہنا شروع کر دیتے ہیں۔ تاکہ نئی زندگی شروع کر سکیں۔ وہ ایسا کسی ذاتی ، مالی ، سماجی دبا ، خاندانی جھگڑے یا گھریلو مسائل سے بچنے کے لئے کرتے ہیں۔
یہ عمل جاپان میں اتنا عام ہے کہ وہاں ایسے ادارے موجود ہیں جو ان لوگوں کو ’’ غائب ‘‘ ہونے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ اس حوالے سے جاپان میں بعض کمپنیاں جیسے کہ ’’ نائٹ موونگ کمپنی ‘‘ رات کے اندھیرے میں لوگوں کو بغیر سراغ اور نشان چھوڑے نئی جگہ منتقل کرنے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔ جہاں وہ نئی پہچان کے ساتھ گمنامی کی زندگی گزارتے ہیں۔ حتیٰ کہ یہ کمپنیاں ان کے روزگار کا بھی انتظام کرتے ہیں۔ اور ان سروسز کی قیمت ہزاروں ڈالرز میں ہوتی ہے۔ جو لوگ اپنی زندگیاں بدلنا چاہتے ہیں، وہ اسے منظور کرتے ہیں۔ جہاں پرائیویسی کو احتیاط کے ساتھ پراجیکٹ کیا جاتا ہے۔
دنیا بھر میں گمشدگی کو عمومی طور پر مجرمانہ عمل سمجھا جاتا ہے۔ مگر دلچسپ امر یہ ہے کہ جاپانی قانون میں بالغ افراد کی رضاکارانہ گمشدگی کو جرم نہیں سمجھا جاتا۔ پولیس اس وقت تک مداخلت نہیں کر سکتی۔ کہ جب تک کے کوئی اور وجہ نہ ہو۔ جیسے کوئی حادثہ یا جرم۔ اسی وجہ سے پولیس اکثر جوہاتسو کیسز میں ’’ ذاتی فیصلہ‘‘ کہہ کر ہاتھ کھینچ لیتی ہے۔ یہ قانونی خلا جوہاتسو کو فروغ دینے والا ایک بڑا عنصر ہے۔ خاندان بس یہی کر سکتی ہے کہ کسی پرائیویٹ جاسوس کو بہت زیادہ رقم دے یا پھر انتظار کرے۔ کچھ کیسز میں خاندان کے لوگ اپنے فرد کو تلاش کرتے رہتے ہیں۔ لاپتہ افراد اے ٹی ایم سے آزادی سے رقم نکال سکتے ہیں۔ اور ان کے خاندان کے افراد ان کے ویڈیوز تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے۔
جوہاتسو کا آغاز جاپان میں 1960ء کی دہائی میں ہوا، جب معاشی دباؤ، تیز رفتار صنعتی ترقی، اور سماجی اقدار میں تبدیلی نے فرد کو تنہائی، بے معنویت اور ناکامی کے احساس میں مبتلا کیا۔ جاپان کا اجتماعی معاشرہ جہاں ’’ شرمندگی”‘‘ کو ’’ ذاتی تباہی‘‘ کے مترادف سمجھا جاتا ہے، وہاں لوگوں کے لیے زندگی سے فرار اختیار کرنا، یعنی جوہاتسو، ایک قابلِ قبول خاموش بغاوت بن گیا۔ سماجی مسائل کی وجہ سے جاپان میں فرار ہونے کو ان سب مسائل کا واحد حل سمجھتے ہیں۔
جاپانی معاشرے میں ’’ شرمندگی‘‘ کا عنصر انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ خاندان، ادارہ اور سماج کی توقعات اتنی سخت ہوتی ہیں کہ فرد اگر ان پر پورا نہ اترے تو وہ خود کو ’’ ناقابلِ قبول‘‘ تصور کرتا ہے۔ یہی سوچ فرد کو جوہاتسو پر مجبور کر دیتی ہے۔
مزید یہ کہ جاپان میں طلاق، دیوالیہ پن، یا نوکری کا چھن جانا نہ صرف ذاتی ناکامی سمجھا جاتا ہے بلکہ پورے خاندان کی ’’ عزت‘‘ پر دھبہ سمجھا جاتا ہے۔ ایسے حالات میں فرد کے لیے خاموشی سے غائب ہو جانا، عزتِ نفس کی بقا کا ایک ذریعہ بن جاتا ہے۔
