Column

یومِ تشکر

یومِ تشکر
تحریر: رانا اقبال حسن
16 مئی یوم تشکر کی صبح طلوع ہوئی تو میرے دل میں ایک ہی جذبہ جاگا: شکر، فخر اور قربانی کا جذبہ۔ ایک ایسا دن، جو ہمیں صرف خوشی کا نہیں بلکہ فخر اور عزم کا دن بھی یاد دلاتا ہے۔ جب 10مئی کو بھارت کی کھلی جارحیت اور اشتعال انگیزی کے خلاف پاک افواج کے آپریشن بنیان مرصوص کو کامیابی ملی۔ یومِ تشکر۔۔۔ یہ کوئی عام دن نہیں، بلکہ اُس قومی احساس کا اظہار ہے، جو ہمیں اپنے شہدائ، اپنی افواج اور اپنے وطن سے جوڑتا ہے۔ وہ جو مٹی پر گرے لیکن پرچم کو کبھی جھکنے نہ دیا۔
جب وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے یومِ تشکر منانے کی ہدایات جاری کیں تو اندازہ ہوا کہ یہ دن صرف رسمی تقاریب کا نہیں بلکہ ایک نظریے کی تجدید کا دن ہے۔ اُن کی زبان سے نکلے الفاظ دل میں اتر گئے: ’’ "افواج پاکستان ہماری شان ہیں، اور شہداء ہماری پہچان‘‘۔ اُن کی باتیں صرف ایک وزیر اعلیٰ کی نہیں بلکہ ایک قوم کی بیٹی کی آواز لگیں، جو ان شہداء کی قربانیوں کو صرف یاد نہیں کرنا چاہتیں، بلکہ نسل در نسل منتقل کرنا چاہتی ہیں۔
فیصل آباد ڈویژن( جو کہ ہمیشہ سے محب وطن جذبے کا گڑھ رہا ہے) نے اس دن کو جس وقار اور تنظیم کے ساتھ منایا، وہ قابلِ تحسین ہے۔ جب فجر کے وقت مساجد سے قرآن خوانی کی صدائیں بلند ہوئیں، تو ایک عجیب سی روحانی فضا بن گئی۔ گویا پورا ڈویژن اللہ کے حضور جھک کر اُن بیٹوں کے لیے دعاگو تھا، جنہوں نے ہمیں یہ سکون کی فضا دی۔ علماء کرام نے اپنے خطبات میں جو بات سب سے زیادہ دل میں اتری، وہ یہ تھی کہ آپریشن بنیان مرصوص محض ایک عسکری کامیابی نہیں بلکہ قوم کے اتحاد، افواج کی حکمت اور عوام کے اعتماد کا ثبوت ہے۔
جو تقریب ہوئی، وہ سادگی، وقار سے بھرپور تھی، افسر جب یادگارِ شہداء پر پھول چڑھا رہے تھے، تو اُن کے چہروں پر ایک عجیب سنجیدگی تھی۔ ایسی سنجیدگی جو صرف اُن کے منصب کی نہیں بلکہ دل کی گہرائیوں سے نکلنے والے احترام کی علامت تھی۔ اُن کے ساتھ کھڑے پولیس اہلکاروں اور شہریوں کے چہرے بھی یہی کہانی سناتے تھے کہ ’’ ہمیں اپنے شہداء پر ناز ہے اور ہم اُن کے مشن کے امین ہیں‘‘۔
ضلع کونسل میں منعقدہ مرکزی تقریب کچھ زیادہ ہی متاثر کن تھی۔ جب پرچم بلند ہوا اور فضا ’’ پاکستان زندہ باد‘‘ کے نعروں سے گونجنے لگی، تو میں نے محسوس کیا کہ جذبہ، ولولہ اور عزم صرف تقریروں تک محدود نہیں رہا، بلکہ ہر فرد کے دل میں بیدار ہو چکا ہے۔ ملی نغمے، ٹیبلوز، اور سلامی نے صرف تقریب کو سجایا نہیں بلکہ ہمیں یاد دلایا کہ یہ وطن صرف سرحدوں کا نام نہیں، یہ جذبات، قربانیوں اور شہداء کے خون کا مرقع ہے۔
