Column

چار دن جنگ، چار دن ٹرمپ

چار دن جنگ، چار دن ٹرمپ
تحریر: تجمّل حسین ہاشمی
ہمارے ہاں سیاستدان توشہ خانہ کی فہرست کے منظر عام پر آنے سے پریشان رہے کہ کہیں ان کا نام سرفہرست نہ آجائے ، توشہ خانہ کی فہرست کو بھی حساس سمجھا جانے لگا، اس پر حکومت ڈٹ گئی۔ حکومت خوف زدہ رہی کہ پتہ نہیں کیا ہو جائے گا، آج تک کیس عدالت میں پڑا ہوا ہے، توشہ خانہ فہرست میں کئی نامور صحافی بھی شامل رہے، کچھ صحافیوں نے واضح بیان دیا اور میڈیا کا سامنا کیا، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے صاف کہا کہ انہوں نے قانون کے مطابق ادائیگی کرکے تحائف لیے، ویسے حکمران، خواہ حکومت میں ہوں یا باہر، خود کو سودے باز کہلوانے سے گھبراتے ہیں، مگر دنیا کی سپر پاور امریکا کے صدر فخر سے کہتے ہیں کہ انہوں نے سودے بازی اپنے والد سے سیکھی، ان کی مشہور کتاب The Art of the Dealاسی سوچ کی عکاس ہے، قطر کی طرف سے 400ملین ڈالر کا لگژری بوئنگ 747۔8 طیارہ تحفے میں دیا گیا، کانگریس اور سینیٹ قانونی و اخلاقی جواز تلاش کر رہے ہیں، مگر سودے بازی کے ماہر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ’’ وہ بڑے احمق ہوں گے اگر یہ تحفہ نہ لیں‘‘، صحافی کے سوال پر وہ ناراض بھی ہوئے۔ دورے سے پہلے اور جنگ سے پہلے وہ کئی بیان دے چکے تھے۔ انڈیا ہمارے ساتھ الجھا تو ہمیں اپنے دفاع میں منہ توڑ جواب دینا پڑا، ہمارے چار دن جنگ میں گزرے، دنیا نے ہماری عسکری طاقت کو تسلیم کیا، مودی کی سفارتکاری ناکام ہوئی۔ پاکستان اپنی پوری قوت کے ساتھ سامنے آیا مگر دہشتگردی کے خلاف اخراجات کے لیے کوئی تعاون نہ ملا، ہمارے 24 کروڑ عوام خوش ہوئے۔ جنگ بھی چار دن کی ہی تھی کہ فون آ گیا، ویسے اسحاق ڈار نے انڈیا کی طرف سے حملے کی پیشگی اطلاع کا دعویٰ مسترد کیا ہے۔ جنوبی ایشیا والے پرائی جنگ بڑے شوق سے لڑتے ہیں اور فون پر جلدی صلح بھی کر لیتے ہیں۔ قطر کے ساتھ ہماری ایک سیاسی جماعت کے بہت اچھے تعلقات ہیں، 2019ء اور 2024ء میں 3بلین ڈالر کی سرمایہ کاری اور ڈپازٹ اس کی مثالیں ہیں، ہمارے لیڈروں نے ہر قومی مسئلے کو سیاسی بیانیہ بنایا اور عوام کو اس کے لیے استعمال کیا، سیاسی جماعتوں نے جھوٹے بیانیوں کو کیش کیا، اب کافی حد تک ٹھہرائو آئے گا، ہر دور میں تنقیدی بیانیہ چلتا رہا، سچ نہ سناتے ہیں نہ بولتے ہیں، اور جو سچ بولے گا وہ خوار و رسوا ہو گا، یہ تاثر ہمارے ہاں مضبوط ہو چکا ہے، اسے بنانے میں ہمارے سیاست دان اور ان کے حامی ادارے شامل ہیں، جن اداروں کو سیاست روکنی تھی، وہ خود سیاسی بیانیوں کا حصہ بن گئے۔ صدر ٹرمپ سودے بازی کے ماہر ہیں، اربوں ڈالر کے مالک ہیں، مگر اپنے قومی مفاد کے لیے کتنے متحرک ہیں، اس پر کوئی توجہ نہیں دیتا، ہمارے سیاست دانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے اچھے عمل کو خود مشکوک بنا دیتے ہیں، سچ بولنے کی ہمت نہیں رکھتے، دن بھر جن کے خلاف بیانیہ بناتے ہیں، رات کو انہی کے سامنے گزارشات پیش کرتے ہیں، دنیا کے ساتھ کاروبار کرنا جرم نہیں، مگر ان کے کاروبار عوام کے سامنے مشکوک ہیں، ہمارے ملک میں کئی بیرونی سرمایہ کار کاروبار کرتے ہیں، اپنا منافع اپنے ملک لے جاتے ہیں اور اپنے ملک کے لیے اچھا گمان رکھتے ہیں، مگر ہمارے کاروباری سیاسی تاجر اپنا پیسہ غیر ممالک کے بینکوں میں رکھتے ہیں کیونکہ انہیں اپنے نظام پر بھروسہ نہیں، پھر بھی وہ حکمران بننا چاہتے ہیں، جوڑ توڑ کو مفاہمت کہتے ہیں، دنیا بھر کی مثالیں دیتے ہیں، طاقتور ممالک سے اپنا موازنہ کرتے ہیں، مگر ان کی اصول پسندی پر عمل نہیں کرتے، اپنے ملک میں لائن میں کھڑا ہونا پسند نہیں، مگر دوسرے ممالک میں لائن میں لگنا اصولی سمجھتے ہیں، ایسی سیاست اور حکمرانی سے قوم کے حالات کبھی نہیں بدلتے، آپ کے الفاظ کو کیسے اہمیت دی جائے جب آپ اپنے ملک کے ساتھ سچے نہیں؟۔
امریکی صدر بے باک اور منہ پھٹ ہے، سودے باز ہے، مگر ہر بات کھلے عام کرتا ہے اور اپنے ملک کے لیے کرتا ہے، یہ چار دن کی جنگ اور چار دن کا ٹرمپ کا دورہ دنیا کا نیا رخ متعین کرے گا، ہمارے دوست ممالک سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات سے ٹرمپ نے ٹریلین ڈالر کے سودے سمیٹے، ہمارے حکمران 3ارب ڈالر کے قرضوں کو ہر نئی حکومت میں ری شیڈول کروا کر تالیاں بجاتے ہیں، انہیں ٹرمپ کے دور سے کچھ سیکھنا چاہیے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے ایک وفد تشکیل دیا ہے، جس کی سربراہی بلاول بھٹو کریں گے، یہ وفد انڈیا کی حالیہ جارحیت پر دنیا کو آگاہ کرے گا، پہلے بھی شہباز شریف نے کاروباری شخصیات کو سفارتی پروٹوکول ویزے دئیے تھے تاکہ وہ بیرونی سرمایہ کاری لائیں، مگر اس سرمایہ کاری کی تفصیلات منظر عام پر نہ آئیں، 2019ء میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے 20ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا جو قابل قدر تھا، قوم کو اچھی خبروں کی تلاش ہے، مگر ہر بجٹ میں کچھ اچھا نظر نہیں آتا، حکومت ایک بار پھر آئی ایم ایف کو بجلی، گیس اور پٹرول مہنگا کرنے کی یقین دہانی کروا رہی ہے، قرضوں کے بوجھ نے عوامی مشکلات بڑھا دی ہیں، ہمارا دفاعی جذبہ ابھی زندہ ہے، شہادت ہمارے مذہب میں بڑا اعزاز ہے، مگر خالی پیٹ انسان کو کفر کے قریب لے جاتا ہے، بے حیائی اور تقسیم کو جنم دیتا ہے۔

جواب دیں

Back to top button