Column

ڈاکٹر قدیر کے مال کا انتظار

ڈاکٹر قدیر کے مال کا انتظار
تحریر : سیدہ عنبرین
پاک بھارت سہ روز جنگ کے حوالے سے مختلف آراء سامنے آرہی ہیں، ایک رائے یہ ہے کہ بھارت نے یہ جنگ عجلت میں شروع کی اور عجلت میں ختم کردی، بلا سوچے سمجھے شروع کی اور بلا سوچے سمجھے ختم کر دی، بھارت میں ہر طرف یہی سوچ نظر آتی ہے، ٹھیک چند روز قبل بھارتی حکومت اور بھارتی میڈیا جس جنگی جنون کی آبیاری کرتے ہوئے بڑھ چڑھ کر اس بات کی حمایت کر رہا تھا کہ ایسا یدھ ہونا چاہیے کہ دنیا میں کہیں اسکی مثال نہ ملے اور کم سے کم یہ ضرور ہونا چاہیے کہ پاکستان کے تصرف میں موجود کشمیر کو بھارت میں شامل کر لینا چاہیے، آج وہی بھارتی میڈیا، بھارتی عوام مل کر بھارتی حکومت اور جنگ کا فیصلہ کرنے والوں کے لتّے لیتے نظر آتے ہیں۔
بھارت جنگ ختم کرنے کیلئے امریکہ اور دیگر بڑی طاقتوں کے پائوں نہ پڑتا تو اور کیا کرتا، آرمی، ایئر فورس اور نیوی تینوں ملکر جنگ لڑتی ہیں، زمین، فضا اور پانی تینوں طرف سے حملہ کیا جاتا ہے، تینوں طرف سے دفاع کیا جاتا ہے، پہلے ہی روز بھارتی فضائیہ کے پر کٹ گئے، وہ پرواز کے قابل ہی نہ رہی، جنگ تو فضا میں پرواز کے بعد شروع ہوتی ہے، بھارتی نیوی کا حال بھی پتلا تھا وہ درشنی پہلوان ثابت ہوئی، باقی رہی صرف بھارتی بری فوج، تو اسے1965ء یاد ہو نہ ہو، کم از کم کارگل اور سیاچن نہیں بھولا ہوگا۔65ء میں لڑنے والے شکست کھانے والے، بھاگنے والے تو اب بھارت میں مر کھپ چکے ہونگے، اور کوئی زندہ ہیں تو بھی اپنی چتا کے کنارے دن گن گن کر گزار رہے ہونگے۔ یقیناً اس قابل نہ ہو نگے کہ اس درد کی کہانی اپنی نئی نسل کو سنا سکیں اور بتا سکیں کہ بھارت کا کون سا جرنیل کس محاذ پر اپنی جیپ اور اشد ضروری کاغذات چھوڑ کر فرار ہوا تھا۔
بھارتی میڈیا پر جی ڈی بخشی نامی ایک ریٹائرڈ جرنیل جذباتی کیفیت میں اکثر نظر آتا ہے، کسی نہ کسی سوال کے جواب میں اس کی حالت غیر ہو جاتی ہے، یوں لگتا ہے جیسے پاگل کتے کو کسی نے زہر دے دیا ہے اور وہ مرنے سے پہلے حالت نزع میں بھونک رہاہے، بھارتی میڈیا کے دانشوروں کا حال بھی اس سے ملتا جلتا ہے، جب پاکستانی میزائلوں نے سب خواب جلا کر راکھ کر ڈالے تو اب سب اس راکھ میں انگلیاں ڈالے بیٹھے ہیں اور پاکستان نے بھارتی فضائیہ، اس کے ریڈار جس طرح ناکارہ بنائے اس کا توڑ تلاش کر رہے ہیں، اس توڑ کی تلاش میں وہ کوئی جری جرنیل، کوئی نیا سٹیٹ آف دی آرٹ جہاز تو سامنے نہیں لاسکے ، اب ان کی امیدوں کا مرکز یوگی، سنت اور فقیر ہیں، وہ بھی سب دو نمبر کے، کچھ ستارہ شناس ہیں جن کی اپنی کوئی شاخت نہیں، وہ بھارتی افواج، حکومت اور میڈیا کے منہ پر ملی کالک کو صاف کرنے کی جتنی کوشش کرتے نظر آتے ہیں کالک اتنی زیادہ پھیلتی جاتی ہے، کچھ عرصہ بعد جب تمام کوشش ناکام ہو جائیں گی تو آخری چارے کے طور پر یہ ذمہ داری بھارت کی فلم انڈسٹری کو سونپی جائیگی کہ وہ شکست کے داغ دھونے کیلئے ایک فرضی فتح کی کہانی پر فلم بنائے، یہ فلم سچی اور ان کہی کہانی کے ڈھنڈورے کے ساتھ شروع ہو گی، اس کے بارے میں عوام کو بتایا جائیگا کہ اس فلم کے ہیرو جیسے اور اس ہیرو کے کارنامے جیسے سیکڑوں کردار ہیں جو سامنے نہیں آ سکے۔ یہاں کوئی سر پھیرا سوال اٹھائے گا، ہاں ہاں ہم نے ایسا ایک جعلی ہیرو 2019ء میں دیکھا تھا جسے اس کے لڑاکا بمبار جہاز سمیت پاکستانی ایئر فورس نے مار گرایا تھا، وہ پیرا شوٹ سے چھلانگ لگا کر زمین پر اترا تو اسے اترتے دیکھ کر وہاں پہنچنے والوں نے اس کی خاصی خاطر صدارت کی، زمین پر گرنے کے بعد اس کا پہلا مکالمہ یہ تھا کہ میں پاکستان ہوں یا بھارت میں، تو کسی شہری نے اسے تسلی دینے کیلئے کہا مہاراج آپ بھارت کی سرحد میں گرے ہیں، پھر اس کے بعد جو ہوا اس کے نتیجے میں ابھینندن کے چہرے پر جو نقش و نگار بنے انہیں ٹھیک ہونے میں تین روز لگے، بھارت پہنچنے پر اس شکست خوردہ پائلٹ کو ایک ہیرو کے طور پر پیش کیا گیا، بھارت کے ہیرو فلمی ہوں یا فوجی ہوں، اسی رنگ اور نسل کے ہوتے ہیں، پاکستان سے جوتے کھاتے ہیں اور پاکستان کے خلاف بڑھک بازی کرتے ہیں، آج کل بھی بھارتی میڈیا پر ایسی ہی بڑھکیں سننیں میں آرہی ہیں، ایک بڑھک یہ ہے کہ پاکستان کا پانی بند رہے گا، دوسری یہ کہ جنگ بندی نہیں ہوئی، اس میں وقفہ دیا گیا ہے، اٹھارہ مئی تک کا یہ وقفہ بھی ختم ہوا۔
بھارتی حکومت اور فوج کے ساتھ ساتھ ایئر فورس کے اعلیٰ افسر ایک نئی کہانی گھڑ کر سامنے آتے ہیں کہ وہ تو تخریب کاروں سے لڑنے نکلے تھے، ان کی پاکستانی فوج سے جنگ کی کوئی منصوبہ بندی یا تیاری نہیں تھی۔ اس بے رنگ کہانی پر کوئی فاتر العقل بھارتی بھی یقین کرنے کو تیار نہیں، اب انہیں سمجھ نہیں آرہی کہ کیا بیانیہ اختیار کریں کہ اشک شوئی ہو سکے، وہ الٹے سیدھے ہو رہے ہیں بات نہیں بن رہی، دوران جنگ بھارتی میڈیا بے لگام، پاکستانی میڈیا محتاط اور تہذیب کے دائرے میں نظر آیا، جبکہ ہمارے سوشل میڈیا نے وہ بھر پور جنگ لڑی جس نے بھارت کے سرکاری میڈیا اور ہذیان دانشوروں کے چھکے چھڑا دئیے۔ بھارتی حکومت اور افواج اس کی تاب نہ لا سکیں، یوں انہوں نے اس کی نشریات پر مکمل پابندی لگا دی۔ پاکستانی سوشل میڈیا نے وہ کردار ادا کیا جیسے ہم تو یاد رکھیں گے، بھارتی قوم کبھی نہ بھلا سکے گی، ہماری سوشل میڈیا یلغار میں حقائق کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح کے شاہکار بھی تھے، جسے آرٹیفیشل انٹیلی جنس نے چار چاند لگا دئیے، ان میں مودی کا اپنے آرمی چیف سے مکالمہ میٹنگ، امریکی صدر ٹرمپ سے التجائیں اور مرغا بن کر معافی مانگنے اور مرغا بنے مودی کی پشت پر ہاتھ میں چھتر لیے سوار پاکستان کی اہم ترین اور محبوب شخصیت کے حوالے سے تیار کردہ کلپ تخلیق کا شاہکار تھے، جو عرصہ دراز تک مقبولیت کی اعلیٰ منزل پر فائز رہیں گے۔ پاک بھارت حالیہ جنگ کے حوالے سے دلچسپ ترین تبصرہ یہ ہے کہ ابھی تک تو ہم نے چائنہ کا مال استعمال کیا ہے، ڈاکٹر قدیر والا مال تو استعمال کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ راگ بند کیا جائے کہ ہم ایٹم بم استعمال کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے، حقیقت یہ ہے اور دنیا کو باور کرانا بالخصوص بھارت کے ناکارہ ذہن میں اتارنا ضروری ہے کہ ایٹم بم بنایا ہی اس لیے گیا تھا کہ بھارت کی دست برد سے محفوظ رہ سکیں، بھارت ڈاکٹر قدیر کے مال کا انتظار کرے۔

جواب دیں

Back to top button