ریلیوں میں شریک بچے، نوجوان، خواتین اور بزرگ صرف نعرے نہیں لگا رہے تھے، وہ دشمن کو پیغام دے رہے تھے کہ اگر ہماری افواج سیسہ پلائی دیوار ہیں تو ہم، عوام، اُس دیوار کی بنیاد ہیں۔ یہ رشتہ وردی اور ووٹ کا نہیں، یہ محبت، قربانی اور اعتماد کا رشتہ ہے۔ سول اور پاک فوج کے افسر جب شہداء کے گھروں میں پہنچے تو ایک اور منظر نے دل کو چھو لیا۔ اُن مائوں، بہنوں، اور بچوں کی آنکھوں میں آنسو بھی تھے اور فخر بھی۔ اُنہوں نے شکایت نہیں کی، صرف اتنا کہا: ’’ ہمارا بیٹا گیا، لیکن وطن بچ گیا‘‘۔ کیا کوئی بڑی بات ہو سکتی ہے اس جذبے سے؟
تحصیلوں میں شہداء کے لیے جلائی جانے والی شمعیں صرف موم کی نہیں تھیں، وہ ایمان، اتحاد اور قربانی کی علامت تھیں۔ وہ روشنی بتا رہی تھی کہ یہ قوم ابھی زندہ ہے، یہ جذبے ابھی مدھم نہیں ہوئے۔ اور جب تک یہ شمعیں جلتی رہیں گی، دشمن کے ناپاک عزائم یوں ہی بجھتے رہیں گے۔
میں اکثر سوچتا ہوں کہ افواج پاکستان کو دنیا کی عظیم ترین افواج میں کیوں شمار کیا جاتا ہے؟ کیا صرف اس لیے کہ وہ جنگیں جیتتے ہیں؟ نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ وہ صرف دشمن سے نہیں لڑتے۔
، وہ قدرتی آفات میں مدد دیتے ہیں، وہ دہشتگردی کا قلع قمع کرتے ہیں، وہ جذبے کے ساتھ ڈٹ جاتے ہیں، اور سب سے بڑھ کر وہ عوام کے دل جیتتے ہیں۔ جب ایک فوج پیشہ ورانہ مہارت، نظم و ضبط، ٹیکنالوجی، اور جذبے کے امتزاج سے بنی ہو، تو وہ صرف طاقت نہیں بلکہ نظریہ بن جاتی ہے۔ اور یہ نظریہ ہے پاکستان۔
یومِ تشکر ہمیں صرف ماضی کو یاد کرنے کا نہیں کہتا، بلکہ مستقبل کے لیے بیدار ہونے کا دن ہے۔ ہمیں اپنے شہداء کی قربانیوں کو محض تعریفی کلمات تک محدود نہیں رکھنا، بلکہ اُن کی راہوں پر چلنے کا عہد کرنا ہے۔ ہمیں ہر محاذ پر، ہر میدان میں، اپنی افواج کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا ہے۔ کیونکہ جب فوج اور قوم ایک صف میں کھڑے ہوں، تو دنیا کی کوئی طاقت انہیں شکست نہیں دے سکتی۔
یہی ہے یومِ تشکر کا اصل پیغام۔
افواجِ پاکستان، تمہیں سلام!
شہداء وطن، تم پر لاکھوں سلام!
اور اس بیدار قوم کو بھی سلام، جو ہر آزمائش میں متحد ہو کر دشمن کو یہ بتا دیتی ہے کہ
یہ وطن ہمارا ہے، اور رہے گا!
رانا اقبال احسن

جواب دیں

Back to top button