Column

پاک فوج کرتی کیا ہے ؟؟

پاک فوج کرتی کیا ہے ؟؟
عقیل انجم اعوان
جب ایک سیاسی جماعت کی طرف سے یہ سوال آئے کہ پاک فوج کرتی کیا ہے؟ تو بظاہر یہ محض ایک سادہ استفسار محسوس ہوتا ہے مگر درحقیقت یہ سوال ایک ایسی داستان کی کنجی ہے جس میں قربانیاں، وفائوں کی سنگلاخ راتیں اور وطن پرستی کے ناقابلِ تسخیر ارادے سمٹے ہوئے ہیں۔ یہ سوال اُس مادرِ وطن کی شہ رگ سے پوچھا گیا سوال ہے جس کی رکھوالی کے لیے سرفروشوں نے اپنے خوابوں کو شہادت کی لوریوں میں سلا دیا۔ پاکستان کے سیاسی افق پر جب کبھی اندھیرے گہرے ہوئے جب دھرتی پر خطرات نے سائے پھیلائے جب دشمن نے للکارا تو ایک ہی نام بلند ہوا افواجِ پاکستان۔ کبھی یہ نام تحسین و تقدیس کا استعارہ بنتا ہے، کبھی الزام و سوالات کی زد میں آتا ہے۔ سوشل میڈیا کے شوریدہ دور میں جہاں اظہار کی آزادی اکثر حدود و قیود سے آزاد ہو جاتی ہے وہیں کچھ لب ایسے بھی ہوتے ہیں جو ریاست کی بنیادوں پر سوالیہ نشان ثبت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تو آئیے اس سوال کا جواب ہم تاریخ کے آئینے، قربانیوں کے عرش اور نظریاتی زمین کے افق پر تلاش کرتے ہیں۔ قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی سب سے بڑا امتحان سرحدوں کا دفاع تھا۔ 1947 ء کے فسادات کے زخم ابھی تازہ تھے کہ مسئلہ کشمیر نے ایک نئی آگ بھڑکا دی۔ بھارت کی جارحیت کے جواب میں نوخیز، کم وسائل اور محدود تربیت کی حامل پاکستانی فوج نے نا صرف دشمن کو پسپائی پر مجبور کیا بلکہ اقوامِ متحدہ کو بھی یہ ماننے پر مجبور کیا کہ کشمیر محض ایک زمین کا ٹکڑا نہیں بلکہ ایک عالمی مسئلہ ہے۔1965ء میں جب بھارتی افواج نے لاہور اور سیالکوٹ کی سرحدوں کو روندنے کی جسارت کی تو پاکستانی فوج نے وہ شجاعت دکھائی جو تاریخ کا سنہری باب بن گئی۔ توپوں کی گرج، ٹینکوں کی یلغار اور آسمانوں میں اڑتے جذبوں کے سائے تلے دشمن کو نہ صرف روکا گیا بلکہ اُسے پیچھے دھکیلا گیا۔ ایسی تھی دھرتی کے محافظوں کی للکار کہ لال بہادر شاستری کو بھی امن کی دہلیز پر دستک دینا پڑی۔1971ء کی جنگ جو سقوطِ مشرقی پاکستان پر منتج ہوئی یقیناً ایک قومی المیہ تھی۔ مگر سچ یہ ہے کہ اس کی جڑیں سیاسی عدم توازن، اندرونی انتشار اور بھارت کی چالاکیوں میں تھیں نا کہ فوجی ناکامی میں۔ یہاں بھی فوج نے آخری سپاہی آخری سانس اور آخری گولی تک دفاع کا حق ادا کیا۔ کارگل کی بلندیوں پر برف کی چادروں میں لپٹی ہوئی جرأت کی کہانی لکھنے والے وہ جوان تھے جنہوں نے عسکری تاریخ میں ایک نیا باب رقم کیا۔ اگرچہ عالمی دباؤ نے قدم روک لیے مگر بہادری کی داستانیں آج بھی عسکری اداروں میں پڑھائی جاتی ہیں۔ سیاچن دنیا کا بلند ترین محاذ جہاں منفی چالیس درجہ حرارت میں برفانی طوفانوں کی گونج میں ہر لمحہ موت کا سایہ سر پر ہوتا ہیوہاں کوئی عام انسان نہیں ٹھہرتا وہاں صرف وہی ٹھہرتے ہیں جن کے دل میں وطن کی محبت ایمان کی حرارت اور شہادت کی تڑپ ہوتی ہے۔ پھر آیا وہ دور جب دشمن نے چہرہ بدلا اب کی بار وہ وردی میں نہیں عمامے، جھنڈے اور نظریات کے لبادے میں آیا۔ دہشتگردی کی اس جنگ میں جس طرح پاک فوج نے قربانیاں دیں وہ محض عسکری تاریخ نہیں بلکہ قومی شعور کا سنگِ میل ہے۔ سوات ہو یا وزیرستان، کراچی ہو یا کوئٹہ ہر مقام پر فوج نے جانوں کا نذرانہ دے کر وطن کی سانسیں بحال کیں۔ نوّے ہزار شہادتیں، اربوں روپے کا نقصان اور ایک پوری نسل کی نیندیں فوج نے قربان کر دیں اور بدلے میں نہ کوئی تمغہ مانگا نہ کوئی ستائش۔ یہ ہے وہ خاموش قربانی جو صرف وطن کے سچے سپوت ہی دے سکتے ہیں۔ مئی 2025ء کی صبح بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول پر اشتعال انگیزی کے ساتھ طلوع ہوئی۔ دشمن نے فضائی جارحیت کی جسارت کی مگر پاک فضائیہ نے جوابی ضرب سے نا صرف دشمن کو پسپا کیا بلکہ دنیا کو یہ باور کرایا کہ پاکستان کی فوج زمین، فضا اور سائبر خلا میں ایک مکمل چاق و چوبند قوت ہے۔ دشمن کے طوفان میں ہم نے سکون، ہوش مندی اور پیشہ ورانہ مہارت سے مقابلہ کیا اور دنیا کو دکھایا کہ ہم امن کے خواہاں ضرور ہیں کمزور ہرگز نہیں۔ یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ ایسا عظیم ادارہ کیوں کر سیاسی تنقید کی زد میں آتا ہے؟ اس کا جواب محض اتنا ہے کہ جب ایک سیاسی جماعت اپنی کارستانیوں کی بدولت اقتدار سے محروم ہو گئی تو وہ اپنی ناکامیوں کا ملبہ انہی کندھوں پر ڈال دیا جنہوں نے وطن کا بوجھ اٹھا رکھا تھا۔ فوج نے بارہا اعلان کیا کہ اس کا کردار غیر سیاسی ہے مگر پھر بھی سازشی ذہن اسے سیاسی تخریب کاری میں ملوث کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر جھوٹ، جعلی بیانیے، شہداء کی توہین اور پروپیگنڈا کی فضا یہ سب ایک گھنائونی مہم کا حصہ ہے۔ افسوس کہ یہ زہر اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں پھیل رہا ہے جس سے دشمن قوتیں فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ پاک فوج صرف جنگی ادارہ نہیں بلکہ قدرتی آفات، حادثات، وبائوں اور ہر ہنگامی صورت حال میں یہ ادارہ سب سے پہلے میدانِ عمل میں نظر آتا ہے۔ 2005ء کا زلزلہ ہو یا 2010ء کے سیلاب فوج نے لاکھوں جانیں بچائیں متاثرین کو سہارا دیا اور انسانیت کا پرچم بلند رکھا۔ فوج کا کردار طب، تعلیم، تعمیرات اور اقوامِ متحدہ کے امن مشنز میں بھی قابلِ رشک ہے۔ پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جن کی فوج نے سب سے زیادہ امن مشنز میں شرکت کی یہی وہ چہرہ ہے جو دنیا میں امن کا پیامبر ہے۔ یقیناً کوئی ادارہ تنقید سے بالاتر نہیں مگر جب تنقید اصلاح کے بجائے تخریب کا چولا پہن لے جب شہداء کی قبریں تمسخر کا نشانہ بنیں جب جھوٹے الزامات کی آڑ میں اداروں کو بدنام کیا جائے تو یہ تنقید نہیں ایک خطرناک فتنہ ہے۔ یہ حملہ صرف ایک ادارے پر نہیں بلکہ ریاست کے نظریے وجود اور وقار پر حملہ ہے۔ آج اگر ہم آزاد ہیں اگر ہماری مساجد میں اذانیں گونج رہی ہیں اگر ہمارے بچے سکون سے سوتے ہیں تو اس کے پیچھے وہ خاموش بے نام و نشان سپاہی ہیں جو برفانی مورچوں، ریگزاروں اور پہاڑی درّوں میں دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑے ہیں۔ اگر پاک فوج کرتی کیا ہے؟ کا سچا جواب درکار ہو، تو کسی شہید کی ماں کی نم آنکھوں میں جھانک لیجیے کسی یتیم بچے کی خاموشی کو سن لیجیے یا کسی پُرامن شہر کے باشندے سے دل کی بات پوچھ لیجیے، آپ کو جواب مل جائے گا۔ اور وہ جواب فقط اتنا ہوگا
’’ اے ارضِ وطن کے محافظو، تمہیں سلام‘‘

جواب دیں

Back to top button