جوہاتسو کے پیچھے عموماً ڈپریشن، اینزائٹی، اور وجودی بحران جیسے نفسیاتی مسائل بھی کارفرما ہوتے ہیں۔ جاپانی ماہرینِ نفسیات کے مطابق، جوہاتسو اکثر ان لوگوں کا انتخاب ہوتا ہے، جو اپنی زندگی میں کنٹرول کھو چکے ہوتے ہیں، اور جن کے پاس خودکشی کے علاوہ ’’ زندگی سے راہِ فرار”‘‘ کا یہی ایک راستہ رہ جاتا ہے۔
جوہاتسو کا تصور جاپانی ادب، فلم، اور دستاویزی فلموں میں بھی بارہا نمایاں ہوتا رہا ہے۔ 2016ء کی مشہور ڈاکیومنٹری The Vanished People Who Choose to Disappear in Japanاور جاپانی ناولوں میں یہ رجحان جاپانی ذہن کی داخلی پیچیدگیوں کو عیاں کرتا ہے۔ ادب میں جوہاتسو کو علامتی موت، سماجی احتجاج اور خاموش چیخ کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
آج بھی جاپان میں سالانہ اندازاً 80000سے زائد افراد جوہاتسو کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ ان میں نوجوان، مرد، خواتین، حتیٰ کہ عمر رسیدہ افراد بھی شامل ہیں۔ اگرچہ جدید جاپانی معاشرہ تیزی سے ترقی کر رہا ہے، تاہم جوہاتسو کی موجودگی ایک واضح اشارہ ہے کہ سماجی ہم آہنگی اور فرد کی نفسیاتی صحت میں گہرا خلا موجود ہے۔ جوہاتسو جاپانی معاشرت کا ایک گہرا، پیچیدہ اور تشویشناک مظہر ہے جو صرف انفرادی فیصلے کا نہیں بلکہ اجتماعی نظام کی خامیوں کا غماز بھی ہے۔ یہ ہمیں یہ سمجھنے پر مجبور کرتا ہے، کہ کسی بھی جدید معاشرے میں ترقی، عزت، اور نظم کے پیچھے اگر فرد کی شناخت، جذبات اور آزادی کو نظرانداز کیا جائے، تو وہ بخارات بن کر غائب ہونے کو ترجیح دیتا ہے۔
یہ لوگ عام طور پر جاپان کے دوسرے شہروں میں چلے جاتے ہیں۔ جہاں انہیں کوئی نہیں جانتا ہے۔ کچھ لوگ دیہاتوں میں جا کر سادہ زندگی گزارتے ہیں تو کچھ نئی شہروں نئی ملازمت شروع کرتے ہیں۔ اس کو اسلام میں کسی حد تک ہجرت کے عمل سے بھی مماثلت ہے۔
جوہاتسو ذاتی مسائل سے بچنے کا ایک خاموش راستہ ہے۔ جس میں کوئی اپنی زندگی کو خود کو سب سے مکمل طور پر علیحدہ کر لیتے ہیں۔ نہ صرف جسمانی طور پر بلکہ قانونی اور معاشرتی سطح پر بھی اسے رضاکارانہ گمشدگی بھی کہہ سکتے ہیں۔
جوہاتسو صرف ایک سماجی مظہر نہیں، بلکہ ایک گہرے نفسیاتی، ثقافتی اور معاشی بحران کی عکاسی بھی کرتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ کسی مسئلے کا حل ہے یا کہ مسائل کو چھپانے کا ایک راستہ ہے۔ بہرحال جوہاتسو دراصل ایک خاموش چیخ ہے۔ ایک ایسا احتجاج جو آواز سے نہیں بلکہ غیرموجودگی سے کیا جاتا ہے۔
بقول شاعر
آشنائی ہے سراسر اور سراسر درد سر
اس جہان بے وفا میں اجنبی بن جائیے

جواب دیں

Back to top button